حضرت مولانا دامت برکاتہم العالیہ عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ان کی نامور شہرہ آفاق کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
اسے بچپن سے کیمیا گری کا شوق تھا‘ جوانی میں بادشاہ بن گیا تو اس نے اپنے وزراء کو کسی کیمیاگر کی تلاش کرنے کا حکم دیا‘ ایک ہوشیار وزیر نے بتایا کہ ایک بہشتی بوڑھا (سقہ) یہ فن جانتا ہے‘ بہشتی کو طلب کیا گیا‘ بادشاہ نے اس سے کیمیا گری سکھانے کے لے کہا‘ بھشتی بولا جہاں پناہ آپ ہمارے بادشاہ ہوکر کیسے بھولی باتیں کررہے ہیں‘ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ملک کے بادشاہ کو اتنی بھی عقل نہیں کہ اگر مجھے کیمیا گری آتی تو میں کیوں پانی بھرتا پھرتا؟ بات بالکل معقول تھی‘ بادشاہ خود بہت شرمندہ ہوا اور وزیر پر بہت ناراض ہوا کہ اس کی حماقت کی وجہ سے بادشاہ کی سبکی ہوئی‘ وزیر نے کہا کہ جہاں پناہ بہشتی کیمیا گری جانتا ہے‘ یہ تو تحقیق ہے مگر یہ بادشاہ کو کیمیا گری نہیں سکھائے گا‘ جب تک کچھ روز اس کے گھر جاکر اس کی خدمت کرکے اعتماد نہ حاصل کیا جائے‘ بادشاہ کو کیمیا گری کی دھن تھی‘ اس نے تخت وزیر کو سونپا اور بھشتی کے شہر پہنچا‘ سادہ سے کپڑے پہنے اور بھشتی سے بولا کہ اباجی میری گھر سے لڑائی ہوگئی ہے‘ یہاں مجھے کوئی آسان سی مزدوری بتادیں کہ میں بس گزارا کرسکوں‘ بھشتی نے نوجوان کو دیکھا بولا: بیٹا توکسی بڑے گھر کا جوان دکھائی دیتا ہے‘ بس تو میرے ساتھ میرے گھر پر رہنا‘ مجھے دو روٹیاں ملتی ہیں ایک تو کھالیا کرنا‘ بادشاہ کو دھن تھی‘ بھشتی بوڑھے کے یہاں رہنے لگا‘ بھشتی پانی بھر کر مزدوری کرکے آتا تو یہ اس کے گھر کی صفائی کرتا اور خوب خدمت کرتا‘ کبھی اس کے پاؤں دباتا‘ کبھی بدن دباتا‘ ایک ماہ تک بادشاہ بوڑھے بھشتی کے یہاں رہا اوردیکھتا رہا‘ وہ ٹوہ میں لگا رہا کہ کب بوڑھا بھشتی کیمیا بناتا ہے لیکن بہت ٹوہ کے باوجود اسے کوئی آثار کیمیاگری کے نہیں ملے‘ اسے وزیر پر پھر بہت غصہ آیا کہ اس کی حماقت کی وجہ سے ایک ماہ مجھے بوڑھے کی خدمت بھی کرنی پڑی‘ مایوس ہوکر اس نے بوڑھے سے کہا: اباجی مجھے گھر والے یاد آرہے ہیں اب میں گھر جانا چاہتا ہوں‘ بوڑھے نے کہا بیٹا بہت اچھا‘ تم نے بہت خدمت کی ہے‘ تم شریف خاندان کے جوان معلوم ہوتے ہو‘ مجھے ایک فن آتا ہے‘ میں کیمیاگری جانتا ہوں‘ میں تمہیں وہ سکھادیتا ہوں‘ تمہارے بہت کام آئے گا‘ بادشاہ نے کہا میرے گھر سب کچھ ہے‘ مجھے اس کی ضرورت نہیں مگر بوڑھے نے اصرار کیا بیٹا سیکھ لو‘ سیکھنے میں کیا حرج ہے‘ بنانا نہ بنانا تمہیں اختیار ہے۔ بوڑھے نے بادشاہ کو کیمیاگری سکھائی‘ بادشاہ دربار میں پہنچا اور بوڑھے بھشتی کو طلب کیا‘ اس نے کہا تم تو یہ کہہ رہے تھے کہ مجھے کیمیاگری نہیں آتی‘ بھشتی جو اب بادشاہ کو پہچان رہا تھا ہنس کر بولا: کیمیاگری تو مجھے پہلے بھی آتی تھی مگر حضور! کیمیاگری کا اصول یہ ہے کہ یہ بغیر پاؤں دبائے نہیں آسکتی‘ بادشاہ بوڑھے کے جواب سے خوش ہوا۔
بات بالکل سچ ہے کوئی بھی فن کسی صاحب فن کی خدمت کے بغیر نہیں آتا‘ جب معمولی دنیوی فنون کا یہ حال ہے تو اللہ کا دین‘ اس کا علم‘ اس کی معرفت کس طرح بغیر خدمت کے حاصل ہوسکتی ہے‘ کسی نے کیا خوب کیا ہے:۔؎
تمنا دردِ دل کی ہےتو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینہ میں
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں