قبروں میں سے ایک مردہ کی یہ دردناک آواز آئی کہ اے امیرالمومنین! ہماری خبر یہ ہے کہ ہمارے کفن پرانے ہوکر پھٹ چکے ہیں اور جو کچھ ہم نے دنیا میں خرچ کیا تھا اس کو ہم نے یہاں پالیا ہے اور جو کچھ ہم دنیا میں چھوڑ آئے تھے اس میں ہمیں گھاٹا ہی گھاٹا اٹھانا پڑا ہے۔
اندھی آنکھیں روشن ہوگئیں: حضرت زنیرہؓ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے گھرانے کی لونڈی تھیں۔ اسلام کی حقانیت ان کے دل میں گھر کرگئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے‘ جونہی حضرت زنیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے اسلام کا اعلان کیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آپے سے باہر ہوگئے اور انہوں نے خود بھی ان کو خوب خوب مارا اور ان کے گھر کےافراد بھی برابر مارتے رہے یہاں تک کہ مکہ کے کفار نے سربازار ان کو اس قدر مارا کہ ضربات کے صدمات سے ان کی آنکھوں کی روشنی جاتی رہی اور یہ نابینا ہوگئیں۔ اس کے بعد کفار مکہ نے طعنہ دینا شروع کیے کہ اے زنیرہ! چونکہ تم ہمارے معبودوں یعنی لات وعزیٰ کو برا بھلا کہتی تھیں۔ اس لیے ہمارے ان بتوں نے تمہاری آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے۔ یہ خون کھلا دینے والا طعنہ سن کر حضرت زنیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رگوں میں اسلامی خون جوش مارنے لگا اور انہوں نے کہا: ’’ہرگز ہرگز نہیں! خدا کی قسم تمہارے لات و عزیٰ میں ہرگز ہرگز یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ میری آنکھوں کی روشنی چھین سکیں۔ میرا اللہ جو وحدہٗ لاشریک لہٗ ہے وہ جب چاہے گا‘ میری آنکھوں میں روشنی آجائے گی۔‘‘ ان الفاظ کا ان کی زبان مبارک سے نکلنا تھا کہ بالکل ایک دم ہی اچانک ان کی آنکھوں میں روشنی واپس آگئی۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ج2 ص876 بحوالہ بیہقی و زُرقانی علی المواہب ج1 ص270)
قبروالوں سے سوال و جواب:حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ساتھ مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں گئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے قبروں کے سامنے کھڑے ہوکر باآواز بلند فرمایا کہ اے قبر والو! السلام علیکم و رحمۃ اللہ! کیا تم لوگ اپنی خبریں ہمیں سناؤ گے یا ہم تم لوگوں کو تمہاری خبریں سنائیں؟ اس کے جواب میں قبروں کے اندر سے آواز آئی۔ ’’وعلیک السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ! اے امیرالمومنین آپ ہی ہمیں یہ سنائیے کہ ہماری موت کے بعد ہمارے گھروں میں کیا کیا معاملات ہوئے؟ حضرت امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ اے قبر والو! تمہارے بعد تمہارے مال و دولت کو تمہارے وارثوں نے آپس میں تقسیم کرلیا اور تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہوکر دربدر پھر رہے ہیں اور تمہارے مضبوط اور اونچے اونچے محلوں میں تمہارے دشمن آرام اور چین کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس کے جواب میں قبروں میں سے ایک مردہ کی یہ دردناک آواز آئی کہ اے امیرالمومنین! ہماری خبر یہ ہے کہ ہمارے کفن پرانے ہوکر پھٹ چکے ہیں اور جو کچھ ہم نے دنیا میں خرچ کیا تھا اس کو ہم نے یہاں پالیا ہے اور جو کچھ ہم دنیا میں چھوڑ آئے تھے اس میں ہمیں گھاٹا ہی گھاٹا اٹھانا پڑا ہے۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ج2 ص863)
نعرہ تکبیر سے زلزلہ:جنگ قادسیہ میں فتح حاصل ہوجانے کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ’’حمص‘‘ پر چڑھائی کی یہ رومیوں کا بہت ہی مضبوط قلعہ تھا۔ بادشاہ روم نے اس شہر کی حفاظت کیلئے ایک بہت ہی زبردست فوج بھیجی تھی جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس شہر کےقریب پہنچے تو آپ نے اپنے لشکر کو حکم فرمایا لا الہ الا اللہ واللہ اکبر کا بلند آواز سے نعرہ ماریں‘ چنانچہ جب پوری فوج نے ایک ساتھ نعرہ مارا تو اس شہر میں اس زور کا زلزلہ آگیا کہ تمام عمارتیں ہلنے لگیں۔ پھردوسری مرتبہ نعرہ مارا تو قلعہ اور شہر کی دیواریں گرنےلگیں اور رومی فوج پر ایسی دہشت سوار ہوگئی کہ وہ ہتھیار بھی نہ اٹھاسکی بلکہ ایک گراں قدر رقم بطور جزیہ کے دے کر رومیوں نےمسلمانوں سے صلح کرلی۔ (ازالۃ الخفاء مقصد 2 ص 59)
فرشتوں نے سایہ کیا: حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کہتے ہیں کہ جنگ احد کے دن جب میرے والد حضرت عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی مقدس لاش کو اٹھا کر بارگاہ رسالت ﷺ میں لائے تو ان کایہ حال تھا کہ کافروں نے ان کےکان اور ناک کو کاٹ کر ان کی صورت بگاڑ دی تھی۔ میں نے چاہا کہ ان کا چہرہ کھول کر دیکھوں تومیری برادری اور کنبہ قبیلہ والوں نے مجھے اس خیال سے منع کردیا کہ لڑکا اپنے باپ کا یہ حال دیکھ کر رنج و غم سے نڈھال ہوجائے گا۔ اتنے میں میری پھوپھی روتی ہوئی ان کی لاش کے پاس آئیں تو سید عالم حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ان پر روؤ یا نہ روؤ‘ فرشتوں کی فوج برابر لگاتار ان کی لاش پر اپنے بازوؤں سے سایہ کرئے ہوئے ہے۔ (بخاری ج1 ص395)
کفن سلامت بدن تروتازہ: حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا بیان ہے کہ جنگ احد کے دن میں نے اپنے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو ایک دوسرے شہید (حضرت عمرو بن جموح) کے ساتھ ایک ہی قبر میں دفن کردیا تھا۔ پھرمجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میرے باپ ایک دوسرے شہید کی قبر میں دفن ہیں‘ اس لیے میں نے اس خیال سے کہ ان کو ایک الگ قبر میں دفن کروں۔ چھ ماہ کے بعد میں نے ان کی قبر کو کھود کر لاش مبارک کو نکالا تو وہ بالکل اسی حالت میں تھے جس حالت میں ان کو میں نے دفن کیا تھا بجز اس کے کہ ان کے کان پر کچھ تغیر ہوا تھا۔ (بخاری ج1 ص180 وحاشیہ بخاری)اور ابن سعد کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے چہرے پر زخم لگا تھا اور ان کا ہاتھ ان کے زخم پر تھا جب ان کا ہاتھ ان کے زخم سے ہٹایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا۔ پھر جب ان کا ہاتھ ان کے زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیا اور ان کا کفن جو ایک چادر تھی جس سے چہرہ چھپا دیا گیا تھا اور ان کے قدموں پر گھاس ڈال دی گئی تھی چادر اور گھاس دونوں کو ہم نے اسی طرح پڑا ہوا پایا۔ (ابن سعد ج3 ص562) پھر اس کے بعد مدینہ منورہ میں نہروں کی کھدائی کے وقت جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے یہ اعلان کرایا کہ سب لوگ میدان احد سے اپنے اپنے مُردوں کو ان کی قبروں سے نکال کر لے جائیں تو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ میں نے دوبارہ چھیالیس برس کے بعد اپنے والد ماجد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی قبر کھود کر ان کی مقدس لاش کو نکالا تو میں نے ان کو اس حال میں پایا کہ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے جب ان کا ہاتھ اٹھایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا‘ پھر جب ہاتھ زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیا اور ان کا کفن جو ایک چادر کا تھا بدستور صحیح و سالم تھا۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ج 2 ص 864 بحوالہ بیہقی)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں