محترم حکیم صاحب السلام علیکم! تقریباً دو سال پہلے عبقری سے تعارف ہوا اور یہ تعارف اتنا خوبصورت تھا کہ دائمی دوستی اور رفاقت میں بدل چکا ہے‘ جو کام آپ مخلوق خدا کیلئے کررہے ہیں اس کا اجر دینے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ہم صرف تحسین و آفرین پیش کرسکتے ہیں اور آپ کیلئے دعاگو ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہم بھی کچھ قیمتی باتیں شیئر کیا کریں۔ چنانچہ میں آج آپ کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ اور اس سنگین صورتحال سے محفوظ نکلنے والا مجرب نسخہ لیکر حاضر ہوئی ہوں۔
یہ 1992ء کی بات ہے جب میں انڈیا گئی جس روز میں وہاں پہنچی وہ دیوالی کی رات تھی۔ خیر میں اپنے خالہ زاد بھائی کے ہاں مقیم ہوئی‘ رات کا کھانا کھا کر بھابی نے کہا چلو چھت پر آتش بازی دیکھتے ہیں مگر مجھے کوئی دلچسپی نہ تھی‘ پھر اصرار کیا کہ اگلی گلی میں ماموں کے ہاں چلتے ہیں‘ میں ڈر رہی تھی میں نے کہا کہ مجھے آتش بازی سے ڈر لگتا ہے‘ راستے میں کہیں کچھ آکر نہ گرجائے۔ مگر وہ زبردستی یہ کہہ کر گھسیٹ لے گئیں کہ بسیاحَفِیْظُ یَاسَلَامُ کا ورد کرتے چلیں گے پھر کچھ نہیں ہوگا۔ چنانچہ ہم آتش بازی کے اس سیلاب سے ہوکر واپس خیریت سے گھر پہنچ گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس ورد میں بڑی طاقت ہے۔ خیر پھر میں سہارنپور اپنے ددھیال والوں سے ملنے چلی گئی۔ میں قصبہ دیوبند میں تھی کہ اچانک بابری مسجد کا ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ وہ دسمبر کی ایک خنک رات تھی اور کوئی ساڑھے گیارہ بجے تھے کہ میرے چچا گھبرائے ہوئے ہم لوگوں کے پاس آئے۔ (ہم سب ایک کمرے میں بیٹھے باتیں کررہے تھے اور لڈو کھیل رہے تھے) کہ غضب ہوگیا ہے باہر بلوایوں کا ایک بڑا ہجوم جو سخت مشتعل اور ہتھیاروں سے لیس ہے‘ مسلمانوں کی آبادی (جہاں ہم تھے) پر حملے کیلئے دوڑا چلا آرہا ہے‘ اتنے میں خوفناک شور کی آوازیں بھی ہم تک پہنچ گئیں۔ سارے گھر میں ہم چھ جوان لڑکیاں اور ایک خاتون تھیں جبکہ مردوں میں ایک بوڑھے چچا اور دو جوان لڑکے تھے‘ سب ایک دم سراسیمہ ہوگئے۔ یہ میرے چچا کے سالے کا گھر تھا جس کا بیرونی دروازہ بھی لکڑی کا تھا کہ ایک لات سے ٹوٹ سکتا تھا۔ طے یہ ہوا کہ چھت پر لکڑی کی سیڑھی لگا کر برابر والے گھر میں اتر جائیں کیونکہ ان کا گھر کافی محفوظ تھا اور گیٹ کم از کم لوہےکا تھا۔ اس عجلت میں ہم سب بڑی مشکل سے پڑوسیوں کے ہاں چلے گئے۔ مرد چھت پر اینٹوں سے مورچے بنانے لگے اور پتھر اکٹھا کرنے لگے جب ہم نیچے گئے تو وہاں بہت سی خواتین و کمسن و نوعمر لڑکیاں موجود تھیں جو سب خوفزدہ ہوکر رو رہی تھیں میں نے کہا سب نماز میں لگ جاؤ اور قرآن پڑھو اور دعا کرو۔ ہم سب اس میں لگ گئے۔ ہجوم بس گلی میں داخل ہونے کے قریب تھا کہ اچانک مجھے بھابی کے بتائے ہوئے اسماء الحسنیٰ یاد آئے میں نے سب سے کہا باآواز بلندیاحَفِیْظُ یَاسَلَامُ کا ورد کریں اور کمرہ اس ورد سے گونج اٹھا۔ ابھی ہمیں چند سیکنڈ ہی ہوئے تھے کہ اچانک ہجوم کی آوازیں ہلکی ہوکر غائب ہوگئیں۔ اوپر سے کسی نے آکر اطلاع دی کہ پتہ نہیں کیا معجزہ ہوا ہجوم ایسا ایک دم غائب ہوا کہ سب حیرت میں پڑگئے اور کمرے میں یہ سن کر ایک حیرت و شکر و اللہ سے سرشاری کے احساس سے سکوت طاری ہوگیا۔ اللہ اللہ۔۔۔ سبحان اللہ!بس وہ دن ہے اور آج کا دن بائیس سال ہوچکے ہیں یہ وظیفہ میرے دل و زبان کا حصہ بن چکا ہے‘ جو ملتا ہے اسے بتاتی ہوں‘ پچھلے دنوں اپنی دوست کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی تھی گن پوائنٹ پر انگوٹھیاں اتروائیں میں نے دل میں ورد شروع کیا اور ڈاکو میرے ہاتھ میں انگوٹھیاں واپس پھینک کر چلا گیا اس کے علاوہ بھی ایسے برکات و فیوض حاصل ہوئے کہ طوالت کے باعث احاطہ تحریر میں لانا مشکل ہے۔ اس کے ساتھ ایک ضروری نسخہ بھی بتانا چاہتی ہوں کہ خون جو رک نہ رہا ہو اس پر فوراً مٹی کا تیل لگالیں فوراً رک جائےگا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں