میں نے ان سے مخاطب ہوکر کہا بابا جان اور امی جان سب سے پہلے آپ سے معافی چاہتا ہوں‘ جو کچھ میں عرض کررہا ہوں اگر آپ کو بُرا لگے تو مجھے معاف کرنا۔ اس کے بعد تمام ڈگریوں والا لفافہ ان کی طرف بڑھایا اور کہا بابا جان میری ڈگریاں جن کی آپ کو تمنا تھی
چند دن پہلے ہماری ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ کچھ دن ہوئے مجھے ایک آدمی سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ملاقات ایک مدرسے میں ہوئی‘ ان کی عمر تقریباً 45 سال کے لگ بھگ ہوگی‘ رنگ زردی مائل‘ بڑے انہماک سے عبادت میں مصروف تھے۔
جب تھوڑی دیر کے بعد رکے تو میں نے سلام کیا اور پوچھا آپ کو پہلی دفعہ دیکھا ہے‘ تو انہوں نے کہا کہ ہاں ابھی کچھ دن ہوئے ہیں مدرسہ میں داخل ہوا ہوں‘ پھر مسکرا کر کہنے لگے کہ آپ حیران ہوں گے کہ اس عمر میں مدرسہ ھذا میں داخلہ لیا ہے۔ میں نے کہا ہاں تعجب کی بات ہے پھر انہوں نے اپنی کہانی سنانی شروع کی۔ کہنے لگے کہ میں مردان کا رہنے والا ہوں‘ اچھے کھاتے‘ پیتے گھرانے سے تعلق ہے‘ بی اے‘ ایم اے کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے والدین نے باہر جانے کا مطالبہ کرنا شروع کیا اور آخرکار میرا دل نہ ہونے کے باوجود باہر بھیج دیا گیا‘ فرانس‘ جرمنی‘ امریکہ اور برطانیہ سے ڈگریاں حاصل کیں ان ممالک میں انسانیت کو چیختے اور سسکتے دیکھا۔
یقین جانیے! کسی ملک میں میرا دل نہ لگا اور میں صرف ڈگریاں حاصل کرکے اپنے والدین کے ارمان پورے کرتا رہا۔ آخری ملک فلپائن جب گیا تو دل نے وہاں کا ماحول دیکھ کر درد محسوس کیا۔ یہاں میں نے ڈگری کے ساتھ ساتھ قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھا۔ اس وقت مجھے اپنی تمام ڈگریاں صفر سے بھی کم محسوس ہوئیں۔ افسوس ہوا کہ کاش میں ان کاغذ کے پرزوں کیلئے اپنی قیمتی عمر ضائع نہ کرتا۔ اسی سوچ میں تھا کہ اچانک میرے پیٹ میں تکلیف ہوئی‘ ہاسٹل والوں نے مجھے ہسپتال داخل کروادیا۔ وہاں پر بہت سارے ٹیسٹ کیے گئے جب رپورٹیں آئیں تو ڈاکٹرز نے کینسر کی آخری سٹیج بتائی اور ہدایت کی کہ ان کو ان کے ملک بھیج دو۔ تین دن بعد مجھے اپنے ملک پاکستان کیلئے روانہ کیا‘ تمام راستہ میں اپنے خیالات میں الجھا رہا‘ آخر مردان پہنچنے سے پہلے آئندہ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔
جب گھر پہنچا تو میں اندر داخل نہ ہوا بلکہ بڑے دروازے پر کھڑے ہوکر والدین کو آواز دی تو وہ مجھے اچانک دیکھ کر حیران ہوئے اور خوش ہوئے اور کہنے لگے: ’’آؤ بیٹا اندرآجاؤ کب آئے ہو‘ میں نے ان سے مخاطب ہوکر کہا بابا جان اور امی جان سب سے پہلے آپ سے معافی چاہتا ہوں‘ جو کچھ میں عرض کررہا ہوں اگر آپ کو بُرا لگے تو مجھے معاف کرنا۔ اس کے بعد تمام ڈگریوں والا لفافہ ان کی طرف بڑھایا اور کہا بابا جان میری ڈگریاں جن کی آپ کو تمنا تھی ان کی ضرورت نہ مجھے پہلے تھی نہ اب ہے۔۔۔
جس ڈگری کی مجھے اور آپ کو ضرورت تھی افسوس کہ وہ آپ نے مجھے حاصل نہ کروائی اب میرے پاس وقت نہیں ہے۔ اب اس ڈگری کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے جارہا ہوں‘ ہوسکتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ مجھ سےراضی ہوجائے اور میری آخرت سنور جائے۔والدین نے مجھے بہت روکا مگر میں نہ رکا اور سیدھا اس مدرسہ میں آکر داخلہ لے لیا۔ اس دن سے عبادت کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کررہا ہوں اور طالبعلموں کی خدمت بھی کرتا ہوں۔ کھانا مل جائے نہ ملے کوئی پرواہ نہیں۔ ڈاکٹروں کے کہنے کے مطابق چند دنوں کی زندگی باقی تھی مگر ایک سال ہوگیا ہے بفضل تعالیٰ بغیر دوائی کے زندہ ہوں۔ آئندہ کیا ہوگا میرے اللہ کو معلوم ہے۔ یہ کہہ کر پھر عبادت میں مشغول ہوگیا۔
نوٹ: دوست نے نام اور جگہ بتانے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں