میرے پاس ایک بوڑھا شخص جس کا نام (م) تھا خیرات لینے آتا تھا میں اسے خیرات دیتا تھا اور عیدالاضحی پر قربانی کی کھال وغیرہ اور گاہے بگاہے صدقہ زکوٰۃ دیتا رہتا تھا اور شخص پندرہ بیس دن بعد میری دکان سے اکثر پانچ سات سوروپے کا سودا لے جاتا اور امانتاً رقم بھی میرے پاس رکھوا جاتا تھا۔ میں نے اس سے کئی دفعہ پوچھا بابا جی اتنا سودا سلف کیا کرتے ہو؟ اتنا تو میرے گھر کا بھی خرچہ نہیں ہے۔ وہ کہتا کہ میں اندرون سندھ میں رہتا تھا میری بیوی اور بچوں کو اغواکاروں نے اغواء کرلیا۔ ایک بیٹی بچ گئی تھی جوقریبی کالونی میں رہتی ہے شادی شدہ ہے یہ سارا سامان اس کیلئے لے جاتا ہوں۔ تقریباً چار سال گزر گئے مجھے اس بزرگ کی باتوں میں کچھ صداقت نظر نہ آئی میں نے آہستہ آہستہ اسے خیرات صدقہ دینا بند کردیا۔ کبھی کبھار کچھ مدد کردیتا۔ ایک ہفتہ قبل وہ بوڑھا فقیر میری دکان کے سامنے صبح صبح کھڑا تھا میں دکان کھولنے کیلئے بازار آیا‘ اس شخص کی چادر (تہہ بند) کھلی ہوئی تھی کچھ شرارتی لڑکے اور ہمسائے اکٹھے ہوکر اس کا مذاق اڑا رہے تھے میں نے ان کو منع کیا اور شٹر کھولنے کے بعد بابا جی کو دکان کے اندر لے آیا اور خود اس کی چادر درست کرکے باندھی اور ان سے کہا بابا جی اب آپ بہت ضعیف ہوگئے ہیں بازار میں خیرات یا سودا لینے نہ آیا کریں۔ اب عمر کا آخری حصہ ہے گھر میں رہا کریں اور اللہ کا ذکر کیا کریں۔ لیکن دو دن بعدپھر مجھے مانگتے ہوئے نظر آئے۔ آج صبح حسب معمول میں نے دکان کھولی اور اللہ کے ذکر میں مشغول ہوگیا اس بوڑھے بابا کی بیٹی آگئی جو پہلے بھی کبھی کبھار اپنے والد کے ساتھ دکان پر آیا کرتی تھی اور مجھے کہنے لگی کہ بھائی جان میرے گھر والا (یعنی اس کا خاوند) سخت بیمار ہے ہسپتال میں داخل ہے ہمیں عشرزکوٰۃ سے کچھ رقم لے دو کیونکہ آپ کا لوگوں سے تعلق واستہ ہے۔ میں نے کہاکہ آپ کے گھر والے کو کیا بیماری ہے؟ کہنے لگی اسے بہت شوگر ہے تقریباً 500 تک ہے اور جگر بھی کام نہیں کرتا‘ میرے خاوند کو کسی نے تعویذ ڈال دیئے تھے اس کے تمام بدن میں آگ لگی رہتی تھی۔ ابھی کچھ دن پہلے ایک بزرگ سے تعویذ نکلوائے ہیں اب ان کو کافی فرق ہے لیکن اب اس کے علاج کیلئے ہمارے پاس رقم نہیں ہے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ باجی اپنے والد صاحب سے کہوکہ خیرات نہ مانگا کریں وہ میری بات سنتے ہی روپڑی اور اتنا روئی کے خدا کی پناہ اور پھر کہانی سنانا شروع کی کہ میرا والد اپنے کئے کی سزا اٹھارہا ہے اس نے جو کہانی بتائی وہ کچھ یوں ہے: میرے دادا ابو کی 60 ایکڑ زمین اندرون سندھ میں تھی جس میں سے میرے والد کے حصہ میں ساڑھے بارہ ایکڑ اراضی آتی تھی میرے والد نے پہلے ایک شادی کی جو تقریباً تین سال رکھی اس میں سے کوئی اولاد نہ ہوئی‘ میرے والد کے سسرال والوں نے طلاق لے لی۔ دوسری شادی میری والدہ سے کی جو کہ خاندان میں تھی جس میں سے ہم تین بہنیں اور دو بھائی تھے۔ اب جن میں سے ہم دو بہنیں اور ایک بھائی زندہ ہے۔ اس کے بعد میرےو الد نے ایک دوسرے خاندان میں شادی کیلئے رجوع کیا‘ میری بڑی بہن جو ابھی بالغ بھی نہ تھی اپنی شادی کیلئے اسی خاندان میں ایک لڑکے کو دے دی۔ انہوں نے کہاکہ ہم اپنی بچی جو ابھی کچھ چھوٹی ہے بڑی ہونے پر آپ کو بیاہ دیں گے۔ تقریباً دو ماہ بعد وہ لوگ رات کی تاریکی میں میری بہن کو کسی کے گھر میں چھوڑ کر اپنا مکان بیچ کر نکل گئے۔ میرے والد نے چوتھی شادی (ش)عورت سے کی جو بہت ظالم ہے اس کو بیاہ کر میرا والد ہمارے گھر لے آیا۔ میری سگی والدہ نے اپنی سوکن کو برادشت کیا میرا والد میری والدہ کو بہت مارتا تھا میری والدہ کہتی تھیں کہ میں تیرا گھر چھوڑ کر نہیں جائوں گی۔ میرے والد نے میری نئی والدہ کی عیاشی بدمعاشی میں دس ایکڑ زمین فروخت کردی۔ اڑھائی ایکڑ زمین باقی بچی ایک دن میری دادا اماں قرآن اٹھا کر لے آئی اور میرے والد کے ہاتھ پر رکھ دیا اور کہاکہ باقی زمین فروخت نہ کرنا لیکن میرےوالد نے ایک نہ مانی وہ زمین بھی فروخت کردی گھر بھی فروخت کردیا‘ میری والدہ اپنے والدین (یعنی میرے نانا نانی) کے گھر چلی گئی۔ میری دادی اماں فوت ہوگئی‘ ہم دونوں بہنوں کی شادی ہوگئی‘ میرا بھائی مل میں ملازم ہے۔ نئی والدہ نے میرے والد کو خوب دونوں ہاتھوں لوٹا جب رقم ختم ہوگئی تو رہائش تبدیل کرنا شروع کردی‘ اس میں سے بھی اولاد ہے اب وہ کہتی ہے کہ جائو مانگ کر لائو اور ہمیں کھلائو۔ پر یہ فقیر بن گیا‘ وہ بیوی اب قریبی شہر میں ہے یہ اب بستر مرگ پر ہے پچھلے دنوں میں اپنے والد کو نہلارہی تھی تو بہت رو رہا تھا کہتا تھا کہ آہستہ صابن لگائو میرے جسم میں درد ہے۔ میں نے کہا کیسا درد ہے؟ کہنے لگے تمہاری سوتیلی ماں نے مجھے ڈنڈے مارے ہیں اور گھر سے نکال دیا ہے کہتی ہے کہ مانگ کر لائو۔ بیشک ہمارا والد قصور وار ہے لیکن میں اسے دھکا نہیں سکتی کیونکہ یہ میراباپ ہے میرے تایا چاچا بھی اب میرے والد کے وارث نہیں بنتے۔ پچھلے ایک ماہ کی بات ہے میرا والد اپنے پرانے دوستوں کے پاس گیا اور ان سے کہاکہ (میری بیوی جو ابھی جوان ہے خوبصورت ہے اور میری بچی جو اس میں سے ہے) ان دونوں کو اٹھا کر لے جائو میں اس کام میں آپ کی مدد کروں گا کیونکہ اب میری بیوی اور بچے میرا کہنا نہیں مانتے۔ میرے بھائی کو پتا چلا تو اس نے میرے والد کو کہاکہ اگر آپ نے یہ حرکت کی تو میں آپ کو قتل کرکے نہر میں پھینک دوں گا۔ اس کے بعد میرا والد اس حرکت سے باز آیا۔ میرے بھائی نے کہا وہ جیسی بھی ہے آخر ہماری سوتیلی ماں ہے اور اس کی لڑکی ہماری بہن ہے لوگ کیا کہیں گے۔
کتےدنبے کھاگئے:ہمارے علاقے کے نائب تحصیلدار نے چار عدد دنبے ادھار لئے اور تین ماہ بعد پیسے دینے کا وعدہ کرلیا وہ چاروں دنبے تحصیلدار نے پٹواری کے گھر بھیج دیئے۔ جب تحصیلدار کا تبادلہ ہوگیا تو پٹواری صاحب نے وہ دنبے میرے گھر بھیج دیئے کہ ان کو اب چارہ وغیرہ تم ڈال دیا کرو۔مگر حق دارکو پیسے نہ دئیے۔ میں ان دنبوں کو دو سال چارہ ڈالتا رہا دو سال بعد ان دنبوں نے دو بچے دیئے۔ رمضان شریف کا مہینہ تھا ہم نماز تروایح ادا کرکے واپس گھر آئے۔ رات کے آخری پہر تمام (4) دنبوں کو آوارہ کتوں نے چیر پھاڑ دیا صرف وہ بچے بچ گئے بعد میں پتا چلا تحصیلدار جو بچے اٹھا کر لے گیا تھا وہ بھی نہ بچے۔ ہمارا تمام مال مویشی اللہ پاک نے اپنی حفظ و ایمان میں رکھے۔ محترم حضرت حکیم صاحب! میرا نام اور شہر کا نام ہرگزشائع نہ کیجئے گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں