ہر نماز فجر کے بعد ان الفاظ کو پابندی سے پڑھنا شروع کیا اور اللہ سے ہرروز خشوع خضوع کے ساتھ دعا کرتا کہ یااللہ میری تنگدستی دور فرما۔ چند ہی مہینوں میں میرا سارا قرضہ بھی اتر گیا ہے اور میں خوشحال بھی ہوگیا ہوں اور الحمدللہ اب تک خوشحال ہوں۔
عاشق حسین فاروقی‘ کراچی
میرے پاس ایک دوست اپنے کسی عزیز کےساتھ تشریف لائے‘ باتوں باتوں میں وہاں اعمال اور دعا کی قوت و طاقت پر بحث چل نکلی۔ میرے دوست کے عزیز نے دعا کی طاقت پر اپنا دلچسپ اور پرتاثیر واقعہ سنایا کہ آج سے کئی سال پہلے میں مالی طور پر بڑی تنگدستی کا شکار تھا‘ قرض داروں نے الگ پریشان کیا ہوا تھا‘ زندگی سے سکون و اطمینان رخصت ہوچکا تھا کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں کہ اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ ایک دن میں موٹرسائیکل پر کہیں جارہا تھا کہ راستے میں ایک بڑی عمر کے بزرگ نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روکا اور کہنے لگے بیٹا آج جمعہ کا دن ہے‘ مجھے نماز میں دیر ہورہی ہے‘ آپ مہربانی فرما کر مجھے مسجد کے قریب چھوڑ دیں‘ میں نے انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا اور قریبی ایک مسجد کے قریب انہیں اتارا‘ انہوں نے نیچے اتر کر مجھے بازوؤں سے پکڑا اور فرمایا کہ آپ بھی نماز پڑھ لیں‘ میں شرم کی وجہ سے موٹرسائیکل کو سائیڈ میں لگا کر ان کے ساتھ مسجد میں داخل ہوگیا اور وضو کرنے لگا‘ وضو کےدوران شیطان مجھے ورغلا رہا تھا اور میرا قطعی نماز پڑھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا‘ میں سوچ رہا تھا کہ وضو کرکے مسجد سے نکل جاؤنگا میں جیسے ہی وضو کرکے کھڑا ہوا اور باہر کی طرف نکلنے لگا تو اتنے میں جماعت کھڑی ہوگئی چونکہ جمعہ کا مبارک دن تھا‘ مسجد میں لوگوں کا بے پناہ رش تھا‘ صف میں لگنے کیلئے جیسے ہی لوگ تیزی سے آگے بڑھے میں بھی اس ریلے میں بہہ کر ایک صف میں لگ گیا اور نماز میں شامل ہوگیا (گویا کے میں نے زبردستی نماز پڑھی) بہرحال نماز دعا سے فارغ ہوکر میں جلدی سے مسجد سے باہر نکلا تو مسجد کے گیٹ پر ایک لڑکا کوئی پرچے تقسیم کررہا تھا اس نے ایک پرچہ میرےہاتھ میں بھی تھما دیا‘ میں نے جلدی سے وہ پرچہ لے کر مروڑ تروڑ کر جیب میں ڈال لیا اور موٹرسائیکل پر بیٹھ کر اپنے کام پر چلا گیا۔ رات کو میں جب اپنے ٹھکانے پر آیا اور حسب عادت اپنی جیبوں سے سامان نکال کر سیٹ کرنے لگا تو اس میں سے مجھے وہ پرچہ بھی ملا میں نے اسے کھول کر پڑھنا شروع کیا۔ اس میں لکھا تھا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا ہے کہ ایک روز ایک آدمی بارگاہ رسالت سرور کائنات ﷺ میں حاضر ہوا اور عرض کی دنیا نے میری طرف سے پیٹھ پھیر لی ہے اور منہ بھی پھیر لیا ہے۔ سرکار دوجہاں ﷺ نے اس آدمی کو فرمایا کہ ملائکہ کی جو نماز اور اللہ کی مخلوق کی جو تسبیح ہے اس سے تو کیوں غافل ہوگیا ہے‘ اسی کے صدقے ان سب کو رزق دیا جاتا ہے‘ جب صبح صادق طلوع ہو تو یہ تسبیح ایک سو بار پڑھا کرو۔
سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ اَسْتَغْفِرُاللہ۔ سرکار دوجہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا دنیا تیرے پاس ذلیل ہوکر آئے گی۔ اپنے آقا و مولیٰ ﷺ کا یہ ارشاد معرز جاں بنانے کے بعد وہ آدمی واپس چلا آیا۔ کچھ مدت ٹھہرا رہا پھر حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ ﷺ میرے پاس اتنی دولت آگئی ہے کہ مجھےاس کے رکھنے کی جگہ نہیں ملتی۔ایک بزرگ کےبارے میں بھی مشہور ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کو فجرکی سنت اور فرض کے درمیان یہی درج بالا الفاظ پڑھنے کی ترغیب دیتے تھے‘ بہت ہی مجرب نسخہ ہے۔
بہرحال وہ صاحب فرمانے لگے میں یہ واقعہ پڑھ کر بڑا خوش اور مطمئن ہوا اور میں نے اس کے بعد نماز پانچ وقت جماعت کے ساتھ پڑھنا شروع کی اور ہر نماز فجر کے بعد ان الفاظ کو پابندی سے پڑھنا شروع کیا اور اللہ سے ہرروز خشوع وخضوع کے ساتھ دعا کرتا کہ یااللہ میری تنگدستی دور فرما۔ چند ہی مہینوں میں میرا سارا قرضہ بھی اتر گیا ہے اور میں خوشحال بھی ہوگیا ہوں اور الحمدللہ اب تک خوشحال ہوں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں