پیغام زندگی:پہلے دن بچے کو ایک پیغام دیاجاتاہے کہ یہ زندگی تیری نہیں پرائی ہے ۔وہ پیغام اس اندازمیں دیا جاتاہے کہ ایک کان میں اذان دیتے ہیںاوردوسرے میں اقامت کہتے ہیں۔ اسی لیے جنازے کی نہ اذان ہے نہ اقامت ہے کیونکہ وہ تو پہلے ہو چکی ۔ اس لیے بہترین انسان وہ ہے جو زندگی کے دن رات کو گن کر گزارے ۔مال کو گن کر حساب وکتاب کرکے چلنے والا،اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلانے والا کامیاب شخص ہوتاہے اور ناکام شخص وہ ہے جس کے زندگی کے دن تھوڑے اور امیدیں ‘خواہشیںاور تمنائیں زیادہ ہیں۔نصیحت سے مقصد اپنی اصلاح:غورکیجئے !اگر ہر شخص یہ سمجھے گاکہ میں اپنے لیے کر رہاہوں اور مجھ جیسا جو یہ کہے کہ میں اپنے لیے بات کررہاہوںپھر بات صحیح سمجھ آئے گی ۔اگر مجمع کیلئے سمجھیں گے تو مجمع کو سمجھ آجائے گی مجھے نہیں آئے گی۔جو زندگی اپنی ہے ہی نہیں اس زندگی سے وفا کا وعدہ کرلیں؟ یہ کیسی عجیب بات ہے ؟ زندگی اس انداز سے واپس لی جاتی ہے کہ بندے کو پتہ ہی نہیں چلتا اور بندہ چلا جاتاہے۔ ایک پل کے اند جھٹکا لگتا ہے بس!چھوٹا سا احساس ہوتاہے کہ موت کی آخری ہچکی اپنے آغوش میں لے لیتی ہے۔نہایت ہی خوش قسمت انسان:کتنا خوش قسمت انسان ہے جوایسے اعمال کی تعمیرکرجائے جو اس کی قبر کو کشادہ کرنے کا ذریعہ بن جائیں۔ہم اعمال کی تعمیر کریں‘نماز کی تعمیر کریں‘ ذکر کی تعمیر کریں‘قرآن سے محبت کی تعمیر کریں ‘اخلاق کی تعمیر کریں‘ایمان کی تعمیر کریں، اپنی تنہائیوں کی تعمیر کریں اور ایسی جگہ کی تعمیر کریں جہاں اللہ کا نام لیا جائے۔ بعض قبریں ایسی ہوتی ہیں جن کے نشان نہیں رہتے۔ جو صاحب نظرہیں اورجن کی دل کی دنیا کھلی ہوتی ہے وہ ان قبر والوں سے ملاقات کرلیتے ہیں۔صاحب نظر جب بھی صاحب قبروالوں سے ملتے ہیں توان سے پوچھتے ہیں کہ: ’’تیرا کیا عمل تھا دنیا میں؟‘‘تو صاحب قبر کہنے لگے:’’ ہم نے دنیا میں رہتے ہوئے دل کی دنیا میں خالق ِحقیقی کو بسایا تھا۔ آخرت کو یاد رکھا تھااورموت کو یاد رکھا تھا۔ بس اسی وجہ سے یہ مقام حاصل ہوگیا۔‘‘ندامت پر رب کی شان کریمی: اللہ سے محبت اور اللہ کے رسول ﷺ سے پیار، قبروآخرت ،اللہ پاک کا خوف اور اللہ کی محبت کا شوق یہ چیزیں کبھی ضائع نہیں جا تیں۔ ندامت اورپچھتاوے کیلئے نیک ہونا ضروری نہیں‘ متقی ہونا ضروری نہیں‘ تہجد گزار ہونا ضروری نہیں‘جہادی ہونا ضروری نہیں ‘غازی ہونا ضروری نہیں‘ نمازی ہونا ضروری نہیں۔بخشش کا متلاشی:صحیحین میں ایک حدیث ہے کہ: بنی اسرائیل کے ایک شخص نے ایک کم سو قتل کیے۔ قتل کرنے کے بعد ایک احساس ہوا کہ میںاتنا بڑا قاتل ہوں‘میری بخشش کیسے ہوگی؟ بس بخشش کا ایک خوف اوراللہ جل شانہٗ کی جلالت کاخوف دل کے اندر پیدا ہوگیا اور اس کے قدم اٹھے کہ کوئی اللہ والا ڈھونڈو، کوئی اللہ والا ملے۔ اس دور کے ‘اس امت کے ایک اللہ والے راہب تھے ۔ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان کے پاس گیا اور ان سے جاکر اپنی کہانی بتائی کہ دنیا کا کوئی جرم ایسا نہیں جومیں نے نہیں کیاہواور سب سے بڑا جرم قتل ہے جو میں نے کیا ہے اور ایک نہیں ننانوے قتل کیے ہیں۔آپ فرمائیںمیری بخشش کی سبیل؟میری بخشش کی امید؟میری بخشش کا کوئی راستہ مل سکتاہے؟ اللہ والے راہب نے سوچ کر کہا کہ ممکن نہیں۔اتنا بڑا مجرم ہے کہ تیری بخشش کا کوئی راستہ مجھے نظر نہیں آرہا۔ وہ قاتل مایوس ہو گیا اورایسا مایوس ہو اکہ اس اللہ والے راہب پر اس قدر غصہ آیاکہ اس کو بھی قتل کردیا۔ اب سوپو ر ے ہوگئے۔ کریم ذات کی کریمی کا عالم دیکھیں ،اس کی شان کریمی دیکھیںاور بندے کے جرائم کی کیفیت دیکھیں کہ وہ اللہ والے راہب کا قتل بھی کرگیا اور پھر بھی بخشش کی امید پر چل رہا ہےاور کہتا ہے کہ نہیں میں آگے جا کر کسی اور سے پوچھوں گاکہ کوئی بخشش کا نظام ‘کوئی بخشش کا سامان ‘کوئی بخشش کا راستہ ‘کوئی توبہ کا دروازہ کہیں سے بھی مل جائے۔ اگر دنیا کے کسی حساب دان کو، دنیا کے کسی شخص کو یہ پیمانہ دے دیا جائے کہ ایک بندہ بخشش کیلئے نکلاہے وہ بخشش چاہتاہے‘ پھر بخشش چاہتے چاہتے مزید جرم بھی کربیٹھتا ہے اور جرم بھی قتل جیسا ہواور قتل بھی کس کو کیا؟ ایک اللہ والے کو۔
سچے جذبہ پر جنت کی بشارت:بنی اسرائیل میں اللہ والوںکو راہب کہتے تھے۔جواپنی زندگیاں اللہ کی راہ میں وقف کردیتے تھے۔ وہ شخص بھی ایک اللہ والے راہب کو قتل کر بیٹھا۔ پھر بخشش کے سامان کی تلاش میں پھر رہا ہے کہ شایدکوئی بخشش کی امید مل جائے۔ اب اس کے اندر سچی توبہ کا جذبہ ہے ، اللہ جل شانہٗ کی سچی محبت پانے کا جذبہ ہے، راستے میں موت آگئی ۔اب اِدھر سے سزا والے فرشتے آگئے اور اُدھر سے جزا والے فرشتے آگئے۔اِدھر سے جنت والے فرشتے آگئے اُدھر سے جہنم والے فرشتے آگئے۔ اب دونوں فرشتے اکھٹے ہوگئے۔جہنم والے کہنے لگے کہ یہ ہمارا ہےاور بنتا بھی انہیں کاتھا کیونکہ اس نے سو قتل کردیئے ہیں اب باقی کیا بچا ہے۔ اب جنت اور جہنم والے فرشتوں میں جھگڑاہوا۔ تو فرشتوںنے فرمایا کہ: ایسا کرتے ہیںزمین ناپ لیتے ہیں۔ بخشش اور توبہ والا علاقہ زیادہ قریب ہے یا گناہوں والاعلاقہ زیادہ قریب ہے۔ اس کے سچے جذبے پراللہ کریم نے شان کریمی سے کرم فرمایاکیونکہ اللہ کے ہاں سچے جذبے کی بڑی قیمت ہے ‘اللہ پاک نے اس کو بخشش والوں کے حوالے کردیااور جہنم والے دیکھتے رہ گئے اور جنت والے اسے لے کرچلے گئے۔ سچے جذبوں پر اونچا مقام: انسانیت کے خون کا ایک قطرہ اللہ جل شانہٗ کے ہاں نہایت قیمتی ہے چاہے وہ مسلمان کاہو یا کافرکاہو۔ وہ شخص جس جذبہ کو لے کر چل رہاتھا وہ جذبہ انسانیت کے خون کے قطرے سے کہیں زیادہ قیمتی تھا اور کہیں زیادہ مہنگا تھا۔ اللہ کے ہاں توبہ کرنیوالے کا جذبہ بڑا عظیم ہو تا ہے (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں