اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کے لئے اس دنیا میں جو بھی رزق پیدا کیا ہے ان میں سے اکثر میں جسم کی ضرورت پوری کرنے کے لیے شکر کی مقدار بھی موجود ہوتی ہے۔ گندم، نشاستہ، میدہ، سوجی، پھل وغیرہ یہ سب قدرتی شکر سے مالا مال ہوتے ہیں۔
کیا ہم بغیر ناشتہ کے صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں؟
زندگی روز مرہ کے معمولات کا ایک ایسا چکر ہے جس میں صبح آنکھ کھلنے سے لے کر رات کو بستر پر لیٹنے تک ہم اس میں دوڑتے رہتے ہیں کیا کبھی ہم نے اس بات پر بھی غور کیا ہے کہ اس بھاگ دوڑ میں ہماری جو توانائی صرف ہوتی ہے اگر اس پر ہم نے زیادہ توجہ نہ دی تو ایک نہ ایک دن، وقت سے بہت پہلے ہی، ہم اس چکر میں دوڑتے ہوئے چکرا کر گرسکتے ہیں۔ اکثر لوگ جسمانی توانائی اور روزمرہ کے دنیاوی معمولات میں موجود ربط کو سمجھنے اور اپنی توانائی میں اضافے کے بجائے صرف اور صرف اپنے معمولات پر ہی زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں پھر نتیجہ بھی ایسا ہی نکلتا ہے۔ جسم نڈھال رہنے لگتا ہے۔ کام میں جی نہیں لگتا کوئی بات کرے تو اسے کاٹ کھانےکے لیے دوڑنے لگتے ہیں۔کام زندگی کا حصہ ہیں اور ان کا نمٹایا جانا بھی ضروری ہے، کیونکہ یہی زندگی کا چلن ہے لیکن اگر جسمانی توانائیاں ساتھ چھوڑنے لگیں تو کیا ہم زندہ رہ کر بھی صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔
دن کا آغاز اچھے ناشتہ سے کیجئے!
یہ بات نہایت عام ہوچکی ہے کہ اکثر مرد و خواتین یا تو ناشتہ سرے سے ہی نہیں کرتے یا پھر ناشتے کے نام پر صرف ایک یا دو کپ چائے، کافی یا پھر ایک آدھ توس کھا کر سمجھتے ہیں کہ ناشتہ کرلیا۔ بس پھر وہ ہوتے ہیں اور زندگی کی ذمہ داریاں، گھریلو خواتین میں تو یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ وہ عموماً سرے سے ہی ناشتہ پر توجہ نہیں دیتی ہیں۔ یہ ایک غلط رحجان ہے۔ معالجین کی نظر میں ایک انسان کی صحت کو برقرار رکھنے میں ناشتے کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ پُر غذائیت ناشتہ انسان کے لیے بہت اہم ہے۔ آدمی کو سب سے اچھی اور متناسب غذا کی ضرورت صبح کو ناشتے کے وقت ہوتی ہے، لہٰذا دن کا آغاز اچھے ناشتے سے کیا جانا چاہیے۔
ہم صبح جب نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو ہمارا معدہ 12گھنٹے سے خالی ہوتا ہے۔ رات کے کھانے اور صبح کے ناشتے کے درمیانی عرصے کے دوران ہمارے جسم کو غذائیت نہیں ملتی ہے، لہٰذا صبح سویرے جسمانی خلیوں کو بھی اپنی توانائی کی ازسرنو بحالی کے لیے خوراک درکار ہوتی ہے۔ رات بھر کے فاقے سے خون میں شکر کی مقدار بھی خاصی کم ہو جاتی ہے۔ جسم کی ساخت جن خلیوں کی وجہ سے ہوتی ہے وہ اپنا رزق شکر سے حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ صبح سویرے جسم کے ان خلیوں کو شکر کی مقدار درکار ہوتی ہے۔ جسم میں مناسب توانائی، قوت عمل کے اظہار اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے لئے جسم میں، مناسب مقدار میں شکر کا ہونا بھی ضروری ہے۔ شکر کی یہ ضرورت صرف چائے، کافی سے ہی پوری نہیں ہوتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کے لئے اس دنیا میں جو بھی رزق پیدا کیا ہے ان میں سے اکثر میں جسم کی ضرورت پوری کرنے کے لیے شکر کی مقدار بھی موجود ہوتی ہے۔ گندم، نشاستہ، میدہ، سوجی، پھل وغیرہ یہ سب قدرتی شکر سے مالا مال ہوتے ہیں۔ معالجین کہتے ہیں کہ اگر ناشتہ بھی بھرپور اور پُر غذائیت نہ ہوتو جسم میں شکر کی مقدار کم ہونے لگتی ہے۔ یوں ناشتہ نہ کرنے یا صحیح طرح سے نہ کرنے والوں کا پورا دن نہایت بیزاری اور تھکن کے عالم میں گزرتا ہے۔ حتیٰ کہ دوپہر کو لنچ کرنے کے باوجود شام تک سستی ان کے وجود کو گھیرے رکھتی ہے۔
ناشتہ ایسا کیا جائے جس میں۔۔۔!!!
ناشتہ ایک آئیڈیل غذا ہے جو کہ آپ اپنے جسم کو دن بھر کے کاموں میں صرف ہونے والی توانائیوں کو برقرار رکھنے کے لیے فراہم کرتے ہیں۔ ماہرین غذائیت کا کہنا ہے کہ دن کا آغاز ایسے ناشتے سے کیا جائے جس میں کاربوہائیڈریٹس کی زیادہ مقدار شامل ہو۔ اگر ناشتے میں کاربوہائیڈریٹس کے اجزاء کی زیادہ مقدار شامل ہوگی تو یہ دن بھر آہستہ آہستہ جسم کو توانائی فراہم کرتے رہیں گے۔ ماہرین غذائیت کا مشورہ ہے کہ ناشتے میں ایک پیالہ دلیہ لینا بہت ہی مفید ہے۔ ان کے مطابق اکثر دلیہ جئی (Oats) سے تیار کیا جاتا ہے۔ جئی میں ریشہ (فائبر) ہوتا ہے اور وٹامنز اور قدرتی معدنیات سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس میں کولیسٹرول کو مقررہ مقدار تک برقرار رکھنے اور بڑھے ہوئے کولیسٹرول کو کم کرنے کی قدرتی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ گیہوں سے تیار شدہ دلیہ بھی عمدہ ناشتہ ہے۔ اس میں ریشے کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو کہ انسان کو قبض کا شکار ہونے سے بچاتی ہے۔ اطباء کہتے ہیں کہ قبض امراض کی جڑ ہے لہٰذا گیہوں کے دانوں سے تیار شدہ دلیہ نہ صرف آپ کو قبض سے بچاتا ہے بلکہ اس میں امراض قلت اور دل کے دورے کے خطرات سے محفوظ رکھنے کی بھی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں اپنی غذائیت کی وجہ سے یہ آپ کو لنچ سے قبل بھوک لگنے سے بھی بچاتا ہے اور آپ کی توانائی بھی بحال رکھتا ہے۔ یوں جب آپ لنچ لیتے ہیں تو جسم میں اتنی توانائی موجود ہوتی ہے کہ آپ کھانے کو بے صبری سے کھانے کے بجائے آرام و اطمینان اور نوالوں کو چبا چبا کر کھاتے ہیں۔ اس طرح اول تو کھانا بھی درست طریقے سے کھالیا جاتا ہے اور کھانے کے بعد شام تک آپ پر سستی و کاہلی بھی بہت زیادہ دیر تک طاری نہیں رہتی ہے۔ ان فوائد کے اعتبار سے آپ کے مصروف دن کے آغاز پر دلیہ سے بہترین کوئی اور چیز نہیں ہے جو کہ پورے دن کے لئے آپ کی توانائی کوبر قرار رکھتی ہے۔
ناشتہ میں دلیہ کے ساتھ دہی کا استعمال
ناشتے میں دلیہ کے ساتھ وہی کا استعمال بھی مفید اور مناسب ہے۔ دہی سے جسم کو کیلشیم ملتا ہے۔ کیلشیم ہڈیوں کی مضبوطی کے لئے نہایت اہم ہے۔ دلیے کے ساتھ دہی کو استعمال کرنے سے جسم کو دن بھر کی ضرورت کے لئے درکار کیلشیم کی مقدار بھی مل جاتی ہے جبکہ ناشتے کا لطف بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جسم کو درکار شکر کی مناسب مقدار کے حصول کے لئے پھلوں یا ان کے رس کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگر آپ ناشتے میں توس لے رہے ہیں تو پھر اس پر ہلکا سا مکھن بھی لگالیں۔ مکھن میں قدرتی طور پر وٹامن ای موجود ہوتا ہے اور یہ توانائی کے لئے جسم کو درکار بنیادی ضرورتوں میں شامل ہے۔ اگر آپ توس پر مکھن نہ لگانا چاہیں تو پھر اس پر شہد لگالیں یہ آپ کی بھوک بھی مٹائے گا اور جسم میں شکر کی مقدار کو بھی پورا کردے گا۔ توس پر شہد کا استعمال بازار میں دستیاب مختلف اقسام کے مربوں سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ ان کے مقابلے میں شہد باآسانی اور جلد ہضم ہوکر جزو بدن ہو جاتا ہے۔ بھر پور ناشتے کے بعد چائے یا کافی کی ایک پیالی بھی لی جاسکتی ہے۔
حالیہ سائنسی تجزیوں میں بھی یہ بات دوہرائی جاچکی ہیں کہ ان میں مانع تکسید (Antioxidants) اجزاء شامل ہوتے ہیں، تاہم ماہرین غذائیت کا کہنا ہےکہ ناشتے میں صرف چائے یا کافی لینا صحت کے لیے مفید نہیں ہے۔ہمارے خوشحال طبقوں میں جو ناشتہ کیا جاتا ہے وہ عموماً توس، مکھن، مربے، ڈبوں میں بند دلیہ اور پھلوں کے شکر آمیز رس پر مبنی ہوتے ہیں۔ متوسط طبقے میں حلوہ پوری، پراٹھا، انڈہ اور چائے وغیرہ نہایت عام ہیں۔ لیکن اس طرح کا ناشتہ کرنے سے ہوتا یہ ہے کہ ہم ضرورت سے زیادہ چکنائی کو اپنے معدے میں انڈیل لیتے ہیں۔ یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ناشتہ ایسی چیزوں سے کیا جائے جن کی غذائیت سارا دن آپ کا ساتھ دے۔ جبکہ اس قسم کے ناشتے سے خون میں شکر کی مقدار فوراً بڑھ جاتی ہے جبکہ معدے پر بھی اس کا برا اثر پڑتا ہے۔ ماہرین غذا تجویز کرتے ہیں کہ پراٹھے کی جگہ کم چکنائی اور روٹی، انڈہ، قدرے سبزی، دہی یا دودھ اور تھوڑی مقدار میں پھل کھانا نہایت مناسب ہے۔ یہ متوازن ناشتے کی ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے اور معدے کو بھی بیجا بوجھ سے بچاتا ہے۔مغرب کی دوڑ بھاگ والی زندگی میں سکون سے اپنے گھر میں ناشتہ کرنے کا رحجان ہی بدل گیا ہے۔ لوگوں کی اکثریت گھر کی کچن ٹیبل پر ناشتہ کرنے کے بجائے اپنے کام کے مقامات پر ناشتہ کرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ جس افراتفری میں یہ ناشتہ کرتے ہیں اس سے نہ صرف ان کا معدہ متاثر ہوتا ہے بلکہ جسم کو درکار توانائی بھی پوری نہیں ہو پاتی ہے۔ماہرین امراض کا کہنا ہے کہ کھانے کو جلد بازی میں نہ کھایا جائے اور نوالوں کو آہستہ آہستہ اور خوب چبا کر نگلا جائے ورنہ دوسری صورت میں معدے پر اس کا خراب اثر پڑتا ہے۔ لہٰذا یہ بات کسی وضاحت کی محتاج نہیں کہ اس طرح جلد بازی میں گھر سے بھوکے نکل کر آنے اور پھر کام کے مقامات پر ناشتہ کرنے والے افراد کس طرح خود امراض کو کھلے عام دعوت دے رہے ہیں۔ نہ صرف امریکا بلکہ خود پاکستان میں بھی یہی رحجان پھیلتا جارہا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں