قارئین السلام علیکم!آج میں آپ کے سامنے اپنا ابتدائی سفر نامہ لے کرحاضر ہواہوں‘ میری زندگی کا اب تک کا خطرناک‘ پراسرارسفر اور ہاں جسے میں پرلطف لکھنا نہیں بھولوں گا۔ غالباً 2014ء کی بات ہے۔ شیخ الوظائف کا قافلہ پہلے مانسہرہ گیا اور پھر ایبٹ آباد گیا۔ ایبٹ آباد میں شیخ الوظائف کا درس تھا۔ درس سے فراغت حاصل کرنے کے بعد قافلہ عشاق نے رخت سفر باندھا اور نامعلوم منزل تھی۔ اتنا پتا تھا کہ کسی اللہ والےسے ملنے دور پرے جنگل میں جانا ہے۔ برسات کا موسم تھا ‘ ان دنوں بارشیں عروج پر تھیں‘ روزانہ بارش ہورہی تھی‘ مگر اس دن سورج اپنے پورے جوبن پر تھا۔ شیخ الوظائف نے فرمایا: جیپ لے کر چلتے ہیں لیکن ساتھیوں نے مشورہ یہ دیا کہ چھوٹی مہران وہاں ٹھیک رہے گی۔ شیخ الوظائف نے ساتھیوں کا مشورہ مانا اورتقریباً دن دس بجے کے بعد ہم نکل پڑے۔ پورا دن گاڑی چلتی رہی‘ کوئی منزل نظر نہ آرہی تھی۔ میں اور میرا چھوٹا بھائی بھی ہمراہ تھے جوبار بار پوچھ رہے تھے کہ کدھر جارہے ہیں۔ شیخ الوظائف ہمیشہ فرمائیں بس بیٹا پہنچنے ہی والے ہیں لیکن پہنچ تو نہیں رہے تھے۔ آخر سہ پہر میں ہم کہیںرُکے۔ سب نے باری باری لکڑی سے بنا ہوا بیت الخلاء استعمال کیا جو کہ ایسے لگ رہا تھا کہ ابھی ٹوٹ جائے گا اور ہم کھائی میں گر جائیں گے۔ نماز پڑھی اور پھر قریبی ہوٹل میں کھانا کھایا‘ موسم آہستہ آہستہ بدلنا شروع ہوگیا اور بادلوں نے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لینے کا فیصلہ کرلیا۔ اسی ہوٹل میں ایک اجنبی ہمیں ملا جو کہہ رہا تھا کہ میں آپ کو آپ کی منزل پر لے جائوں گا۔ ساتھیوں نے اسے گاڑی میں بیٹھا لیا۔یوں گاڑی پھر انجان سفر پر روانہ ہوگئی‘ جیسے جیسے آگے بڑھ رہے تھے سڑک چھوٹی اور ناہموار ہونے لگی‘اندھیرا چھانے لگا اور ہم نےنماز مغرب راستے میں ایک طرف ہوکر چادریں بچھاکر پڑھی۔ سردی بڑھنے لگی‘ اندھیرا گہراہونے لگا‘ ہر طرف ہو کا عالم اس میں مزید پراسراریت دریائے نیلم کے پانی کا شور پہاڑوں سے ٹکرا کر ہمارے کانوں میں پڑرہا تھا ۔ ہم آگے چلے تو ایک ٹرک والا راستے سے واپس آرہا تھا اس نے ہمیں کہا میرا ٹرک پھنس گیا ہے آپ لوگوں کی تو گاڑی تو ہے مگر وہاں سے یہ بھی نہیں گزرسکتی۔ شیخ الوظائف نے فرمایا کوئی بات نہیں
آگے بڑھو۔ جب ہم تھوڑا سا اور آگے گئے تو ایک گاڑی والا ملا اور بڑی افسردگی سے کہنے لگا کہ میری گاڑی آگے نہیں جاسکی‘ آگے بہت بڑی آبشار گر رہی ہے جس میں میری گاڑی پھنس گئی تھی وہ آبشار اتنی تیز ہے کہ وہ گاڑی کو ساتھ دریا میں لے کر جانے کی طاقت رکھتی ہے۔ شیخ الوظائف نے ساتھیوں سے فرمایا کہ حفاظت والے اعمال شروع کرو‘ مجھے ابھی بھی اچھی طرح یاد ہے کہ مجھے اس وقت کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ کون سی دعا پڑھوں‘میں بہت زیادہ ڈر رہا تھا‘ میںنے ڈر کی وجہ سے سر نیچے کرلیا اور اللہ کے سارے نام پڑھنا شروع کردیئے۔ ہمارا سکول اسلامک تھا اس میں دعائیں، اعمال، سنتیں وغیرہ یاد کرواتے تھے لیکن ہر چیز دماغ سے غائب ہوگئی‘ اس وقت میری عمر چھوٹی تھی اور ڈر کی وجہ سے والدہ یاد آنے لگیں۔ بس پھر حالت غیر ہوگئی آبشار آخر کار آن پہنچی۔ جب اتنا تیز پانی پہاڑوں سے گرتا دیکھا اور اس کا شور کانوں میں پڑا تومیری تو ٹانگیں کانپنا شروع ہوگئیں۔ ڈرائیور نے سب کو باہر اتر جانے کا کہا۔ جب میں نے آبشار میں پائوں رکھا تو میں پھسل کر پانی کے ساتھ جانے لگا کہ یکدم شیخ الوظائف نے مجھے سنبھال لیا۔ بہت مشکل سے اللہ اللہ کرکے گاڑی نکلی۔ اب رات ہوچکی تھی اور بارش بھی ہونا شروع ہوگئی۔ سڑک پر سناٹا چھا گیا اور مختلف جانوروں اور دریائے نیلم کے پانی کی آوازیں آنے لگی۔
(بقیہ:ابتدائی سفر نامہ! سوچ کر کانپ اٹھتا ہوں)
دل میں خوف مزید بڑھ گیا۔ آگے پہنچے تو گاڑی بار بار سلپ ہوئی۔ راستے میں ایک موٹرسائیکل پر بندہ ملا وہ کہنے لگا کہاں جارہے ہو؟ ’’آگے موت ہے‘‘۔ ہم مزیدڈر گئے لیکن میں نے شیخ الوظائف کے چہرہ پر ایک فیصد بھی ڈر کی علامت نہ دیکھی۔ چلتے چلتے ڈرائیورکی طرف سے آواز آئی کہ آگے ایک اونچی چڑھائی ہے جس پر چڑھنا مشکل لگ رہا ہے۔ سارے ساتھی گاڑی سے نیچے اترے۔ خود شیخ الوظائف بھی۔ بس شیخ الوظائف نے مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو اندر گاڑی میں بیٹھا دیا۔ ہم دونوں نے گاڑی میں رونا شروع کردیا کہ رات ہم شاید اس خوف ناک جنگل کے درمیان گزاریں گے اور شیخ الوظائف اور ساتھیوں نے سخت سردی اور دوران بارش گاڑی کو دھکے لگانے شروع کیے اور گاڑی کو پہاڑ کے اوپر پہنچایا۔ سارے کپڑے کیچڑ سے بھر گئے۔ شیخ الوظائف نے ہمیں تسلی دی۔ تھوڑا سا آگے بڑھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جیپ آرہی ہے۔ ہماری سانس میں سانس آیا کہ کسی کو تو دیکھا۔ میں تو شاید سمجھا تھا کہ ادھر انسانی آبادی ختم ہوگئی ہے۔ بس ایک راہ گزر ہے۔ وہ جیپ میں بیٹھا فرشتہ ہی کہوں گا اترا اور ہمیں بہت تسلی دی اور کہنے لگا کہ کچھ نہیں ہے، اللہ خیر کرے گا۔ ایک ساتھی جو ہماری گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا جس کو ہم استاد کہتے تھے وہ بھاگ کر جیپ میں چلا گیا اور کہنے لگا میں نے اپنے بچوں کو یتیم نہیں کروانا۔ شیخ الوظائف نے ہم دونوں کو اس جیپ میں بھیج دیا۔ اس جیپ نے پچھلی گاڑی کو لے کر ایک مسجد میں پہنچایا رات کے تقریباً بارہ بج چکے تھے ابھی بھی اچھی طرح یاد ہے، ایک پینتیس سے چالیس سال کی عمرکے درمیان ایک بندہ کھڑا تھا جس کی زلفیں تھیں وہ ہمیں لکڑی کی بنی ہوئی مسجد میں لے گیا۔ جب ہم اندر گئے تو مسجد میں کچھ لوگ سو رہے تھے۔ شیخ الوظائف نے اپنا بستر مجھے اور میرے چھوٹے بھائی جان کو دے دیا اور بسکٹ کے پیکٹ ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیئے۔ اب ہم سے ڈر اور سردی کی وجہ سے نہ بولا جائے اور نہ کھایا جائے۔ پوری مسجد میں کوئی بجلی کا انتظام نہیں‘ بس ممبر کے قریب ایک چھوٹی سی ٹارچ چل رہی تھی‘ صبح ہمیں اٹھایا گیا اور سیدھا گاڑی میں لے گئے تو ہم نے پوچھا ابھی بھی ہم نہیں پہنچے۔ تو جواب وہی آیا کہ ’’بس پہنچنے والے ہیں‘‘۔ بعد میں پتا چلا کہ شیخ الوظائف نے اپنا بستر ہمیں دے دیا تھا اور خود ساری رات جاگتے رہے۔ اللہ انہیں اپنی شان کے مطابق جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔ ہمارے لیے اتنی قربانیاں دیں۔ ہمارے چچا جان حکیم خالد چغتائی صاحب بھی ہمراہ تھے اور وہ بھی مسلسل تسلی کے الفاظ بول رہے تھے۔ برفیلی سڑک کو گاڑی کے ذریعہ پار کرکے ہم کئی گھنٹوں کے بعد ایک چھوٹی سی آبادی میں پہنچے۔ سڑک کے کنارے پرگاڑی کو لگایا اور پہاڑ پر چڑھنے لگے۔ چڑھتے چڑھتے ایک لکڑی کی بنی ہوئی مسجد نظر آئی اور بتایا گیا کہ یہی ہماری منزل مقصود ہے۔ اس وقت خوشی کی انتہا نہ رہی۔ کچھ دیر آرام کرکے بازار میں گئے میزبانوں کے لیے پھل لیے، ان کیلئے مرغیاں ذبح کروا کر گوشت تیار کروایا۔ یہ وہ افراد تھے جو اللہ کے دین کو پھیلانے کیلئےپیدل نکلے تھے اور اس وقت ان کا قیام اس لکڑی کی بنی ہوئی مسجد میں تھا۔ ہم دونوں کو بستر پر لٹایا تو ہماری انکھیں لیٹتے ساتھ ہی بند ہوگئیں اور ہم نیند کی پرلطف وادی میں گم ہوگئے۔ دوپہر 3 بجے ہمیں اٹھایا گیا اور ہمیں چمنی کے سامنے بھیڑ کی کھال پر بیٹھا کر چائے اور رس کھلائے گئے اور دوپہر کو بھی بادل اتنے نیچے آئے ہوئے تھے کہ سامنے نظر آرہے تھے اور زیادہ دیر کھلی فضا میں نہ کھڑے ہو پاتے تھے۔ دن رات ہم کچھ سنتے نہ سنتےدریائے نیلم کے پانی کی موجوں کا شور ضرور سنتے تھے۔ ایک واقعہ پیش آیا کہ والدین بچے کو پتھر پر بیٹھا کر تصویر کھینچ رہے تھے کہ اچانک موج آئی اور بچے کو دریا میں لے گئے اور والدین چلاتے رہے۔ اس وقت ایک شعر کا مصرع میرے ذہن میں ہے وہ میں پیش کرتا ہوں ۔
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
بس پانی سے تو کوئی نہیں لڑسکتا اور اصل پانی نہیں ہے یہ اصل رب ہے جو اپنی بنائی ہوئی چیزوں سے دکھاتا ہے کہ میں ہوں۔
’’وَلِلهِ خَزَائِنُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ‘‘(القرآن)
یہی ایک ایسا پراسرار سفرتھا جو کہ لفظوں میں تو مشکل ہی بیان ہوا مگر حقیقت میں خوفناک تھا کہ اللہ کہ علاوہ ہم کسی کو نہیں دیکھ رہے تھے۔ انشاء اللہ آئندہ بار بھی کوئی دلفریب سفرنامہ لے کر حاضر ہوں گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں