اپنی بھرپور طاقت‘ جوانی‘ قوت‘ انرجی اور شباب جس کے 25 سال سعودی عرب ریال تلاش کرتے کرتے گزر گئے‘ لاکھوں کمایا اور خوب کمایا لوگوں نے داد دی کہ مال پیسہ اور چیزیں بہت آرہی ہیں۔ پھر کوشش کی کہ پاکستان میں بیٹے کو سیٹل کروں اور اس کو یہاں بزنس دلاؤں اس کو اس دور کےتیس لاکھ بھیجے ۔ جب کسی کے پاس تیس ہزارہوتا تھا تو اسے لوگ بہت مالدار کہتے تھے ہوا یہ کہ اس کی زندگی سے تین چیزیں ہٹ گئیں پہلی چیز ماں باپ کی وہ دعائیں جن کو جوانی ہی میں چھوڑ کر یہ ریال تلاش کرنے گیا
تھا‘ اسے پل پل میں‘ سانسوں سانسوں میں‘ لمحے لمحے میں ماں باپ کی دعاؤں کی اشد ضرورت تھی اور ماں باپ ہی تھے جنہوں نے اسے ترقی‘کامیابی‘ برکتوں اور بہاروں کے زینے طے کرانے تھے۔ ان کی دعاؤں سے یکسر محروم رہ گیا‘ کبھی کبھی پوچھ لیتاتھا پھر ایک وقت آیا پوچھنے کا بھی وقت نہ ملا۔ افسوس کے دونوں کے جنازے میں بھی شریک نہ ہوسکا ۔جو دوسرا نقصان ہوا وہ جوان بیوی کی آہیں‘ جس کی سسکتی‘ ابھرتی اور نکھرتی جوانی‘ جذبات ‘چاہتیں‘ خواہشات‘ امنگیں‘ امیدیں اندر ہی اندر رہ گئیں اور حسرتیں ڈوب ڈوب کر پھر ابھرتی تھیں اور ابھر ابھر کر پھر ڈوبتی تھیں لیکن اسے ایک ہی دھن سوار تھی کہ میں نے مالدار بننا ہے‘ دولت اکٹھی کرنی ہے‘ مالدار بن کر سال دو سال کے بعد چند ہفتوں کیلئے آتا وہ جو سال دو سال کی جدائی بجائے اس کے کہ سچی طلب بن جاتی ‘وہ لڑائی‘ بدگمانی شک و شبہ میں بدل جاتی‘ یوں یہ ہفتے ایک دوسرے سے دور نفرتوں‘ الجھنوں اور جدائی میں گزرتا اور یہ شخص پھر عرب چلا جاتا۔ بیوی کی تنہائیوں کی ٹھنڈی سانسیں اس کو کھاجاتیں اور وہ ٹھنڈی سانسیں اس کے مستقبل کو دراصل ویران کررہی تھیں اور یہ سمجھ رہا تھا کہ میں ترقی کررہا ہوں۔ قارئین! یاد رکھیں چند فیصد بیویاں ایسی ہوں گی جو بددعائیں دیتی ہوں گی اکثریت بددعائیں نہیں دیتیں‘ آہیں دیتی ہیں۔ یاد رکھیے گا! آہیں بددعاؤں سے زیادہ اثر رکھتی ہیں اور ان کا اثر بعض اوقات انسان اور بعض اوقات نسلوں تک چلتا ہے‘ اس کو بیوی کی آہیں لگتی اور الجھاتی رہیں لیکن اس پر وہی ایک دھن سوار تھی کہ میں نے مال کمانا ہے‘ دولت کمانی ہے اور چیزیں بنانی ہیں اور تیسرا نقصان اور گھاٹا یہ ہوا کہ بیوی گھر میں نسلوں کی معمار اور شوہر باہر سے نسلوں کیلئے چھتری‘ جب چھتری ہٹ جاتی ہے تو معمار کی کوئی حیثیت نہیں رہتی جس اولا د پر باپ کا سایہ نہیںہوتا‘ بہت کم ہے کہ ان کے اخلاق‘ اعمال‘ معاشرت اور تہذیب بہتر ہوسکے ورنہ اکثر وہ اخلاق معاشرت اور تہذیب سے دور ہوکر ننگی زندگی اور بغاوت پر اتر آتے ہیں اور معاشرے کی اس زندگی کو پسند کرتے ہیں جو کہ معاشرے کی بہت بدترین زندگی ہوتی ہے۔ بس اس شخص کے زوال کا سبب یہ تین باتیں بنیں ۔ماں باپ کی دعاؤں سے محرومی‘ بیوی کی آہیں اور سسکیاں اور اولاد کی تربیت میں کمی۔ اور یہ کمی آہستہ آہستہ بڑھتی چلی گئی جو کماتا تھااولاد کو دیتا تھااو ر اولاد کو بنا بنایا مال بغیر محنت اور مشقت کے جو ملا ان کے اندر قدر دانی تو پہلے ہی ختم ہوچکی تھی باپ کے قرب نے محبت دی نہ تھی‘ قرب ہی نہ رہا تو باپ کی خون پسینے کی کمائی کا احساس بھی نہ رہا۔ توباپ مال بھیجتا رہا ‘ناتجربہ کاری‘ دولت کی زیادتی‘ اٹھتی جوانی‘ جذبات اور چھتری بالکل نہیں۔ بس پھر کیا تھا سب کچھ لٹ گیا آج اس شخص کو گھر سے نکلے35 سال ہوگئے ہیں‘ پچیس سال بھرپور کمائی کی پر حاصل کچھ نہ ہوا۔ اوراب سالہا سال سے پانچ چھ سو ریال کی نوکری میں بڑھاپے کی زندگی ایک شخص کی چوکیداری میں گزار رہا اور اپنی حسرتوں پہ بیٹھ کر آنسو بہاتا ہے‘ میری اولاد نافرمان نکلی‘ میری اولاد نے میری مال و دولت اور چیزوں کی قدرنہیں کی۔ اسے اپنے والدین کے ساتھ بیتی زندگی بھول گئی اس نے اپنے والدین کے ساتھ کیا کیا تھا؟ یاد رکھیے گا زندگی میں مکافات اور جیسا بونا ویسا کاٹنا یہ ہمیشہ رہا ہے۔ ہاں رب کریم ہے‘ کسی کیلئے معافی کا انتظام اور معافی کا اعلان کردے اس سے کون پوچھ سکے؟ لیکن یہ مکافات کا نظام سدا چلے گا‘ میں صرف ان مال کمانے والوں کی خدمت میں جو گھر سے دور درہم دینار ریال پاؤنڈ‘ یورو‘ ڈالر اور قیمتی کرنسی خوب کمائی۔ رزق حلال کمانا اور رزق حلال کیلئے محنت کرنا نہ عیب ہے نہ میں منع کرتا ہوں لیکن آپ کی خدمت میں اتنی درخواست ضرور کروں گا کہ ان تین چیزوں کا اگر خیال رکھ سکتے ہیں تو ضرور رکھیے گا اگر نہیں رکھ سکتے تو براہ کرم! لوٹ آئیں یہ آنے دو آنے والا پاکستانی روپیہ لاکھوں کے ڈالر ریال اوردینار سے کہیں بہتر ہے جس کا انجام پریشانی مسائل اور مشکلات ہیں۔قارئین! میں کبھی کبھی آپ کو اس موضوع پر چھیڑتا ہوں اور یاد دہانی کراتا ہوں‘ امید ہے میری باتوں پر آپ توجہ کریں گے کیونکہ ہر چیز مال دولت اور نسلوں کو نہیں سنوارتی کچھ اور سبب بھی ہوتے ہیں۔ جس سے مال دولت اور چیزیں بنتی ہیں۔ بیرون ملک جتنے بھی لوگ رزق روزی کیلئے گئے ہیں ان کی خدمت میں میری یہ تین گزارشات ہمیشہ رہیں‘ اکثر لوگوں کی آنکھوں پر شیشے ہوتے ہیں وہ شاید میری گزارشات کو نہ پڑھیں حتیٰ کہ سننا بھی گوارا نہ کریں لیکن حقیقت سدا آشکار ہوتی ہے اور حقیقت حقیقت ہوتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں