جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اروما تھراپی خالص نباتاتی تیلوں کے ذریعے ہی زیادہ فائدہ مند ہے۔ بالخصوص ڈیپریشن اور اعصابی بیماریوں کے خلاف اس کا دنیا بھر میں استعمال ایک روایت بن گیا ہے۔
ماریہ علی
نبی کریم ﷺ نے پہلے دن سے پاکیزگی‘ صفائی‘ ستھرائی اور حفظان صحت کی تعلیم دی۔ مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر کے بعد جب لوگ پہلا جمعہ پڑھنے آئے تو تنگ جگہ پر ہجوم کے باعث گھٹن کا احساس ہوا۔ انہوں نے اس کو فوری اہمیت دے کر جمعہ والے دن غسل اور لباس کی تبدیلی کو ضروری قرار دیا اور پھر اس روز خوشبو لگانا سنت نبوی ﷺ قرار پایا۔ ان کے ہاں دو ہی پسندیدہ قسمیں تھیں۔ کستوری اور ذریرہ۔ آپ ﷺخود کستوری پسند فرماتے تھے۔
بیماریوں سے نجات اور صحت کو برقرار رکھنے کیلئے انسان کسی بھی ایسے طریقہ علاج کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتا جو اسے افادیت مہیاکرتا ہے۔ اسی غرض سے طبی سائنسدان قدیم وجدید طبی نظریات پر تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں اور آج ایک ایسی طبی انقلاب کی دہلیز پر کھڑے ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ انسان کیلئےسب سے مفید اور غیرمضر طریقہ علاج صرف اور صرف نباتاتی طریقہ علاج میں مضمرہے۔ اروما تھراپی بھی قدیم نظریات پر استوار ایک ایسا طریقہ علاج ہے جو بلاشبہ جدید تحقیق کے بعد مزید افادیت کی حامل ہوچکی ہے۔ اروماتھراپی کا مکمل انحصار نباتاتی تیلوں پر ہے۔ جو بیرونی طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اروماتھراپی کو ہمارے ہاں مالش کہہ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ مگر یہ مالش سے بڑھ کر ہے۔ اس میں مختلف بیماریوں کے لیے مختلف قسم کے پھول پھولوں اور جڑی بوٹیوں کے تیلوں سے بدن کے مخصوص مقامات پر مالش کی جاتی ہے۔
جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اروما تھراپی خالص نباتاتی تیلوں کے ذریعے ہی زیادہ فائدہ مند ہے۔ بالخصوص ڈیپریشن اور اعصابی بیماریوں کے خلاف اس کا دنیا بھر میں استعمال ایک روایت بن گیا ہے۔ بڑے ملکوں خصوصاً یورپی اور ایشیائی ممالک میں پہلے بھی نباتاتی تیلوں کے ساتھ مالش کرکے جسمانی خدوخال کی حفاظت اور صحت کا اہتمام کیا جاتا تھا لیکن جب فرانس کے ایک معالج نے نباتاتی تیلوں کے فوائد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے تیلوں کو مختلف بیماریوں پر آزمایا تو یہ علاج باقاعدہ اروماتھراپی کی شکل میں ڈھل گیا جس کی تقلید میں آج بہت سے ممالک میں مصنوعی نباتاتی تیلوں سے اروماتھراپی کی جارہی ہے۔
جرمنی کے طبی سائنسدان پروفیسر کلارک اس بات پر بہت پریشان ہیں کہ یورپ میں مصنوعی تیلوں کے ذریعے اروماتھراپی کےنظریات کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ جو لوگ مصنوعی کیمیکل نباتاتی تیلوں پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کے لیے خالص نباتاتی تیل تیار کرنابہت مہنگا اور مشکل کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب گلاب کے تیس پھولوں سے صرف دو قطرے خالص نباتاتی تیل حاصل ہوگا تو کاروباری لوگ مصنوعی اور کیمیائی نباتاتی تیل بنانے پر مجبور ہوں گے۔ ایسے تیلوں کی وجہ سے لوگ جلدی امراض میں بھی مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔
اروما تھراپی کا علاج کسی حادثے کی دریافت نہیں ہے۔ یہ صدیوں سے رائج ہے۔ مصری اور بابلی تہذیب کے آثار بتاتے ہیں کہ اس عہد میں امراء اور فرعون پھلوں اور جڑی بوٹیوں کے عرقیات سے غسل کرنے کے علاوہ ان کو مالش کیلئے استعمال کرتے تھے لیکن اروماتھراپی کوصحیح شناخت 1920ء میں اس وقت ملی جب ایک فرانسیسی کیمیادان نے نباتاتی تیلوں پر تحقیق کے بعد اعلان کیا کہ پھلوں‘ جڑی بوٹیوں اور پھولوں سے حاصل کیے جانے والے تیل صحت کیلئے نہایت کارگر ہیں۔
مائیکرو بیالوجی یونیورسٹی آف واشنگٹن کے پروفیسر تھامس ریلی نے اروماتھراپی پر ایک پیپر تیار کیا جس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ چائے کے پودے کے تیل میں کئی بیکیٹریاز کے خلاف قوت مدافعت بھی پائی جاتی ہے اور یہ انہیں ہلاک بھی کرتے ہیں۔
لندن کی مارگریٹ میوری کا کہنا ہے کہ گلاب کے پودے سے حاصل کیا جانے والا تیل خواتین کو ڈیپریشن سے نجات دلاتا ہے۔ یورپ میں گلاب کے تیل کو اروماتھراپی میں سب سے زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔ ان دنوں یورپ میں یہ بحث جاری ہے کہ اروماتھراپی کیلئے استعمال کیے جانے والے تیلوں میں سے کون سے نباتاتی تیل زیادہ مفید ہیں اور کیا ہر پودے کا نباتاتی تیل اورما تھراپی کے نظریات کو تقویت دے سکتا ہے۔ اس بحث کے ساتھ ساتھ زیادہ تر سائنسدانوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اروما تھراپی صرف اس وقت ہی کارآمد ہے جب اس کیلئے قدرتی نباتاتی تیلوں کو استعمال کرجائے۔
ہندوستان میں آریہ اقوام کی آمد کے بعد حیوانی ذرائع سے حاصل ہونے والی خوشبو سے واقفیت پیدا ہوئی چونکہ یہ ایشیائے کوچک سے آئے تھے اور وہاں آہوئے مشکیں پایا جاتا ہے۔ اس لیے ہرن کا نافہ ان کی وساطت سے ہندوستان میں آیا لیکن یہاں کے وید اسے خوشبو کی بجائے دوا سمجھنے لگے اور اس کو بطور خوشبو مقبولیت میسر نہ آئیں۔
پھولوں کی سہانی خوشبو کو برقرار رکھنے کیلئے ملکہ نورجہاں نے سب سے پہلے عطر سازی کی صنعت کو رواج دیا۔ پھولوں کو کسی بے رنگ تیل کے ساتھ کشید کرکے گاڑھی اور گہری خوشبو ایجاد ہوئی جسے عطر کہا جانے لگا اور ہندوستان کے شہر قنوج میں یہ صنعت مسلمانوں نے فروغ دی اور آج بھی ان کے قبضہ میں ہے۔ ان کے یہاں زیادہ طور پر پھولوں کی مہک کو تیل کی صورت دی گئی۔ لیکن اسلام کے مسلسل اثرات کی بدولت یہ عنبر اور کستوری کی خوشبو سے آگاہ ہوئے اور ان کےعطر آج سب سے گراں اور اہمیت رکھتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں