میں نے حیرانی سے پوچھا کہ آپ کیا چیز کھاتے ہیں‘ کوئی نسخہ یا کوئی جڑی بوٹی استعمال کرتے ہیں کہ جس سے جوانی برقرار ہے‘ وہ کہنے لگا کہ میرے بیٹوں نےخود اپنی صحت برباد کی ہے اور میں نے جان بچائی ہوئی ہے۔
نصیراحمد‘ ایبٹ آباد
اللہ تعالیٰ جس کو طاقت‘ عزت‘ صحت‘مال و دولت دینا چاہے اس کیلئے ذریعہ بنا دیتا ہے۔ وادی کاغان میں ناران ایک مشہور مقام ہے‘ جہاں گرمیوں میں لوگ سیرو تفریح کرنے جاتے ہیں۔ بڑی خوبصورت جگہ ہے‘ چند میل اوپر جھیل سیف الملوک ہے جس سے دریائے کنہار نکلتا ہے۔ دریا میں ٹراؤٹ مچھلی عام ہوتی ہے۔ ناران میں ایک آدمی تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ ایک سو بیس سال سے زائد عمر کا ہے۔ ظاہری طور پر وہ ساٹھ ستر سال کا لگتا تھا۔ اس کے تین بیٹے تھے جو بوڑھے اور ضعیف لگتے تھے‘ یہ صاحب بڑے صحت مند تھے‘ مال مویشی سنبھالنا‘ گھر کے کام کاج‘ زمینداری کرنا‘ جنگل سے لکڑیاں لانا‘ ان کا روز مرہ کا مشغلہ تھا‘ مجھے یقین نہ آتا تھا کہ اتنی عمر کا آدمی اتنا صحت مند‘ چاق و چوبند کس طرح ہوسکتا ہے۔ ایک دن میں نے اس کو اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا کہ واقعی آپ کی عمر 120 سال سے زائد ہے‘ اس نے جواب دیا کہ بالکل سچ ہے۔ اپنے دانت دکھائے جو نئے پیدا ہوئے تھے‘ سر کےبال بھی کہنے لگا کہ پھر سے کالے ہورہے ہیں۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ آپ کیا چیز کھاتے ہیں‘ کوئی نسخہ یا کوئی جڑی بوٹی استعمال کرتے ہیں کہ جس سے جوانی برقرار ہے‘ وہ کہنے لگا کہ میرے بیٹوں نےخود اپنی صحت برباد کی ہے اور میں نے جان بچائی ہوئی ہے۔ بابا صاحب نے کہا کہ میں نے پیدائش سے لے کر آج تک چائے نہیں پی‘ میرے بیٹے خوب چائے پیتے ہیں‘ دودھ‘ دہی سے دونوں وقت صبح و شام خوب پیٹ بھر کر روٹی مکئی کی کھاتا ہوں۔ دوپہر کو روٹی بالکل نہیں کھاتا۔ بچپن سے عادت بنی ہوئی ہے کہ کبھی کبھی لسی میں ساگ‘ کدو وغیرہ پکا کر کھاتا ہوں اور اس میں مکھن یا گھی خوب ڈالتا ہوں۔ دالیں اور آلو وغیرہ بھی اسی طرح پکاتےاور کھاتے ہیں۔ کہنے لگے کہ میری طاقت اور صحت کا ایک راز ہے جو اس طرح ہے کہ کہنے لگے کہ میں جب جوانی کی عمر کو پہنچا تو والد صاحب کے ساتھ بالاکوٹ جو کافی دور ہے جاتا‘ وہاں سے ہم آٹا‘ چاول اور گُڑ وغیرہ لایا کرتے تھے۔ ایک دن میں آٹے کیلئے اکیلا چلا گیا‘ والد صاحب کسی دوسرے کام میں مشغول تھے۔ اُدھار لایا کرتے تھے‘ جس کھتری دکاندار سے میں سودا لایا کرتا تھا اس کی دکان پر پہنچا‘ وہ اپنی دکان سے تھوڑی دور باہر میدان میں کھڑا اعلان کررہا تھا کہ جو کوئی دو سیر خالص سرسوں کا تیل جو میں نے تازہ نکلوایا ہے پی لے گا میں پانچ روپے انعام دوں گا۔ پانچ روپے اس زمانے میں بہت ہی بڑی رقم تھی‘ سرسوں کا تیل ایک سلور کے دیگچہ میں تھا اور پاس پانچ روپے چاندی کے سکوں کی شکل میں پڑے تھے۔ اس کے اردگرد کافی لوگ جمع تھے‘ شرط لگی ہوئی تھی‘ دوسیر تیل پینا آسان نہ تھا۔ میں نے دکاندار سے پوچھا کہ یہ شرط آپ نے دکانداروں کیلئے لگائی ہے یا پھر ہر ایک کیلئے۔ اس نے جواب دیا جو بھی پی لے گا اس کو انعام دوں گا۔ اگر تم ہمت کرسکتے ہو تو پی لو اور انعام لےجاؤ۔ میں نے کہا کہ پہلے مجھے آٹے کی بوری دو اور ایک سیر گڑ بھی دے دو‘ اس نے دکان سے بوری دی جو دو من دس سیر کی تھی۔ میں نے اٹھائی اور ایک دیوار پر رکھدی۔ سب تماشا دیکھ رہے تھے۔ کئی لوگ کہہ رہے تھے کہ اتنا تیل کوئی نہیں پی سکتا۔ جو پیے گا مرجائے گا۔ میں نے پرواہ نہ کی‘ پاؤں کے بل بیٹھا۔ دیگچہ منہ سے لگایا‘ تین سانسوں میں اللہ کا نام لےکر پی گیا۔ فوراً اٹھا‘ پانچ روپے جیب میں ڈالے اور بوری کندھے پر رکھ کر تیز تیز چلنے لگا‘ بالاکوٹ سے کاغان تک تمام چڑھائی ہے‘ میرا دل میلا ہورہا تھا‘ میں نے گڑ کھانا شروع کردیا‘ جونہی ایک میل چلا پسینہ بہنے لگا‘ جوں جوں چلتا پسینہ زیادہ مقدار میں نکلتا‘ کپڑے بھیگ گئے‘ سر سے لے کر پاؤں تک پسینہ میں ڈوب گیا۔ کپڑوں سے تیل کی بدبو آرہی تھی‘ پیاس لگتی لیکن میں نے پانی نہ پیا‘ میانڈری جاکر پانچ دس منٹ آرا کیا‘ دل میں ڈر تھا کہ اگر جسم ٹھنڈا ہوگیا تو ساری عمر کیلئے شل ہوجاؤں گا۔ اس لیے جلدی سے اٹھا اور تھکا ہوا آہستہ آہستہ قدم رکھتا کاغان تک پہنچ گیا۔ رات ہوچکی تھی‘ چند منٹ وہاں بیٹھا۔ وہاں سے سیدھا راستہ تھا‘ تین چار گھنٹوں میں گھر پہنچ گیا۔ سخت پیاس لگی ہوئی تھی‘ بھوک کا نام ونشان نہ تھا‘ والدہ کو سارا واقعہ سنایا اور انہیں پانچ روپے بھی دئیے۔ والدہ نے پہلےتو ڈانٹا پھر بستر پر لٹادیا اور دودھ گرم کرکے دینا شروع کردیا۔ تقریباً ایک سیر کے قریب میں نے دودھ پی لیا‘ پھر سو گیا‘ صبح اٹھا‘ والدہ نے گھی میں روٹی ترکرکے کھلائی اور اوپر سے گرم دودھ پلایا۔ دوسرے دن بالکل ٹھیک تھا۔ طاقت کا اندازہ نہ کرسکتا تھا‘ جسم میں عجیب قسم کی طاقت محسوس ہورہی تھی۔ میری والدہ نے بکری کا دودھ گرم کرکے گڑ ملا کرچند بار پلایا ٹھنڈی چیز کھانے کو کچھ نہ دی۔ بس میں طاقت ور بن گیا۔ اس تیل نے میرا جسم لوہے کی مانند کردیا اور آج تک کمزوری نزدیک نہیں آئی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں