پہلے دانت کے نکلتے ہی اسے صاف کرنے کا سلسلہ شروع کردینا چاہیے۔ صاف ستھری روئی یا نرم رومال کے کونے سے دھیرے دھیرے دانت صاف کرتے رہیے اور جب دو چار دانت اور نکل آئیں تو نیم گرم پانی میں تھوڑا سا نمک شامل کرکے روئی بھگو کر دانت صاف کریں۔
سیما کوثر‘ حیدرآباد
برصغیر میں بہت سی مشہور باتوں اور مثالوں میں ’’دندان تلنگانہ‘‘ اور ’’زلف بنگالہ‘‘ کی مثال بھی شامل ہے یعنی موجودہ آندھرا پردیش والوں کے دانت مضبوط اور سفید اور بنگال کی خواتین کے بال دراز‘ سیاہ اور خوبصورت ہوتے ہیں۔ تلنگانہ کے علاوہ جن علاقوں میں مسواک کا استعمال زیادہ اور مٹھاس کم استعمال کی جاتی ہے دانت اب بھی محفوظ اور صحت مند رہتے ہیں لیکن مسواک کا استعمال ترک ہونے کے ساتھ ساتھ دانتوں کا حسن اور مضبوطی بھی ختم ہورہی ہے۔ سب سے اہم اور قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ اب خاص طور پر ملک کے نونہالوں کے دانت تیزی سے کمزور ہورہے ہیں۔
اس کی ایک بنیادی وجہ ماؤں کا اپنے بچوں کو دودھ نہ پلانا ہے‘ انہیں بہت جلد اوپر کے شکر ملے دودھ اور نام نہاد پھلوں کے رس پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں سوئٹس اور چاکلیٹ کے علاوہ میٹھے بسکٹ کھانے کو دئیے جاتے ہیں۔ ذرا بڑے ہوتے ہیں تو ان میں آئس کریم اور کولڈڈرنکس کا لپکا بڑھ جاتا ہے۔ مٹھاس کی اس کثرت اور دانتوں کی صفائی کے طریقے نہ سکھانے کے نتیجے میں بچے جوانی میں قدم رکھتے رکھتے ڈاڑھوں اور دانتوں سے محروم ہوکر پوپلے ہوتے جاتے ہیں۔ کھوکھلی ڈاڑھ کے نوجوانوں کی تعداد میں اضافے کا یہ سلسلہ تقاضا کرتا ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کے دانتوں کی خیرمنانی چاہیے کیونکہ دانتوں ہی کی وجہ سے لذت کام و دہن کے علاوہ لذت گفتار بھی قائم رہتی ہے۔
عام مشاہدہ ہے کہ دانتوں کے معالجین کے بچوں کے دانت کھوکھلے ہونے سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس کا سبب کوئی خاص منجن یا ٹوتھ پیسٹ نہیں ہوتا بلکہ صرف دانتوں کی صحیح صفائی کی عادت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان میں یہ عادت والدین ہی کی وجہ سے پڑتی ہے۔ اس لحاظ سے تمام والدین اپنے بچوں میں دانتوں کی صفائی اور ان کے تحفظ کا شعور پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ عادت شروع ہی سے ڈال دی جائے توپھر بچے زندگی بھر دانتوں جیسی نعمت سے مالامال رہ سکتے ہیں۔
بچے کے منہ میں دانت‘ ماں کے پیٹ میں آٹھویں ہفتے سے بننے لگتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ بہت ضروری ہے کہ ماں ایسی غذائیں لے جو ہڈیوں کی طرح دانتوں کے بننے میں معاون ثابت ہوں۔ ماں اگر شدید قسم کے نقص تغذیہ سے محفوظ رہے تو پھر یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ نقص تغذیہ سے بچنے کی بہتر اور مؤثر تدبیر یہی ہے کہ ماں دوران حمل اور ولادت کے بعد بھی متوازن غذا کھائے تاکہ اسے پروٹین‘ نشاستے دار اشیاء (کاربوہائیڈریٹس) معدنی نمک (کیلشیم وغیرہ) اور حیاتین درست مقدار میں ملتے رہیں۔
دوران حمل:اکثر اوقات ہونے والی ماں خود بھی مسوڑھوں کی تکالیف میں مبتلا ہوجاتی ہے‘ مثلاً مسوڑھے سوج جاتے ہیں جن سے خون رسنے لگتا ہے۔ طبی اعتبار سے یہ کیفیت ’’دوران حمل دانتوں کا ورم‘‘ کہلاتی ہے۔ حاملہ خواتین اس صورت حال سے خود کومحفوظ رکھ سکتی ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دانت پوری توجہ سے صاف کریں۔ کھانےکے بعد خلال کریں۔ جب بھی کوئی میٹھی چیز کھائیں سادے یا نمک ملے پانی سے اچھی طرح کلیاں کرنے کا اہتمام کریں۔ اس کے باوجود تکلیف ستائے تو معالج دنداں سے ضرور مشورہ کریں۔
حمل کے دوارن بھوک بڑھ جاتی ہے جو دراصل پیٹ میں پروان چڑھنے والے بچے کی بھوک کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اکثر اوقات ہونے والی مائیں یہ سمجھ کر کہ وہ وقت پرکھانا کھاچکی ہیں یہ بھوک مٹانے کیلئے میٹھے بسکٹ‘ نان ختائی‘ توس‘ پاپے وغیرہ کھاتی ہیں جس سے انہیں دانت اور مسوڑھوں میں ورم وغیرہ کی شکایت ہوجاتی ہےجو بڑھ کردانتوں کی بوسیدگی اور کمزوری کا سبب بن جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں پان کی عادی خواتین دوران حمل پان اور تمباکو کا استعمال کرکے اپنے مسوڑھوں اور دانتوں پر ظلم کرتی ہیں۔
بچے کےدانت: دوران حمل دانتوں کی صحیح نشوونما کا خیال رکھنے کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ دنیا میں آنے کے بعد اسے مقررہ وقت پر ماں اپنا دودھ پلائے اوپر کا دودھ شکر کےبغیر پینے کی عادت ڈالی جائے۔
کوئی بھی بچہ مٹھاس کا لقمہ لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ شکرخوری کی عادت اس میں اس کے ماں باپ اور چاہنے والے ڈالتے ہیں۔ یہ میٹھا پیار دُلار بچے کے دانتوں کے حق میں زہر ثابت ہوتا ہے۔ شکر بچے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ کیونکہ اس کا جسم ملنے والی غذا سے خود شکر تیار کرتا ہے۔ پیدائش کے بعد چھ مہینوں تک بچےکو شکر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے بعد بھی اسے شکر کے بغیر دودھ دلیا دیناچاہیے۔ پھلوں کا رس بھی شکر کے بغیر دینا چاہیے۔ اس میں خواہ مخواہ شہد وغیرہ ملانا نہیں چاہیے۔
اسی طرح اگر اسے بوتل سے دودھ پلانا ہی پڑے تو یہ دودھ پلانے کا عمل طویل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ اس کے منہ میں بوتل لگا کر شکر ملا دودھ گھنٹوں پلایا جائے۔ اس کی وجہ سے منہ میں موجود شکر تیزاب بن کر اس کے دودھ کے دانت کھوکھلے کرتی ہے۔ یہ نقصان صرف کچے دانتوں تک محدود نہیں رہنا۔ تیزابیت‘ مسوڑھوں کی گہرائی میں بننے والے پکے دانتوں کا خاتمہ بھی کردیتی ہے۔
یہ یاد رہے کہ بچے کا پہلا دانت کوئی چھ مہینے کے لگ بھگ باہر آتا ہے۔ دانت نکلنے کے دوران بچے بے چین اور بے آرام رہتے ہیں۔ ان کے مسوڑھے سوج جاتے ہیں‘ ان میں سرخی اور کھولن سی رہتی ہے۔ اس کیلئے وہ کوئی چیز اور کھردری چیز چبانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس طرح انہیں سخت نمکین بسکٹ‘ رس دینے سے اسے چبا کر وہ راحت محسوس کرتے ہیں۔ مسوڑھوں کی ہلکی مالش کرنے سے بھی آرام ملتا ہے۔
پہلے دانت کے نکلتے ہی اسے صاف کرنے کا سلسلہ شروع کردینا چاہیے۔ صاف ستھری روئی یا نرم رومال کے کونے سے دھیرے دھیرے دانت صاف کرتے رہیے اور جب دو چار دانت اور نکل آئیں تو نیم گرم پانی میں تھوڑا سا نمک شامل کرکے روئی بھگو کر دانت صاف کریں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں