Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

اسلام کے کاروباری اخلاق!

ماہنامہ عبقری - دسمبر 2014ء

(ڈاکٹر بشیر احمد)

اسلام ایک ایسا نظام حیات ہے جو جہاں عقائد‘ عبادات اور روحانیات کے بارے میں ہدایات دیتا ہے وہاں سیاسی‘ سماجی‘ معاشی اور اخلاقی مسائل کے حل کیلئے بھی انسانیت کی رہبری کرتا ہے۔ مطلب کہ زندگی کا کوئی بھی ایسا پہلو نہیں جس کے بارے میں اسلام کی بنیادی اور اصولی ہدایات موجود نہ ہوں لیکن چونکہ ہمارا موضوع کاروباری اخلاق کے بارے میں اسلامی تعلیمات پر بحث کرنا ہے اس لیے ہم سب سے پہلے کاروبار کی اہمیت پر بحث کریں گے اس کے بعد اخلاق اور کاروباری اخلاق پر گفتگو کریں گے۔
کاروبار کی اہمیت: یہ ایک حقیقت ہے کہ رزق حاصل کرنے کے جتنے بھی ذرائع ہیں ان میں کاروبار سب سے بڑا اوراہم ذریعہ ہے۔ کسی فرد قوم اور ملک کی آزادی‘ خودمختاری‘ خوشحالی‘ تعمیروترقی میں کاروبار اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کاروبار کی اس اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ترجمہ: ’’ایک دوسرے کا مال ناجائز ذریعے سے نہ کھاؤ بلکہ باہمی رضامندی کے ساتھ تجارت کی راہ سے نفع حاصل کرو۔‘‘ (النساء 29)ترجمہ: ’’جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کے فضل (مال تجارت و رزق) کو تلاش کرو۔‘‘ (الجمعہ 10)یہاں ’’فضل‘‘ سے مراد طلب رزق و مال ہے اور آیت کا شان نزول (Back Ground) ترغیب تجارت پر مبنی ہے۔حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سچا اور امانت دار تاجر قیامت کے دن نبیوں‘ صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔ (جامع ترمذی)
ایک اور روایت میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’رزق بیس دروازوں سے آتا ہے‘ ان میں سے انیس تاجر کیلئے کھلے ہوئے ہیں۔‘‘ (کنزالعمال)اس کا مطلب کہ 95 فیصد رزق کے دروازے کاروباری لوگوں کیلئے کھلے ہوئے ہیں‘ یہی سبب ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ سرمایہ کاروباری لوگوں کے پاس ہے۔ذرائع معاش میں کاروبار کی جو اہمیت ہے اس کو بیان کرتے ہوئے مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی فرماتے ہیں: ’’اقتصادی نظام کی ترقی و برتری کا راز سب سے زیادہ تجارت میں مضمر ہے جو قوم یا ملت جس قدر اس میں دلچسپی لیتی ہے وہ اسی قدر اپنی اقتصادی بہبود کی زیادہ خود کفیل بنتی ہے اور جس قوم یا ملک کے باشندے تجارت سے دلچسپی نہیں رکھتے وہ اقتصادی نظام میں ہمیشہ دوسروں کے دست نگر رہتے ہیں اور اسی راہ سے دوسری اقوام ان کے تمدن‘ تہذیب‘ معیشت اور سیاست بلکہ ’’مذہب‘‘ پر قابض ہوجاتی ہیں اور ان کو غلام بنا کر مطلق العنان حکومت کرتی ہیں۔۔۔جس قوم میں تجارت نہیں ہے وہ آج نہیں تو کل ضرور غلام بن کر رہے گی اور جو ملک تجارت کی برکتوں سے محروم ہے وہ صبح نہیں تو شام تک ضرور ہلاکت میں گر کر تباہ ہوجائے گا۔ اسلام نے اسی لیے بار بار تجارت کی ترغیب دی ہے اس کے فضائل و برکات سنائے‘ دنیوی فائدے بتائے اور دینی بشارتیں سنائیں۔‘‘ (اسلام کا اقتصادی نظام 242 سے244) اخلاق کا وصف: اخلاق ایسے اصولوں کا مجموعہ ہے جن کے ذریعے اچھے اور بُرے‘ صحیح اور غلط حق اور ناحق میں تمیز کی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں جو علم بھلائی اور برائی کی حقیقت کو ظاہر کرے انسانوں کو آپس میں کس طرح معاملہ کرنا چاہیے اس کو بیان کرے‘ لوگوں کو اپنے اعمال میں کس منتہائے غرض اور مقصد عظمیٰ کو پیش نظر رکھنا چاہیے اس کو واضح کرے اور مفید وکارآمد باتوں کی نشاندہی کرے اسے علم الاخلاق کہا جاتا ہے۔کاروباری اخلاق: کاروباری اخلاق دراصل علم الاخلاق کی ایک شاخ ہے جس میں اخلاقی اصولوں اور ضابطوں کو تجارتی نقطہ نگاہ سے دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔ اس میں کاروباری حوالے سے مختلف مسائل اور کاروباری لوگوں کی ذمہ داریوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کاروباری اخلاق کے کچھ متعین اصول ہوتے ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے کاروباری معیار بنائے جاتے ہیں اور پھر لاگو کیے جاتے ہیں اور یہ فیصلہ دیا جاتا ہے کہ کیا صحیح اور کیا غلط اور کیا کیا جائے اور کیا نہیں کیا جائے۔ مطلب کہ کاروباری اخلاق کا تعلق کاروبار میں اچھے اور بُرے صحیح اور غلط حق اور ناحق کے مطالعہ سے ہے۔
اسلام میں اخلاق: اسلام اپنی تعلیمات میں اخلاقی اصولوں کو بہت بڑی اہمیت دیتا ہے اسلام چاہتا ہے کہ انسانوں کے باہمی تعلقات‘ چاہے وہ سیاسی ہوں‘ سماجی ہوں یامعاشی ہوں‘ بہتر انسانی رویوں پر مبنی ہوں۔ اس حوالے سے قرآن اور سنت میں بہت سی تاکیدیں اور ترکیبیں آئی ہیں۔ ہم اس بارے میں کچھ قرآنی آیات کے ترجمے اور احادیث کا ذکر کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ ترجمہ: ’’تم بہترین امت ہو‘ جسے لوگوں کیلئے نکالا گیا ہے۔ تم اچھی باتوں کا کہتے ہو اور بُری باتوں سے روکتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران 110)قرآن مجید نے نبی کریم ﷺ کی یہ صفات بیان کی ہیں۔ ترجمہ: ’’وہ انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بُری باتوں سے روکتے ہیں اور ان کیلئے پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں۔‘‘ (الاعراف:157) ایک اور آیت میں ارشاد ہے۔ ترجمہ: ’’ بلاشبہ آپﷺ اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔‘‘ (القلم 4)حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہے۔‘‘ (مسند احمد) ایک اور جگہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری) اسلام کی تعلیم سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ انسان آپس میں اچھے رویوں کے ساتھ رہیں اور اپنے سارے معاملات بہتر سلوک کے ساتھ حل کریں۔ اسلام چاہتا ہے کہ ایک انسان کا سلوک اپنے رشتے داروں سے دوستوں سے‘ اکٹھے کام کرنے والوں سے‘ اساتذہ سے‘ شاگردوں سے‘ ماتحتوں سے‘ افسروں سے‘ گاہکوں سے‘ عوام سے‘ خواص سے‘ مطلب کہ انسانی سماج کے ہر شخص سے بہتر اور اچھے طریقے سے ہو۔کاروباری اخلاقی قدریں: اسلام جس طرح زندگی کے دوسرے معاملات میں اخلاقی قدریں دیتا ہے اسی طرح تجارتی اور کاروباری حوالے سے بھی اپنی کچھ اخلاقی قدریں دیتا ہے۔ اسلام نہ تو سرمائیدارانہ نظام کی طرح دولت کمانے کا عام لائسنس دیتا ہے اور نہ ہی اشتراکیت کی طرح اشیاء صرف کے علاوہ ذرائع پیداوار کی ملکیت پر پابندی لگاتا ہے بلکہ وہ بنیادی طور پر زمین و آسمان کی ساری چیزوں کو خدا کی ملکیت قرار دیتا ہے اور پھر ان کو حاصل کرنے کیلئے کچھ اخلاقی اصول دیتا ہے جن کو سامنے رکھتے ہوئے ہر شخص ان کو حاصل کرسکتا ہے۔کاروبار کے سلسلے میں اسلام نے جو اخلاقی اصول یا اخلاقی قدریں دی ہیں ہم ان میں سے کچھ اہم ذکر کرتے ہیں۔آزادی اختیار: اسلام ہر شخص کومکمل طور پر معاشی جدوجہد کی آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی کے ساتھ اپنی روزی حاصل کرنے کیلئے جو بھی کاروبار چاہے کرے بشرطیکہ وہ اسلام میں حلال اور جائزہو۔ اسلام نہ تو کسی فرد کو اور نہ کسی ریاست کویہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی فرد یا گروہ کو کسی کاروبار کے کرنے یا چھوڑنے پر مجبورکرے۔ اسلامی اصول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی روزی مختلف دھندھوں میں رکھ دی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ ترجمہ: ’’کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں‘ ہم نے دنیا کی زندگی میں ان کے درمیان ان کی معیشت تقسیم کردی ہے اور ان میں سے بعض کو بعض پر (مالی) فوقیت دی ہے تاکہ ایک دوسرے کے کام آسکیں۔‘‘ (الزخرف32) مطلب ظاہر ہےکہ خالق کائنات نے فطری نظام کے تحت مختلف لوگوں کی روزی مختلف کاروباروں میں رکھی ہے اور ان ہی دھندھوں میں ان کو دلچسپی دی ہے تاکہ انسانی ضرورت کی چیزیں لوگ ایک دوسرے کو فراہم کرتے رہیں اور وہ اسی طرح ایک دوسرے کے کام آتے رہیں اور کچھ لوگ اپنی محنت‘ ذہانت اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی وجہ سے دوسروں سے معاشی برتری حاصل کرسکتے ہیں۔رزق حلال کا حصول: اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ تلاش رزق میں حلال اور حرام کا خیال رکھا جائے‘ جن وسائل رزق کو اللہ تعالیٰ نے جائز اور حلال قرار دیا ہے‘ ان کے ذریعے روزی حاصل کی جائے اور جن وسائل رزق کو اللہ تعالیٰ نے حلال اور حرام‘ جائز اور ناجائز کا یہ اصول اجتماعی مفاد کے پیش نظر رکھا ہے‘ اس سلسلے میں ہم چند قرآنی آیات اور احادیث کا ذکر کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ ترجمہ: ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے نہ کھاؤ اور نہ ہی اپنا مال حاکموں کے سامنے اس مقصد کیلئے لے جاؤ کہ جان بوجھ کر لوگوں کے مال کا کچھ حصہ گناہ کے طور پر کھاجاؤ۔‘‘ (البقرہ 188)ترجمہ: ’’ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے نہ کھاؤ مگر تجارت کے ذریعے باہمی رضا کے ساتھ نفع حاصل کرو۔‘‘ایک مرتبہ کسی نے آپ ﷺ سے دریافت کیا کہ رزق حاصل کرنے کا کونسا ذریعہ بہتر ہے؟ تو آپ ﷺ نے جواب دیا ’’آدمی کا اپنے ہاتھ کی محنت سے کمانا اور ہر جائز خریدو فروخت۔‘‘مذکورہ آیات و حدیث سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو جائز ذریعے سے روزی حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ناجائز ذریعوں سے روزی کمانے سے روکا گیا ہے۔مطالعہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے نہ صرف حرام ذرائع سے روزی حاصل کرنے سے روکا بلکہ ایسے ذرائع جن کے جائز یا ناجائز ہونے میں شبہ ہو ان سے بھی گریز کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ’’جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اس کو چھوڑ دو‘ ایسی چیز کو لے لو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے‘‘ (ترمذی)آپ ﷺ سے یہ بھی روایت ہے کہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے‘ ان دونوں کے مابین کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے تو جس شخص نے اپنے آپ کو مشتبہ چیزوں سے بچالیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچالیا اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں پڑگیا وہ گویا کہ حرام میں پڑگیا‘‘ (جاری ہے)    (بشکریہ! ختم نبوت)۔

Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 731 reviews.