اس نے کہا کہ پٹی کھول کر پیشاب کرلو۔ ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی میں پیشاب کرنے کیلئے بیٹھ گیا پیشاب کیا آنا تھا چند منٹ کے بعد اس نے گولی مارنی تھی جب میں اٹھا تو میرے ذہن میں آیا کہ مرنا تو ہے کیوں نہ کوئی انوکھا کام کیا جائے
1966ء میں مَیں E.M.E سنٹر کوئٹہ فوج میں تھا ایک دن میری کمپنی میں ایک آدمی آیا جس کا ایک رشتہ دار ہمارے ساتھ رہتا تھا ‘کھانے کے بعد میں نے اس آدمی سے پوچھا کہ آپ 1965ءکی جنگ میں تھے اس کا کوئی واقعہ بتائیں؟ اس نے ایک واقعہ بتایا کہ دورانِ جنگ میں اپنی کمپنی سے علیحدہ ہوگیا اور دشمن کی قید میں آگیا لڑائی ختم ہونے کے بعد بھارت نے ہمارے قیدیوں سے معلومات حاصل کرنا شروع کردیں اور روزانہ 3 آدمیوں کو گولی مار دی جاتی تھی۔ ایک دن میری باری آئی ہم تین آدمیوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر باہر لے گئے میں نے ایک آدمی کو جوکہ انڈین آرمی کا کرنل تھا میں نے کہا کرنل صاحب مجھے پیشاب آیا ہے۔ اس نے کہا کہ پٹی کھول کر پیشاب کرلو۔ ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی میں پیشاب کرنے کیلئے بیٹھ گیا پیشاب کیا آنا تھا چند منٹ کے بعد اس نے گولی مارنی تھی جب میں اٹھا تو میرے ذہن میں آیا کہ مرنا تو ہے کیوں نہ کوئی انوکھا کام کیا جائے۔ میں نے دیکھا کہ ایک انڈین فوجی بندوق ہاتھ میں پکڑے زمین کی طرف نظر کرکے کچھ سوچ رہا ہے میں نے زنجیر کو اپنے ہاتھ میں مضبوطی پکڑ کر زور اس فوجی پر اللہ اکبر کی صدا لگاتے ہوئے اس زور سے مارا جس سے وہ زمین پر گرگیا میرے اٹھنے سے پہلے وہ اٹھا تو دوسرے فوجی نے فائر کردیا جس سے ان کے اپنے فوجی افسر کو گولی لگ گئی اور وہ وہی پر مرگیا میں نے جلدی سے بندوق اٹھائی اور باقی کہ دو انڈین فوجیوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنادیا۔ جلدی سے میں نے اپنے تین ساتھیوں کی ہتھکڑیاں کھولیں اور وہاں سے بھارتی فوجیوں کی بندوقوں کو اٹھایا اور سامنے گنے کے کھیت کی طرف دوڑ پڑے۔ ہم نے گنے کے کھیت کو سائیڈ سے کراس کیا اور دوسرے کھیت میں جوکہ باجرے کا کھیت تھا اس میں گھس گئے۔ انڈین آرمی نے گنے کے کھیت کو گھیرے میں لیکر فائرنگ شروع کردی۔ ہم موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کافی دور نکل گئے۔ تھوڑی دیر سستانے کے بعد بھوک لگی تو ہم نے سب سے پہلے پتھروں کی مدد سے ہتھکڑیوں کے جو باقی حصے ہمارے ہاتھوں میں رہ گئے تھے توڑے اور وہیں پر آرام کیا۔ رات کو پھر سفر شروع کردیا آخر ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے دو راستے الگ الگ ہوجاتے تھے میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ایک ایک بندوق آپ لے لو۔ مگر انہوں نے انکار کردیاپھر ایک ساتھی نے بندوق لے لی۔ وہاں سے ہمارا الگ الگ سفر شروع ہوگیا میں رات کے آخری پہر میں اپنی سرزمین میں پہنچ گیا۔ اپنی فوج کے چند نوجوان ڈیوٹی پر گشت کررہے تھے انہوں نے مجھے پکڑ لیا اور میرے پاس موجود دو بندوقیں اپنے قبضہ میں لے کر ایک درخت کے پاس بٹھادیا کہ ہم واپسی پر تم کو لے جائیں گے۔ واپسی پر وہ مجھے اپنے ساتھ کیمپ میں لے آئے۔ میں نے اپنا پورا نام نمبر اور یونٹ وہاں پر لکھوادیا۔ انہوں نے مجھے کھانا وغیرہ دیا میں کھانا کھاکر آرام کرنے خیمہ میں چلا گیا۔ اس یونٹ نے میرا نام وغیرہ میری یونٹ کو ارسال کردیا حتیٰ کہ C.N.C جناب جنرل ٹکا خان صاحب بھی صبح آگئے ان سے ملاقات کی اور انہوں نے ایک بندوق کا لائسنس میرے نام سے جاری کرنے کا حکم جاری کیا اور میری بہادری پر مجھے تمغہ شجاعت سے بھی نوازا گیا۔ شکریہ!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں