ایک متمول تاجر اپنے سست و کاہل اور آرام طلب بیٹے سے سخت پریشان تھا‘ تاجر اسے محنت و مشقت کی اہمیت سے آگاہ کرانا چاہتا تھا تاکہ اسے احساس ہو یہ پُرآسائش طرز رہائش اور دولت یوں ہی حاصل نہیں ہوجاتی بلکہ اس کیلئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔وہ چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا ذمے دار نوجوان کی طرح زندگی گزارے اور کاروبار میں اس کا ہاتھ بٹائے۔ ایک روز تاجر نے اپنے بیٹے سے کہا: ’’بیٹا! آج تمہیں مزدوری کرکے پیسے کما کر لانے ہوں گے اور یاد رکھو کہ پیسے کما کر نہ لانے کی صورت میں تمہیں آج رات کا کھانا نہیں ملےگا۔‘‘اپنے والد کا یہ فرمان سن کر لڑکے کے اوسان خطا ہوگئے کیونکہ وہ کسی بھی قسم کی محنت مزدوری کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ والد کے اس مطالبے نے اسے انتہائی خوفزدہ کردیا تھا۔ وہ روتا ہوا اپنی والدہ کے پاس پہنچ گیا۔
اپنے بیٹےکو روتا ہوا دیکھ کر والدہ کا دل پسیج گیا اور اس نے فوراً اپنے بیٹے کو ایک سونا کا سکہ تھمادیا۔ شام کو جب والد نے بیٹے سے اس کی کمائی کے متعلق پوچھا تو بیٹے نے فوراً اپنی جیب سے سکہ نکال کر باپ کو دکھادیا۔ تاجرنے وہ سکہ دیکھا اور پھر اپنے بیٹے سے کہا ’’جاؤ اسے کنویں میں پھینک دو‘‘
بیٹے نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سکے کو کنویں میں پھینک دیا‘ والد بہت زیرک ، دانا اور تجربہ کار تھا۔ وہ بھانپ گیا کہ یہ سکہ اسے اس کی والدہ نے دیا ہوگا لہٰذا گلے روز تاجر نے اپنی بیوی کو دوسرے قصبے اس کے والدین کے پاس بھیج دیا اور لڑکے کو پھردھمکی دی کہ اگر وہ آج کچھ کما کر نہیں لایا تو اس کا کھانا پینا بند کردیا جائے گا۔اس مرتبہ لڑکا روتا ہوا اپنی بہن کے پاس پہنچ گیا تاکہ اس کی ہمدردی حاصل کرسکے۔ اپنے بھائی کو روتا ہوا دیکھ کر بہن کا بھی دل نرم ہوگیا اور اس نے فوراً اسے کچھ روپے تھمادئیے۔ اس مرتبہ شام کوجب تاجر نے اپنے بیٹے سے اس کی کمائی کےمتعلق پوچھا تو اس نے فوراً روپے دکھادئیے۔تاجر نے روپےدیکھے اور بیٹےسے کہا ’’جاؤ انہیں کنویں میں پھینک دو‘‘
بیٹا فوراً گیا اور پیسے کنویں میں پھینک دئیے۔ تاجر نےاپنی زیرک فہمی سےفوراً اندازہ لگالیا کہ اس مرتبہ پیسوں کا ذریعہ یقیناً اس کی بہن بنی ہوگی۔ اب تاجر نےاپنی بیٹی کو اس کے سسرال بھیج دیا اور بیٹے سے ناراضگی کا اظہار کرتےہوئے کہا ’’اگر اس مرتبہ بھی تم کچھ کما کر نہیں لائے تو یاد رکھوتمہارا کھانا پینا اور جیب خرچ بند کردیا جائےگا۔‘‘
اب تو وہ بہت پریشان ہوا کیونکہ اب اس کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔ لہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ آج تو کام کی تلاش میں جانا ہی پڑے گا۔ اس نےبازار پہنچ کر کئی دکانداروں سے کام مانگا‘ آخر کار ایک دکاندار نے اس سے کہا کہ ’’اگر وہ اس کا صندوق اس کے گھر تک پہنچادے تو وہ اسے اس کے عوض دو روپےدے گا۔‘‘
لڑکا فوراً راضی ہوگیا۔ صندوق کو دکاندار کے گھر تک لے جانے میں لڑکےکی حالت خراب ہوگئی۔ وہ پسینے میں شرابور تھا‘ کام ختم کرنے کے بعد اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اس کی گردن اور کمر میں شدید درد ہورہا تھا اور بوجھ لادنے کی وجہ سے اس کی کمر پر کئی خراشیں بھی پڑچکی تھیں‘ جوں ہی وہ گھر پہنچا‘ اس نے اپنے والد کو منتظر پایا۔
اس نے اپنے والد کو فوراً دو روپے دکھائے۔ والد نے پیسے دیکھتےہی کہا ’’جاؤ انہیں کنویں میں ڈال دو‘‘ ان پیسوں کو کنویں میں پھینکنے کے خیال ہی نے لڑکے کو خوف زدہ کردیا اور زور زور سےرونے لگا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس قدرمحنت سےکمائی ہوئی رقم کو یوں کنویں میں پھینک دے۔ اس نے روتے روتے کہا ’’اباجان! میرے جسم میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی ہیں‘ میری کمر زخمی ہوچکی ہے‘ گردن اکڑ گئی ہے اور آپ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ میں یہ پیسے کنویں میں پھینک دوں؟‘‘یہ سن کر تاجر مسکرایا اور بولا ’’بیٹا! جب کسی کی محنت کی کمائی کو اللے تللے میں ضائع کیا جارہا ہو تو اس شخص کو بھی بڑی تکلیف ہوتی ہے‘ اس سے قبل دو مواقع پر تمہاری والدہ اور بہن نے تمہاری مدد کی تھی‘ اس لیے تمہیں ان کی دی ہوئی رقم کنویں میں پھینکتے ہوئے کسی قسم کا دکھ اور تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔ لیکن آج تمہیں محنت کی قدر ہوئی ہے۔ اب تمہیں پتا چلا کہ چند روپوں کیلئے کتنی محنت کرنی پڑتی ہے۔‘‘ اس دن نوجوان نے اپنےوالد سے وعدہ کیا کہ اب وہ سستی و کاہلی کی بجائے محنت کرے گا اور اپنے والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹائے گا۔
جھوٹ کا انجام
(احمرجٹ)
کسی ملک میں ایک نجومی رہتا تھا۔ بہت ہی جھوٹا اور مکار تھا لیکن لوگ اس پر اتنا یقین کرتے تھے کہ وہ جو کہتا ویسا ہی ہوجاتا۔ اس ملک کے بادشاہ نے ایک مرتبہ نجومی کو اپنے دربار میں بلایا۔ پاس ہی بادشاہ کا وزیر بیٹھا ہوا تھا۔ بادشاہ نے نجومی سے کہا :’’میاں نجومی! آج کچھ ہمارے متعلق بھی بتاؤ۔‘‘یہ سن کر نجومی کچھ دیر حساب کتاب کرتا رہا پھر کہنے لگا: ’’حضور یہ سال آپ کیلئے منحوس ثابت ہوگا‘ ممکن ہے آپ اسی سال وفات پاجائیں۔‘‘
یہ سب سن کر بادشاہ بہت پریشان ہوا‘ وزیر نے بادشاہ کو فکرمند دیکھا تو اسے نجومی پر شدید غصہ آیا۔ وزیر نے دوبارہ حساب لگانے کو کہا اس بار بھی نجومی نے یہی بات کہی۔اب تو بادشاہ کو اپنی موت کا پکا یقین ہوگیا اور اس کا رنگ زرد پڑنے لگا۔ بادشاہ کی یہ حالت دیکھ کر وزیر سوچ میں پڑگیا۔
آخر اس نے بادشاہ سے کہا کہ ’’فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں یہ نجومی بالکل جھوٹا ہے اس کا جھوٹ میں ابھی ثابت کردیتا ہوں۔‘‘
لہٰذا وزیر بولا:’’تم نے بادشاہ سلامت کے بارے میں بتایا ہے‘ کچھ اپنے بارے میں بھی بتاؤ تم کتنا عرصہ زندہ رہو گے؟‘‘ نجومی یہ سن کر سوچنے لگا اور کافی دیر بعد بولا۔ ’’میں ابھی تیس برس اور زندہ رہوں گا۔‘‘
یہ سن کر وزیر نے جلاد کو بلایا اور کہا’’اس نجومی کا سر اڑا دیا جائے‘‘ جلاد نے ایک ہی وار میں نجومی کا سر تن سے جدا کردیا۔ اس نجومی کی لاش بادشاہ کے سامنے تھی۔ وزیر نے بادشاہ سے کہا ’’حضور دیکھیے! یہ کہہ رہا تھا کہ ابھی مزید تیس سال زندہ رہے گا لیکن یہ آپ کے سامنے قتل ہوچکا ہے۔ جو شخص خود اپنی موت کے متعلق ٹھیک نہیں بتا سکتا وہ دوسروں کے بارے میں کیسے کچھ بتا سکتا ہے۔‘‘
نجومی کے قتل کے بعد بادشاہ کا دل سکون آگیا اور رعایا بھی خوش ہوگئی کہ ایک جھوٹ بولنے والا شخص اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ بادشاہ اس واقعہ کے بعد بھی سالہا سال تک زندہ رہا۔
سبق: نجومیوں کے پاس جانا یا ہاتھ دکھانا گناہ ہے‘ غیب کا علم سوائے اللہ کے کسی کے پاس نہیں اور نہ ہی کوئی کسی کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرسکتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں