اسے کسی کی پرواہ نہیں!:شوہر دل کے مریض ہیں۔ پچھلے ہفتے ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو ہسپتال میں داخل کروانا پڑا۔ اب میں رات بھر ان کی تیمارداری کیلئے ہسپتال میں رہتی ہوں‘ دن میں ان کے بھائی آجاتے ہیں۔ میں جاتی ہوں تو ان کا کوئی دوست آکر رہتا ہے۔ بیٹا پندرہ سال کا ہے‘ اسے کسی کی پروا نہیں‘ آٹھویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ سوچتی ہوں اس کو اس کے والد کے پاس چھوڑا تو پڑھائی کا نقصان ہوگا۔ دلچسپی نہیں لیتا مجھ سے بھی ہمدردی نہیں‘ یہ خط ہسپتال سے ہی لکھ رہی ہوں۔ (عائلہ شاہ‘ لاہور)
مشورہ: آپ نے گھر اور ہسپتال کی ساری ذمہ داری خود سنبھال لی اس لیے بیٹا بے فکر ہوگیا۔ چند گھنٹے دن یا رات اس کو ہسپتال میں بٹھائیں تاکہ اس کو معلوم ہو کہ والد کی کتنی طبیعت خراب ہے۔ ڈاکٹر کیا کہتے ہیں۔ اس عمر کےبچوں سے گھر کے مسائل چھپانے نہیں چاہئیں اور نہ ہی بڑھا کر بتائیں اس طرح کہ وہ سیکھیں مشکلات کا مقابلہ کس قدر حوصلے اور بردباری سے کیا جاتا ہے۔ کبھی وہ آپ کی بات میں دلچسپی نہ لے تو برا نہ مانیں‘ اس سے اس کے مسائل پر بات کریں اس کو بولنے کاموقع دیں۔ تحمل سے سنیں‘ ضرورت ہو تو ہمدردی کریں‘ اسے جلد احساس ہوجائے گا کہ ماں سراپا محبت ہے پھر وہ کبھی آپ کو پریشان نہ دیکھ پائے گا لیکن ایسا ایک دم نہیں ہوگا۔ تربیت اور اصلاح صبر آزما کام ہے۔
ترقی کے راستے:میٹرک کے بعد ڈر تھا کہ میری شادی کزن سے کردی جائے گی مگر امی کو مجھے ڈاکٹر بنانے کا شوق تھا۔ ہمارے خاندان میں کوئی لڑکی ڈاکٹر نہیں جس لڑکے سے رشتہ طے ہورہا تھا وہ ان پڑھ تھا۔ بہرحال اب میں میڈیکل کالج کی طالبہ ہوں خاندان والے میرامذاق اڑاتے ہیں‘ میری وجہ سے کئی رشتے داروں نے ملنا چھوڑ دیا۔ میری امی کو بھی باتیں سنائی جاتی ہیں تب مجھے غصہ آتا ہے۔ ابو کسی کو کچھ کہنے نہیں دیتے۔ بعض اوقات غصے میں آکر کہتے ہیں پڑھائی چھوڑ دو‘ اس سے تمہارا دماغ خراب ہورہا ہے تب مجھے بہت رونا آتا ہے۔ (مہر‘ملتان)
مشورہ: مہر! خاندان والوں کے مذاق کو کچھ عرصہ اور برداشت کرلیں۔ اپنی مرضی اور شوق کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے صبر تو کیا جاتا ہے۔ والدہ کو کوئی کچھ کہے تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنا جواب خود دیں۔ آپ کو شامل نہیں کریں تاکہ والد آپ سے ناراض نہ ہوں۔ آپ کو معلوم ہے زندگی کی مشکلات پر شکایت کرنے کے بجائے سبق لے کر آگے بڑھنے سے ترقی کے راستے کھلتے ہیں۔
خیالوں کا سکون:مجھے بچپن سے خواب دیکھنے کی عادت ہے۔ خیالوں ہی خیالوں میں خود کو سکول کا مانیٹر تصور کرتا رہا‘ ہاتھ میں اسکیل لے کر بچوں کی پٹائی کرتا‘ اس بچے کی جو اسکول میں مجھے تنگ کرتا رہتا‘ ڈرا اس قدر کہ اس کی کسی سے شکایت بھی نہیں کی جاتی۔ا ب میں ایف ایس سی کرچکا ہوں ابھی تک کہیں داخلہ نہیں لیا۔ والد کپڑے کاکاروبار کرتے ہیں اورمیں خوابوں خیالوں میں خود کوفیکٹری کامالک سمجھتا ہوں۔ مجھے ان کی دکان پسند نہیں اور ان کو میرا فارغ رہنا اچھا نہیں لگتا۔ بارہ سال پڑھ کر تھک گیا ہوں۔ میرے گروپ کے دو لڑکے گریجوایٹ کررہے ہیں۔ (وسیم خان‘ راولپنڈی)
مشورہ: خیالوں کا سکون پائیدار نہیں۔ سچی اور حقیقی خوشیوں کا احساس ہی مختلف ہوتا ہے۔ خوابوں اور خیالوں میں فرق ہے۔ خوابوں پر انسان کا اختیار نہیں ہوتا جبکہ خیالوں کو اپنی مرضی اور ادارے سے منفی یا مثبت بنایا جاسکتا ہے۔ بچپن اب گزر گیا لہٰذا وہ تمنائیں بھی نہ رہیں۔ حقیقی معنوں میں ترقی کیلئے اپنے عمل کو ابتدا سے شروع کرنا ہوتا ہے۔ والد کے ساتھ دکان پر کام کریں کاروبار کا تجربہ حاصل ہوگا اس دوران تعلیم جاری رکھیں دوستوں سے زیادہ کامیاب رہیں گے۔
بری خبر سن کر:میرے دماغ پر ہروقت دباؤ رہتا ہے‘دم گھٹتا ہے۔ کوئی بری خبر خواہ کسی کے حوالے سے ہو ‘سن کر پریشان ہوجاتی ہوں۔ گھر میں سب ہی سمجھاتے ہیں‘ اپنی فکر کرو‘ صحت کاکیا حال کرلیا ہے‘مگر مجھے دنیا کی فکر ہے‘ میں اپنی فکر کرنے والوں کو بے حس اور خود غرض سمجھتی ہوں۔ ایک بات کا خیال ہے وہ یہ کہ چہرہ بہت مرجھایا ہوا ہے اور بڑی بہن چھوٹی معلوم ہوتی ہے۔ (عائشہ‘ کراچی)
مشورہ: چہرہ انسان کی ذہنی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اب اگر آپ ہر وقت ذہنی دباؤ میں رہیں گی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کا اثر چہرے پر نہ آئے۔ بری یا تکلیف دہ خبر سب کیلئے افسوسناک ہوتی ہے مگر جسمانی اور ذہنی کیفیت کو اس انداز میں نہیں بدلتی کہ دم گھٹتا ہوا محسوس ہو یا معمولات زندگی میں بڑی تبدیلی آجائے۔ سانس کی بہت سی مشقیں ہیں جو دم گھٹنے پر قابو پانے میں مددگار ہوسکتی ہیں۔ ان میں ایک یہ بھی ہے کہ جب آپ اپنے کاموں سے فارغ اور فرصت میں ہوں تو آنکھیں بند کرکے ناک سے سانس اندر کی طرف لیں۔ چند سیکنڈ کیلئے سانس کو روکیں پھر منہ کے ذریعے آہستہ آہستہ سانس باہر نکالیں۔ اس دوران یہ تصور کریں کہ جب آپ سانس اندر لے رہی ہیں تو چہرے پرشادابی آرہی ہے اور جب سانس باہر نکال رہی ہیں تو ساتھ میں ذہن سے منفی خیالات اور دباؤ دور ہورہا ہے۔
بیوی کو مجھ سےمحبت نہیں!:میں طویل عرصےسے ملک سے باہر جانے کا خواہشمند تھا اور اب ایک عرب ملک سے جاب کی آفر آگئی۔ پہلے تو مجھے یقین نہیں آیا‘ پھروہاں رہنے والے ایک دوست سے رابطہ کیا اس نے کہا فوراً آجاؤ۔ حال ہی میں میری شادی ہوئی ہے۔ گزارے کے قابل ملازمت بھی ہے‘ دل نہیں چاہتا کہ ملک چھوڑ کر جاؤں جبکہ بیوی خوش ہے کہ میں ملک سے باہر جارہا ہوں۔ سوچتا ہوں اس کو مجھ سے محبت نہیں‘ یہ بات اس سے کہی نہیں۔ ڈر بھی ہے نئی نئی بات ہے۔ ہم ایک دوسرے کی عادات اور مزاج سے واقف نہیں۔ (عاشر‘اسلام آباد)
مشورہ: بیوی کے خوش ہونے کامطلب نہیں کہ اس کو محبت نہیں ہے بلکہ وہ آپ کی ترقی کی خواہشمند ہے اور اس کیلئے وہ دور رہنے کی قربانی دینے کو تیار ہے۔ دراصل آپ کی خوشحالی میں اس کی خوشیاں بھی شامل ہیں۔ یہ فیصلہ آپ کو خود کرنا ہے کہ کیا بہتر ہے‘ یہاں رہنا یا جانا؟ دوست کا مشورہ بھی آچکا‘ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ موجودہ ملازمت کے حوالے سے اور بیرون ملک ملنے والی ملازمت کے مثبت اور منفی پوائنٹس نوٹ کرلیں جس میں مثبت پوائنٹ زیادہ ہوں وہ کام کریں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں