ابھی پڑھتے ہوئے سترہ دن ہی ہوئے تھے کہ میں نے ایک جگہ سی وی جمع کروائی ہوئی تھی‘ وہاں سے مجھے کال آگئی
اور انہوں نے مجھے انٹرویو کیلئے بلالیا‘ پچھلے پورے سال میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ کسی نے مجھے انٹرویو کیلئے کال کی تھی۔
ایڈیٹر کے قلم سے
پچھلے دنوں میں سفر میں تھا تو ایک جگہ ایک عزیز نے میری دعوت رکھی جب میں وہاں پہنچا تو وہاں کچھ لوگوں کو میری آمد کا پتہ چلا تو وہ بھی مجھ سے ملاقات کیلئے پہنچ گئے۔ وہاں کچھ دیر باتیں کرتے رہے‘ جب ہم اٹھ کر وہاں سے جانے لگے تو ایک شخص نے مجھے ایک خط پکڑایا جو میں نے گاڑی میں دوران سفر پڑھا۔ قارئین! وہ خط میں تصحیح کے ساتھ شائع کررہا ہوں۔
محترم حکیم صاحب السلام علیکم! تقریباً دو سال پہلے میرا تعارف عبقری رسالہ سے ہوا۔ تب سے لے کر اب تک ہر ماہ اس رسالہ کا مجھے شدت سے انتظار رہتا ہے۔حکیم صاحب پچھلے سال سے میں مالی طور پر بہت زیادہ پریشان تھا‘ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا کروں؟
حکیم صاحب! میری شادی 6 سال پہلے ہوئی دو سال پہلے میری بیوی کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت میرے دو بیٹے تھے اور تیسرے کی پیدائش کے دوران وہ فوت ہوگئی۔ پھر کچھ ماہ بعد میرے والدین نے میری دوبارہ شادی کردی‘ اُس وقت میرا میڈیکل سٹور تھا اور بہت ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا‘ اسی دوران مجھے شوگر ہوگئی۔ ایک سال بعد میرے اللہ نے مجھے ایک بیٹی سے نوازا‘ میری دوسری بیوی نےمیرا بہت خیال رکھا‘ میں بہت خوش تھا۔مگر جب میری دوسری بیوی کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تو اس دوران اس کی حالت خراب ہوگئی اور اس کا آپریشن ہوا جس پر کم از کم دولاکھ لگے جو میں نے اپنا میڈیکل سٹور ایمرجنسی میں بیچ کر لگائے۔ اس دن کے بعد میری کمبختی کا دور شروع ہوگیا۔ اس کے بعد میرے پاس اتنا سرمایہ بھی نہیں تھا کہ میں دوبارہ اپنا کاروبار شروع کرتا‘ میں نے بی اے کیا ہوا تھا‘ جگہ جگہ نوکری کی تلاش کیلئے گیا مگر کہیں بھی مجھے نوکری نہ ملی۔ مگر مجھے یقین ہے کہ وہ ضرور دستگیری کرے گا۔
حکیم صاحب! ایک مرتبہ میرے پانچ سال کے بیٹے کو شدید موشن لگے‘ مگر میرے پاس پھوٹی کوڑی تک نہ تھی کہ میں اپنے پیارے بیٹے کو ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں‘ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہمیں ہر کوئی مشورہ دے رہا تھا کہ اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ‘ اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔۔۔ مگر۔۔۔۔!!! میں کسی کو کیا کہوں۔۔۔ کہ میری جیب میں تو پانچ روپے بھی نہیں ہیں کہ میں اس کا علاج کروا سکوں۔ پھرمجبوراً میں نے محلے کے کریانہ کی دکان کے مالک سے پانچ سو ادھار لیے اور اپنے بیٹے کی دوائی لے کر آیا مگر پھر اور بھی زیادہ پریشان ہوگیا کہ اس کو وہ پیسے کہاں سے ادا کروں گا۔۔۔؟؟؟اسی دوران میری بیوی نے ایک پرائیویٹ گرلز سکول میں ٹیچنگ شروع کردی جس کی تنخواہ صرف سترہ سو لگی‘ اللہ میری بیوی کو جزائے خیر دے وہ میری بہت مدد کرتی‘ چونکہ میں شوگر کا مریض تھا تو اس کی تنخواہ کے آدھے سے زیادہ پیسے میری ماہانہ ادویات پر ہی خرچ ہوجاتے‘ اب اسی میں سے گھر کا راشن لانا۔۔۔۔ محال تھا۔ ہم صبح کو کھاتے تو شام کے لالے پڑجاتے‘ کبھی کبھی تو چوبیس گھنٹے میں صرف ایک وقت کھانا ملتا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی فرمائشیں میرے دل کو چیر جاتیں کہ بابا مجھے فلاں کے جیسے کپڑے لا کے دو‘بابا مجھے جہاز لاکر دو۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔مجھ پر قرض پر قرض چڑھ رہا تھا اور اتارنے کی کوئی راہ نظر نہ آرہی تھی‘ سارا دن مارا مارا پھرتا مگر پتہ نہیں کیوں مجھے کوئی بھی نوکری دینے کو تیار نہ تھا۔اسی دوران عبقری میں
یَارَبِّ موسٰی یَا رَبِّ کَلِیْم بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کے حوالے سے مضمون پڑھا۔ پتہ نہیں کیوں مجھے لگا یہ وظیفہ میرے لیے ہی چھاپا گیا ہے۔ میں نے اس وظیفے کو اپنی بیوی کو بھی پڑھایا اور اس کو بھی تاکید کہ وہ بھی سارا دن کھلا پڑھے اور میں نے بھی اس وظیفے کو سارا دن کھلا پڑھنا شروع کردیا۔
ابھی پڑھتے ہوئے سترہ دن ہی ہوئے تھے کہ میں نے ایک جگہ سی وی جمع کروائی ہوئی تھی‘ وہاں سے مجھے کال آگئی اور انہوں نے مجھے انٹرویو کیلئے بلالیا‘ پچھلے پورے سال میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ کسی نے مجھے انٹرویو کیلئے کال کی تھی۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ کہیں سے کوئی روشنی کی کرن تو نظر آئی۔ میں یہی وظیفہ پڑھتا ہوا وہاں گیا‘ وہاں کے لوگ مجھ سے بہت پیار و محبت سے ملے‘ ان کے کچھ سوالات کے جواب دئیے تو انہوں نے مجھے نوکری پر رکھ لیا۔ میری تنخواہ 27ہزار لگی۔ اس دن میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا‘ میری آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے اور زبان پر آپ کیلئے دعائیں تھیں۔ جب یہ خبر میں نے اپنے گھر بتائی تو میری بیوی کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں اور ہم دونوں کے ہاتھ دعا کیلئے اٹھ گئے اور آپ کو پتہ نہیں ہم کب تک دعائیں دے رہے۔
یہ پچھلے چھ ماہ پرانی بات ہے۔ ان چھ مہینوں میں میرا سارا قرضہ اتر چکا ہے‘ میرے افسران مجھ سے بہت خوش ہیں‘ میرے گھر میں دوبارہ سے خوشحالی نے ڈیرے جما لیے ہیں‘ میری بیوی نے ٹیچنگ کی نوکری بھی چھوڑ دی ہے۔
یہ وظیفہ تو اب میری رگ و جاں میں سما چکا ہے‘بعض اوقات تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ہوتا یہ وظیفہ میرا ورد زبان ہوتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں