رنگے ہاتھوں پکڑوں گا
میرے بھائی کی عمر سولہ سال ہے مجھے لڑکوں نے بتایا کہ وہ ’’شیشہ بار‘‘ گیا تھا۔ یہ سن کر بہت برا لگا۔ فوراً ہی والدہ کو بتایا وہ بھی افسوس کرنے لگیں۔ والد دبئی میں ہیں۔ انہیں بتانا باقی ہے۔ سوچتا ہوں پہلے بھائی کو رنگے ہاتھوں پکڑوں گا پھر بات کروںگا۔ یہ بھی خیال آتا ہے دوستوں کے سامنے اس کی بے عزتی ہوگی۔ میری مثالیں دے گا۔ (کاشف، بہاولنگر)
مشورہ:اگر آپ خود کسی عادت کا شکار ہیں تو فوری طور پر اپنی اصلاح کریں تاکہ نصیحت پُر اثر ہو۔ ابھی تو بھائی کے حوالے سے سنی سنائی بات ہے، کبھی دیکھ بھی لیں تو اس وقت کچھ نہ کہیں۔ انجان بن جانا ہی بہتر ہوگا۔ پھر مناسب موقع دیکھ کر تذکرہ کریں کہ لڑکے کتنے بے وقوف ہیں جو شیشہ کی عادت کا شکار ہوکر تمباکو نوشی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ خوشبو کے نام پر زہر پھیپھڑوں میں اتار رہے ہیں۔ پھر دیکھیں اور غور کریں کہ اس کی کیا رائے ہے۔ اس کے ساتھ اس پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہوئے کہیں کہ تم سے ایسی کوئی امید نہیں۔ مجھے یقین ہے تم ایسے لڑکوں کے ساتھ بھی نہیں رہتے ہوگے۔ بچوں اور نوعمر لڑکوں کی غلطیوں پر رنگے ہاتھوں نہیں پکڑنا چاہیے۔ اس طرح وہ نڈر ہو جاتے ہیں اور انہیں غلطیاں دہراتے ندامت نہیں ہوتی۔
چہرہ دیکھ کر بُرا لگتا ہے
آئے دن میرے چہرے پر دانے نکلتے رہتے ہیں ان سے چہرہ بہت بُرا لگتا ہے۔ کسی طرح کی کریم اور پاؤڈر بھی فائدہ نہیں دیتا۔ یہ دانے چھپائے نہیں چھپتے۔ آئینے میں چہرہ دیکھ کر سخت غصہ آتا ہے۔ عمر 21 سال ہے‘ ایم اے کررہا ہوں۔ (اسامہ‘ کراچی)
مشورہ:طبی معائنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باوجود چہرے پر دانے نکلتے رہیں تو انہیں عمر کے اس دور کی ایک نشانی سمجھ کر قبول کیا جاسکتا ہے چند سال میں یہ دانے خود ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ دراصل آپ کی عمر کے نوجوان چہرے کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں چھوٹا سا بھی نشان بڑا اور نمایاں معلوم ہوتا ہے۔ حد سےز یادہ فکر‘ طرح طرح کی ادویات کا استعمال‘ زیادہ تشویش نفسیاتی اعتبار سے بھی نقصان دہ ہے۔ مختصر یہ کہ چہرے پر نکلنےوالے دانے اتنے تباہ کن نہیں ہوتے جتنا کہ ان کا احساس تکلیف اور احساس کمتری کا سبب بنتا ہے۔
ہر جگہ سےناکام لوٹتا ہوں
میں جس جگہ بھی انٹرویو دینے جانتا ہوں‘ ناکام آتا ہوں‘ اعتماد سے بات ہی نہیں کی جاتی۔ یہ بھی نہیں بتاسکتا کہ کیا کیا کام آتے ہیں جبکہ درخواست نہیں پڑھتے‘ نام دیکھ کر بلا لیتے ہیں اور شخصیت دیکھ کر واپس لوٹا دیتے ہیں کیونکہ میرا قد چھوٹا ہے میرے بھائی 6 فٹ کے ہیں اور میں پانچ فٹ چھ انچ کا ہوں سب ہنستے ہیں کہ تمہارا قد تو لڑکیوں والا ہے۔ (اسد‘لاہور)
مشورہ: انٹرویو میں ناکام ہونے کی وجہ بے اعتمادی یا حد سے زیادہ گھبراہٹ ہوسکتی ہے لیکن چھوٹا قد نہیں ہوسکتا۔ آپ کا قد درمیانہ یعنی اوسط ہے یہ اور بات ہے کہ چھ فٹ کے بھائی سے مقابلہ کررہے ہیںاور وہ بھی اگر ساڑھے چھ فٹ کے شخص کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو چھوٹے معلوم ہوں گے۔ اپنے سے چھوٹے قد کے لوگوں کے ساتھ اپنے قد کا موازنہ کریں اور دیکھیں کہ وہ آپ کے مقابلے میں کس قدر کامیاب ہیں۔ اعلیٰ تعلیم، اچھا عہدہ کاروبار میں مہارت یا کرکٹر یا کسی بھی فیلڈ میں کامیاب ہونے کے لیے قد کی شرط نہیں ہوتی۔ رہی گھر کے لوگوں کی بات ان کے ہنسنے کی پرواہ نہ کریں‘ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ گھر والوں سے ناراض ہوجائیں بس ان کی باتوں کو محبت کا انداز سمجھیں۔
بیٹی اب معافی مانگ رہی ہے!
میری بیٹی میرے پرس سے پیسے چرا لیتی تھی‘ میں بہت پریشان تھا‘ ایک دن رنگے ہاتھوں پکڑلیا‘ اب میں اس سے سخت ناراض ہوں‘اب وہ مجھ سے معافیاں مانگ رہی ہے‘ روتی ہے‘ گڑگڑاتی ہے مگر میں معاف نہیں کرپارہا۔ اس نے میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔(شبیر احمد‘ ملتان)
مشورہ: آپ کا ناراض ہونا فطری ہے‘ لیکن اب بیٹی کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا وہ بار بار معافی مانگ رہی ہے‘ اپنے ذہنی اور قلبی سکون کی خاطر ہی اس کو دل سے معاف کردیں۔
دل چاہتا ہے تیز رفتار گاڑی کہیں ٹکرا دوں
میرا مسئلہ گھر اور باہر کے لوگوں سے متعلق ہے۔ چند منٹ کے لیے مرضی کے خلاف بات پر غصہ آتا ہے اور بہت کچھ ہو جاتا ہے۔ کل کی بات ہے میں نے اپنا لیپ ٹاپ اٹھا کر پھینک دیا۔ کتنے ہی موبائل فون توڑ چکا ہوں۔ گھڑیاں توڑی ہیں۔ اب ایسا ہوتا ہے کہ سڑک پر کسی کی غلطی برداشت نہیں ہوتی، دل چاہتا ہے گاڑی ٹکرادوں۔ اب بڑے بھائی نے اپنی گاڑی دینی چھوڑ دی اور مجھے موٹر سائیکل سے سفر کرنا پڑر رہا ہے۔ ایک دفعہ حادثہ ہوتے ہوئے بچا تیز رفتار ٹرک اتنے برابر سے گزرا کہ میں موٹر سائیکل سمیت اس کے نیچے آنے سے بچ گیا۔ ایک دوست ساتھ تھا، اس نے سمجھایا۔ (عمیر ضیاء۔ نامعلوم)
مشورہ:غصہ کرنے والے لوگ مرضی کے خلاف بات ہونے کی شکایت کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ غصہ کو اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش نہیں کرتے اور خود غصہ کے قابو آجاتے ہیں۔ تب وہ توڑ پھوڑ کرکے اپنا بھی نقصان کرنے سے گریز نہیں کرتےاس طرح کا غصہ کئی نفسیاتی امراض کی علامت ہے۔ اس حقیقت کو قبول کریں کہ خلاف مزاج باتیں ہوں گی اور سڑک پر لوگ ٹریفک کے قوانین کی پابندی بھی نہیں کریں گے۔ آپ کو دوسروں کی اور اپنی غلطی سے بچنا ہے۔ غصہ کی وجہ ہونے پر بھی پرسکون ہوکر اپنے مقصد تکمیل کرنا ذہنی صحت ہے۔
سکول نہ جانے کی ضد
میرا بیٹا پانچویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ میں صبح اس کو سکول بھیج کر والدہ کے گھر چلی جاتی تھی اور وہ بچوں میں کھیل کر سکول کے وقت پر گھر آجاتا۔ کتنے ہی دن مجھے معلوم نہ ہوا۔ جب سکول سے فون آیا کہ کیا وجہ ہے بچہ سکول نہیں آرہا تو میں بے حد پریشان ہوئی ڈانٹا، پٹائی بھی کروائی لیکن اس نے نہیں بتایا کہ وہ سکول کیوں نہیں گیا؟ اب اس کے والد اس کو سکول چھوڑ کر آرہے ہیں۔ پڑھنے میں کمزور ہے۔ روز صبح روتا ہے کہ سکول نہ بھیجا جائے۔ (ثوبیہ، کراچی)
مشورہ:یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بچہ پڑھنے میں شروع سے کمزور ہے یا چھٹیاں کرنیکی وجہ سے کلاس میں پیچھے رہ گیا۔ اسے معمول سے زیادہ وقت دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ خود کو کلاس کے بچوں کے برابر لے آئے۔ ٹیچر سے بات کرکے برتائو میں نرمی کی درخواست بہتری کا سبب ہوگی۔ عام طور پر سکول سے بھاگنے والے بچوں کو مجرم سمجھ کر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ چھوٹے بچے سکول نہ جانا چاہئیں تو وجوہات کا اندازہ لگانا ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً والدین دیگر اہل خانہ کا رویہ زیر غور لائیں، اسکے علاوہ سکول میں اساتذہ کا طریق تعلیم، کلاس میں طلباء کا برتائو۔ دوستوں کے بارے میں معلومات اور بچے کا اپنا ذہنی رحجان جاننا ضروری ہے۔ یہ تمام معلومات بچے کے مسائل کو سمجھنے اور تعلیم میں بہتری لانے کیلئے اہم ہوتی ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں