داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہ (پھلت):حضرت مولانا عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ ان کی کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
ارحم الرحمین حکیم و خبیر رب نے اپنے آخری نبیﷺ کو رحمۃللعالمین بناکر اس دنیا میں رحمت کی ہوائیں چلانے کے لیے بھیجا، اور ہمیں نبی رحمتﷺ کا اپنے فضل خاص سے بلااستحقاق اور بلا طلب امتی بنایا اور آپ پر ختم نبوت کا اعلان فرما کر اپنے خاص کرم اور عنایت سے وہ عظیم المرتبت کام جس کے لیے انبیاء کو معبوث فرماتے تھے، اس کی نیابت ہمیں عطا فرما کر ہمیں خیر امت کا عظیم لقب اور منصب عطا فرمایا اور بڑے فخر سے اپنے منشور میں اعلان فرمایا: ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنھون عن المنکر‘‘تم سب سے اچھے ہو، تم سب سے بہتر امت ہو قرآن مجید کی اس آیت شریفہ کو پڑھتے وقت ایسا لگتا ہے جیسے کوئی ماں باپ اپنی اولاد میں اپنے اس بیٹے یا بیٹی کو جو بہت سی اولاد میں اپنے اس بیٹے یا بیٹی کو جو بہت سی اولاد میں سب سے زیادہ سعید وفرمانبردار اور کسی صلاحیت کی وجہ سے اس کو قابل فخر کہے، مثلاً کہتے ہیں یوں تو شمار کرنے کے لیے میرے پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں مگر مولوی عبداللہ یا فلاں بیٹے کے کیا کہنے، بالکل اسی طرح رب کائنات بڑے فخر کے ساتھ ہمارے خیر امت ہونے کو ہمارے عظیم المرتبت کام اور ذمہ داری کے ساتھ ذکر کرتے ہیں، کنتم خیر امۃ اخرجت للناس
تم سب سے اچھے ہو، تم بہتر ہو، تم انسانیت کی نفع رسانی اور خیر خواہی کے لئے نکالے گئے ہو اور بھلائی بھی سب سے عظیم، کہ تم پوری انسانیت کی خیر خواہی اور نفع رسانی کے لیے نکالے گئے ہو، تم سب کو بھلائی کا حکم کرتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔ یہ دین قیامت تک رہنے والا ہے، تحریف کے سارے راستے بند کردیئے گئے ہیں، مشہور مفسر علامہ طبری نے اس آیت کی تفسیر میں روایت نقل کی ہے کہ تم ایمان کا حکم کرتے ہو اور کفر و شرک سے روکتے ہو، مفسرین کے سرخیل حضرت عبداللہ بن عباس کا قول اس آیت کے ذیل میں مفسرین نے نقل کیا ہے کہ ایمان والوں کو ان کی مائوں کے پیٹوں سے داعی بناکر نکالا گیا ہے، امیر المومنین حضرت عمرؓ کا ارشاد بھی مفسرین نے نقل کیا ہے کہ تمہاری سرداری دعوت کی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ یہ اشکال اور خیال بار بار ذہنوں میں خلجان پیدا کرتا ہے، خصوصاً آج کے دور میں، کہ پوری دنیا میں امت مسلمہ تو ذلت، مغلوبیت اور محکومیت کا شکار ہے، جبکہ قرآن مجید میں اس کو خیرامت، سردار اور سب سے بہتر امت کہا گیا ہے، اور آج پورے عالم میں مسلمانوں سے زیادہ ذلت سے کوئی قوم دو چار نہیں تو یہ خیال قرآن کو صحیح نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، اصل میں یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ ہر عبداللہ اور عبدالرحیم خیر امت ہے، بلکہ قاعدہ ہے افسری کرو گے تو افسر کہلائو گے، جھاڑو لگائو گے تو افسر کیسے کہلائو گے، قرآن مجید نے خیر امت کو دعوت کی شرط کے ساتھ مشروط کیا ہے، یعنی نبیوں کی راہ چلوگے تو خیر امت کہلائو گے، نبیوں کی راہ کیا ہوتی ہے؟ سب کچھ لٹ جائے، آرام قربان، مال قربان، اولاد قربان، عزت و آن قربان ہو جائے سب کچھ لٹ جائے اور اللہ کے بندے اللہ سے جڑ جائیں اور تباہی، نافرمانی اور جہنم کا راستہ چھوڑ کر جنت میں چلے جائیں۔نبیوں کی راہ چلو گے تو خیر امت کہلائو گے، جو خیر تمہارے پاس ہے اس کو سب کو بانٹو گے، سب کا بھلا چاہو گے تو خیر امت کہلائو گے، نبیوں کی راہ فقیروں کی راہ نہیں ہے، کہ سب کو دینے کی بجائے سب سے لینے، اور طلب کرنے کی راہ چلو نبیوں کی راہ یہ نہیں کہ سب کچھ میرے پاس آجائے، میرا بینک بیلنس، میرا اکائونٹ، میری تجارت، میری پراپرٹی، میرا گھر اور پریوار کا موت سے پہلے کا اسٹیٹس، یہ فقیروں کی راہ ہے، اس پر چل کر کیسے خیر امت کہلا سکتے ہو؟امت مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ وہ نبیوں اور فقیروں کی راہ چل کر نبیوں اور سخیوں کے سرداروں کی عزت کے خواب دیکھتی ہے اور وہ امت جسے ساری انسانیت کو دین رحمت سے وابستہ کرنے کے لیے برپا کیا گیا تھا، دعوت کی اپنی راہ بھول گئی ہے۔اس لیے خیرامت کو اس کا دعوتی مقام دلانے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کی سیرت پاک کا بحیثیت رسول مطالعہ کیا جائے اور آپ ﷺ کی زندگی کے دعویٰ پہلو کو اُجاگر کیا جائے، کاش!اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا شعور عطا فرمائیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں