Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

بڑی بی کے طبی تجربات آپ کی خدمت میں

ماہنامہ عبقری - فروری 2014ء

اماں کی عمر کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ 1947ء سے پہلے اماں صاحب اولاد تھیں۔ تو آج وہ یقیناً نوے سال سے اوپر کی عمر لے کر اور نہایت صحت مندانہ انداز میں چل رہی ہیں اب بھی وہ ٹھنڈے پانی اور اے سی سے گریز کرتی ہیں اور اس لیے صحت مند ہیں۔

داناؤں سے ایک بات سنی ہے جب فارغ وقت ہو تو بڑوں کے پاس گزارو وہاں تربیت بھی تجربے بھی اور پرکھ بھی یہ سب کچھ ملے گا پچھلے دنوں میں اپنی فیملی سمیت قصورشہر گیا۔ ایک مخلص کے گھر جانا ہوا‘ ان کی والدہ بوڑھی لیکن مخلص‘ نیک متقی اور نہایت سلیقہ مند اور بلا کی تجربہ کار‘ فوراً میری رگ پھڑکی اور جی میں آیا کیوں نہ بڑی بی کے تجربات حاصل کرلوں اور میر ؔکا شعر میرے سامنے آیا:؎
میرؔ احباب جمع ہیں درد دل کہہ لے
پھر التفات دل دوستاں رہے نہ رہے
بڑے بوڑھے چراغ سحری ہوتے ہیں ان سے جو کچھ لینا ہے لے لیں اور یہ میرے مزاج میں ہے کہ میں بڑے بوڑھوں کو کبھی فراموش نہیں کرتا‘ ان سے لے لے کر پھر اسے سنوار سنوار کر قارئین کی خدمت میں پہنچانا اپنا فرض اولین سمجھتا ہوں شاید یہ خدمت میری آخرت کا سامان ہوجائے۔ اللہ کرے ایسا ہوجائے۔
اماں کی عمر کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ 1947ء سے پہلے اماں صاحب اولاد تھیں۔ تو آج وہ یقیناً نوے سال سے اوپر کی عمر لے کر اور نہایت صحت مندانہ انداز میں چل رہی ہیں اب بھی وہ ٹھنڈے پانی اور اے سی سے گریز کرتی ہیں اور اس لیے صحت مند ہیں۔
یرقان کا خاتمہ: اماں اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے فرمانے لگیں کہ پرانے سے پرانا یرقان ہو جو کسی علاج سے ٹھیک نہ ہوتا ہو اس کیلئے میں بڑی بی کہنے لگیں کہ تقسیم سے پہلے یعنی 1947ء سے پہلے ریاست فیروزپور میں ایک حکیم احمد دین ہوتے تھے بڑے مہنگے‘ سخت مزاج اور نہایت بااصول تھے اور پھر لوگوں کو ان سے شفاء بھی ملتی تھی۔ لاعلاج سے لاعلاج مریض ان سے ہم نے ٹھیک ہوتے دیکھا۔ تو میں بات کررہی تھی پرانے سے پرانے یرقان کی بڑی بی اپنی بات کا رخ بدلتے ہوئے کہنے لگیں کیونکہ کانوں سے بہری تھیں تو ان کے فرمانبردار بیٹے اور تابعدار بہو میری مدد کررہی تھیں۔ ان کا فرمانبردار بیٹا چودھری نصیر ان کے کان میں میرا سوال ڈالتا اور بڑی بی بہت سلیقے سے اس کا جواب دیتی کہ ان کے بول بول سے تجربہ اور مشاہدہ پکار رہا ہوتا تھا کہ لوگو! لوٹ آؤ فطرت کی طرف ورنہ رنگ برنگی گولیاں اور فائیوسٹار بلڈنگ جیسی ہسپتالوں نے تمہارا سب کچھ نچوڑ کر رکھ دینا ہے۔ بڑی بی بہت سلیقے سے ایک نسخہ پرانے یرقان کا بتانے لگیں۔ ھوالشافی: بڑی ہریڑ سبز‘ چھوٹی کالی ہریڑ‘ بہیڑہ‘ آملہ خشک‘ چھوٹی الائچی‘ بھنے ہوئے کالے چنوں کاچھلکا‘ ناریل دریائی‘ ہم وزن لے کر کوٹ لیں۔ مٹی کے پیالہ میں اگر وہ نہ ملے تو عام برتن میں دو بڑے چمچ آدھا کلو پانی میں بھگو دیں۔ صبح نہار منہ چھان کر ہلکا شہد ملا کر یا شہد نہ بھی ملائیں شکر اور اگر شکر نہ ہو تو پھیکا ہی پی لیں۔ چالیس دن تک پئیں۔ پرانے سے پرانا یرقان ایسے ختم ہوجائے گا کہ کبھی نشان تک نہیں رہے گا۔ یہ پانی سارا دن تھوڑا تھوڑا کرکے پیتے رہیں چاہیں تو ایک دفعہ کرکے نہار منہ پی لیں لیکن اس میں سے نہار منہ پینا بہت ضروری ہے۔
پرانے سے پرانے پیچش ختم: ھوالشافی: بڑی بی نے پرانے موشن‘ بچوں کوہوں یا بڑوں کو پیچش مروڑ اور درد کیلئے حکیم صاحب کا ٹوٹکہ بتایا فرمایا: مجھے تین مہینے موشن لگے رہے میں نے اپنے بڑے بیٹے سے انار منگوائے اور انار کے اوپر جو اس کا تاج ہوتا ہے جس کے اندر بورا ہوتا ہے تو اس کو کچھ اس طرح کریں کہ پہلے انار کا رس نکال لیں ململ کے کپڑے میں مل مل کر یا پھر مشین کے ذریعے اور اس کا جو تاج(ڈوڈی) ہوتا ہے کسی برتن میں تھوڑا سا انار کا رس لے کر اس تاج(ڈوڈی) کو گھساتے رہیں‘ گھساتے رہیں حتیٰ کہ سارا اس پانی میں حل ہوجائے پھر بچوں کو قطرہ قطرہ یا آدھی چوتھائی چمچ یہی پانی دن میں چار پانچ مرتبہ یا ایک مرتبہ پلائیں۔ پرانے سے پرانی پیچش‘ مروڑ اور دستوں کیلئے لاجواب چیز ہے۔ چند دن یا چند ہفتے استعمال کریں۔
بے اولادی جوڑوں کیلئے خوشخبری: ھوالشافی: بے اولادی جتنی پرانی ہو علاج معالجہ کرکے تھک گئے ہوں اس کے لیے بڑی بی نے ایک بہترین ٹوٹکہ بتایا ہے جو خود انہوں نے اپنی بہو کو دیا اللہ پاک نے بیٹا دیا اب وہ حافظ قرآن ہے۔ فرمایا کہ ایک کپ عرق گلاب اور ایک کپ چائے والا خالص عرق سونف ملا کر ہلکا نیم گرم کرکے ماہواری کے دوران صبح و شام پلائیں یا ایک وقت پلائیں صرف تین دن پلائیں اور شوہر اسپغول ثابت صاف کرکے دوبڑے چمچ دودھ میں ملا کر میٹھا ملا کر اس کی کھیر بنائے رات کو پکا کر رکھ دے صبح اٹھ کر کھالے۔ چند دن یا چند ہفتے شوہر یہ کھیر صبح نہار منہ کھائے اور بیوی ہر ماہواری میں عرق والا ٹوٹکہ ضرور استعمال کرے۔ کہنے لگیں یہاں ایک خاندان ہے دونوں بہن بھائیوں کے گھر اولاد نہ تھی ان کو بابا جی یعنی حکیم احمد دین مرحوم نے یہی نسخہ دیا اللہ نے انہیں دو بیٹے دئیے۔ میرے دیور کے گھر بھی اسی نسخے کی وجہ سے اولاد ہوئی اور بے شمار لوگوں کو اس نسخے سے فائدہ ہوا۔
انوکھا واقعہ: ہمارے ہاں گاؤں سے لوگ ایک مریض کو چارپائی پر لے کر آئے۔ پہلے زمانے میں لوگ چارپائیوں پر مریض لے کرآتے تھے۔ حکیم صاحب کےپاس لائے تو انہوں نے کہا کہ اس نے نہیں بچنا یہ جلد وفات پاجائے گا۔ جب وہ تھک ہار گئے تو ایک کماد کے کھیت کے پاس چارپائی رکھ کر خود آرام کرنے کیلئے لیٹ گئے۔ مریض نے لیٹے لیٹے قریب اُگے ہوئے ایک گنے کو اکھاڑا اور چوسنا شروع کردیا۔ اس کے بعد اس نے ایک اور گنا اکھاڑا وہ بھی چوسا۔ اس کے رشتہ دار سارے سوئے ہوئے تھے۔ جب وہ اٹھے تووہ مریض اٹھ کر بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ گنے کے استعمال سے ان کامریض ٹھیک ہورہا ہے تو انہوں نے چند دن اسے گنے استعمال کرائے تو وہ بالکل ٹھیک ہوگیا۔
وہ پھر دوبارہ ہمارے گاؤں کے حکیم صاحب کے پاس آئے اور اُ نہیں اُس مریض کو دکھایا تو اس حکیم صاحب نے کہا کہ اس نے گنے تو نہیں چوسے؟ تو انہوں نے جواب دیا ہاں!
حکیم صاحب کہنے لگا اس کا اللہ کی طرف سے تُکّا (اچانک اللہ کی مدد آگئی) لگ گیا نیچے کالے ناگ کا گھر تھا اس کی وجہ سے اس نے بچنا تھا۔ بہت سمجھدار تھا‘ منہ پر بات کرتا تھا۔ کھرا تھا‘ سخت مزاج تھا لیکن کمال کا دانش مند اور معالج تھا۔
حکیم صاحب کی دانش مندی: ایک جوان نوکری سے آکر راستے میں اس جگہ بیٹھ گیا جہاں لڑکیوں کا پانی بھرنے کیلئے آنا جانا تھا حکیم صاحب سمجھدار تھے۔ ایک دیہاتی آیا جوان لڑکی کے ساتھ۔ حکیم صاحب نے پہلے ان دونوں کو دیکھا پھر اسکا کان دیکھا اور نامعلوم کان میں کیا دیکھا فرمایا:اس کو لے جاؤ اس کی شادی کردو۔ واقعی شادی کرنے سے ان کا مسئلہ حل ہوگیا۔
مینڈک کے بچے سے بیماری: گاؤں کی عورتیں پانی کنویں سے عموماً نکالتی ہیں‘ بھرے ہوئے پانی کے اندر مینڈک کا بالکل چھوٹا سا بچہ چلا گیا۔ وہ پانی کسی طرح کسی عورت نے پی لیا اور وہ بچہ اس کے اندر چلا گیا۔ اس کو بہت سخت تکلیف اور دورے پڑنا شروع ہوگئے۔ حکیم صاحب کےپاس لے آئے۔ کہنے لگے کہ ساری رات چیختی ہے نہ سوتی ہے بس پانی مانگتی ہے۔ حکیم صاحب سمجھ گئے کہنے لگے اس کمرے میں اس کو بند کردو اور اس کو پانی نہیں دینا وہ ساری رات چلاتی رہی‘ چیخیں مارتی رہی اور پانی مانگتی رہی لیکن حکیم صاحب نے پانی نہ دیا۔ صبح نو دس بجے اس کے وارثوں کو کہا کہ کمرے کا دروازہ کھولو اور کھلے برتن میں پانی بھر کر رکھ دیا اور عورت سے کہا کہ اس کھلے برتن میں منہ ڈال کر ایسے پانی پیو جیسے جانور پانی پیتا ہے۔ جب اس نے پانی میں منہ ڈالا تو اندر مینڈک کا بچہ اچھل کر اس پانی کے اندر آگیااور مریضہ تندرست ہوگئی۔بی اماں کہنی لگیں کہ حکیم صاحب بہت سمجھدار تھے میرے دادا کو بخار چڑھا تھا‘ وہ آئے تو کہنے لگے اس نے آٹھویں دن نو بجے فوت ہوجانا ہے۔ وہ اُسی دن فوت ہوگئے۔ میرے نانا اور دادا بہت زیادہ عبادت گزار تھے۔ نانا میرا پٹواری عالم تھا‘ ماما میرا ڈاکٹر وہ بھی عالم فاضل تھے۔ انہوں نے پھر سارے رشتہ داروں کو خط لکھ دیا کہ آٹھ دن بعد نو بجے دادا جی نے مرجانا ہے اور واقعی ایسا ہوا۔
لاعلاج الٹی کیلئے:بچے جب دانت نکال رہے ہوں تو ان کو الٹیاں لگ جاتی ہیں۔ سوکھی گاجر‘چھوٹی الائچی‘ کول ڈوڈے کی گریاں نکال کر آدھی کچی بھننی ہے اور آدھی ویسے ہی۔ ہموزن۔ پانی کی پتیلی ابال کر اس کو نیچے اتار کر جلدی جلدی اس سب مرکب سے ایک بڑا چمچ اس میں ڈال دیں۔خود ہی ٹھنڈا ہو جائے۔ اب یہی پانی آدھا چمچ یا چند قطرے بار بار پلائیں‘ اس سے بے شمار لوگوں کو آرام آیا۔
کھانسی کیلئے آزمودہ پھکی: سوکھا دھنیا، چھوٹی الائچی، چینی گرائنڈ کرکے پھکی بنا کر کھالیں۔ بڑی مزیدار ہوتی ہے جب دل کرے چمچ کھالیں۔
ایک جج تھا پتہ نہیں کون سے شہر کا؟ اس کو نزلہ لگااور اس کی آنکھوں پر اتر گیا اور اس کو نظر آنا بند ہوگیا۔ کسی نے کہا فیروزپور لے جاؤ وہ لے کر آئے تو کہنے لگے اس کو نزلہ تو نہیں لگا کہنے لگے لگا نزلہ ہی تھا۔۔۔ پہلے تو اس کو حکیم صاحب نے جلاب دیا پھر دوائیاں دیں پھر کہنے لگا اس کو وہاں پر لے جاؤ جہاں سونف لگی ہو۔ صبح چاندی کی چمچ بنوائیں ‘ اس میں شبنم نچوڑ کر اس کی آنکھوں میں ڈالیں۔ اس سے وہ جج ٹھیک ہوگیا۔
اس کا ایک شاگرد احمد دین اس کے ساتھ بیٹھتا تھا‘ حکیم کہنے لگا کہنے لگا احمد دین۔ وہ شاگرد کہنے لگا جی حکیم جی۔ اوہ فلاں دیکھا ہے حوالدار وہ گاؤں میں جاتے ہیں تو پاگل ہوجاتے ہیں ساتھ پیتے ہیں بوتلیں‘ ساتھ پیتے ہیں چائے۔ مرغے کھاتے ہیں وہاں سے ٹھنڈا گرم ہوکر آتے ہیں یہ حوالدار 12بجے مرجائے گا۔ واقعی وہ حوالدار بارہ بجے وفات پاگیا۔
ایک میرا بھائی بتاتا ہے کہ کسی کے اندر اونٹ کا چیچڑچلا گیا۔ وہ بڑا ہی تنگ اور بہت پریشان تھا۔ دنیا کی ہر بیماری اسے لگی ہوئی تھی اس مریض کولے آئے تو حکیم صاحب کہنے لگے کہیں سے اونٹ کی بوٹی مل جائے گی۔ وہ کہیں سے گوشت کا ٹکڑا ڈھونڈ کر لائے۔ حکیم صاحب نے وہ گوشت کا ٹکڑا دھاگے سے باندھ کر اس کے گلے کے راستے پیٹ میں وہ گوشت کا ٹکڑا ڈالا اور آہستہ آہستہ دھاگے کو ہلاتا رہا۔ جب وہ چیچڑ اس گوشت کے ساتھ چپک گیا تو اسے پتہ چل گیا تو جلدی سے باہر دھاگہ نکالا اور مریض تندرست ہوگیا۔
حکیم صاحب کا سادہ لباس: بڑی بی حکیم صاحب کا لباس واضح کرتے ہوئے فرمانے لگیں حکیم صاحب کا لباس یہ تھا کہ کھدر کا پاجامہ اور کھدر کی قمیص اورٹوپی لے کر ساتھ پگڑی باندھ لیتے تھے۔ ساتھ تنوں والی جوتی۔ یعنی چمڑے کی سادہ جوتی اورسادہ لباس۔ کئی بار قمیص روئی دار پہنتے اورکہتے لوگو! جو روئی نے گرمی دینی ہے وہ کسی نے نہیں دینی۔ میری والدہ روئی دار قمیص بناتی اور وہ سردیوں میں خاص طور پر وہ قمیص پہنتے تھے۔وہ اس طرح بناتے کہ جس طرح ویسکوٹ ہوتی ہے اس کے اندر روئی رکھ کر اس کے اوپر کپڑا رکھ دیتے اور جس طرح رضائی کو بنتے ہیں ویسے ہی قمیص کو بنتے تھے۔ سردیوں میں وہ کہتے کہ مجھے بھوسے والے کمرے میں سلائیں۔ کہتے بھوسے والا کمرا گرم ہوتا ہے۔ جس دن فوت ہوئے ہمارے فیروزپور میں تمام کاروبار‘ کچہریاں ہر چیز بند تھی۔ کہتے تھے آج پورا فیروزپور یتیم ہوگیا ہے۔
ہمارے فیروزپورمیں دو قلعے تھے ایک قلعے میں دس ہزار آدمی کام کرتے تھے‘ بیروزگار دوسرے شہروں سے آکر۔ بڑا اچھا شہر تھا ہمارا۔ عبادت بھی بہت تھی۔ ہر طرف رونق بہت زیادہ ہوتی تھی۔ جب پاکستان بنا اُس وقت میری عمر 19 سال تھی۔ شادی شدہ تھی۔ اپنے بڑوں کی بات بتاتے ہوئے وہ کہنے لگیں کہ لاہورمیں اس کو بڑے ہسپتال میں لے کر گئے۔ ایکسرے دیکھنے کے بعد ڈاکٹر کہنے لگا پھر علاج کروں گا پہلے مجھے بیعت کرو؟ انہوں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا اس کی ہڈی ہڈی پر کلمہ لکھا ہوا تھا۔ سبحان اللہ اللہ کے نیک آدمی تھے۔حکیم صاحب کی بات بتاتے ہوئے وہ کہنے لگیں جب وہ حکیم صاحب فوت ہوئے تھے تو پاس گھڑی رکھ لی اور بتاتے جارہے تھے کہ اب اتنی دیر رہ گئی ہے۔
ہمارے وہاں ہربنس سنگھ تھا اس کے ڈیرے کے ساتھ کوٹھی تھی اس کوٹھی کے مالک کو حکیم صاحب کہتے تھے کہ یہ جب بھی مرے گا ڈوب کر ہی مرے گا اور وہ ڈوب کر ہی مرا تھا۔
میری بہن سنگھ سطح بورڈنگ میں پڑھتی تھی ‘لڑکیاں فارغ بیٹھیں آپس میں گانا گارہی تھیں تو حکیم صاحب مریض کو دیکھنے کی غرض سے وہاں سےگزرے ۔ ایک لڑکی کی آواز سن کر کہنے لگے کہ یہ حاملہ کی آواز ہے۔ آواز سے پہچان لیا کہ یہ طالب علم لڑکی حاملہ ہے۔حکیم صاحب ہمیشہ اوپر والی چھت پر سوتےتھے کبھی پنکھا نہیں لگاتے تھے اور کہتے تھے کوئی ایسا ہوا کا جھونکا آتا ہے جو صحت مند کرتا ہے۔ پنکھے کے سخت خلاف تھے۔حکیم صاحب کہتے تھے کہ جب بچہ دانت نکالے تو سر میں مالش کریں‘ اس کانوں میں بادام روغن ڈالیں۔بچے کو جب ہنسلی پڑی ہو یعنی اس کی پسلیوں کی ہڈیاں ایک دوسرے پر چڑھ گئی ہوں‘ سینہ جکڑا ہوا ہو اور ہنسلی کی ہڈی اوپر چڑھ گئی ہو تو کپڑا لےکر اس کے دوکنارے ایک سے طرف سے کسی اور کو پکڑا دیں اور دوسری طرف سے کسی اور کو اور بچے کو کپڑے میں لیٹا کر دونوں طرف سے ہلائیں‘ ہنسلی نکل جاتی ہے۔ ہم تو اسی طرح کرتے ہیں۔ جس طرح جھولے دیتے ہیں۔بڑی بی مزید فرمانے لگیں:سرمہ جب ہم بناتے ہیں اس میں زم زم کا پانی جس وقت تھوڑا سا باریک ہوجائے تو ثابت مہندی کے پتے ہلکے بھون کر باریک ہوجائیں تو اس کا پانی‘ چاندی کے ورق‘ چھوٹی الائچی ہلکی سی بھون کر باریک ہوجائے تو کپڑچھان کر کسی شیشی میں ڈال لیتے ہیں۔ مزید اس میں اضافہ کرتے ہوئے بڑی بی نے بتایا کہ مہندی کا پانی‘ آب زم زم، چاندی کے ورق‘ ہیڑیڑ سبز‘ بڑی چھوٹی‘ چھوٹی الائچی بھی اس میں ڈالتے ہیں اور ہم اسی طرح سرمہ بناتے ہیں۔ قارئین! اماں کی باتیں اماں کی زبانی کچھ ربط کچھ بے ربط لیکن سب تجربات و مشاہدات مجھے آپ تک پہنچا کر خوشی ہورہی ہے کہ میں نے قارئین تک وہ کچھ پہنچا دیا جو ان کی امانت تھی آپ بھی ایسے پُرانے لوگوں کے تجربات و مشاہدات عبقری میں لکھا کریں۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 342 reviews.