پہاڑی سفر درپیش تھا میرے آگے دو آدمی تھے دائیں ہاتھ والے کو نہیں جانتا تھا اس نے میرے دوست عبداللطیف غوری کا دایاں ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ پیچھے میں اکیلا تھا اور میرے پیچھے ہزاروں کی تعداد کا قافلہ سفر کررہا تھا۔ جونہی راستہ میں پہاڑ حائل ہوتا، دائیں ہاتھ والے اسے کہتے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے راستہ دے تو وہ راستہ دے دیتا۔ ندی نالہ آتا تو اسے حکم دیتے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہمیں خشک راستہ دے وہ راستہ دے دیتے پھر میدان سفر شروع ہوا۔ دریائے جہلم راستے میں آیا تو اسے یہی حکم دیا اس نے تعمیل کی۔ پھر دریائے چناب کو حکم دیا اس نے سارے قافلہ کو راستہ دیا اور ہم چنیوٹ پہنچ گئے میری آنکھ کھل گئی اوہ یہ تو خواب تھا۔میں نے اپنا خواب عبداللطیف کو سنایا اور دریافت کیا کہ آپ کے مرشد کون تھے۔ جنہیں میں نے خواب میں دیکھا انہوں نے سسکیاں بھرتے ہوئے فرمایا کہ وہ رہبر، ہادی و مرشد پروفیسر غازی احمدؒ پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج بوچھال کلاں ضلع چکوال تھے۔ میں نے مزید تفصیل جاننا چاہی۔ انہوں ن ایک پوری کتاب ’’میرا قبول اسلام‘‘ پروفیسر غازی احمد (سابق نام کرشن لال) المکتبہ العلمیۃ لیک روڈ لاہور جو کہ 246 صفحات پر مشتمل ہے بھیج دی۔ مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔
خوشاب سے چکوال جاتے ہوئے میانی گائوں جہاں ہندوئوں کی اکثرت آباد تھی ان کے گھر کرشن لال پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم مقامی آبادی میانی اور بوچھال کلاس سے حاصل کی۔ 1935ء میں پرائمری کا امتحان پاس یا مسلمان بچوں کے ساتھ نشست و برخاست رہی چنانچہ لیلۃ القدر کی رات کی تلاش کے لیے مسلمان بچوں کے ساتھ ساری رات جاگتے رہے۔ مولانا عبدالرئوف سے ملاقاتیں ہوئی خواب میں زیارت نبویؐ سے مشرف ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد پھر زیارت نصیب ہوئی اور مولانا عبدالرئوف کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔ گھر میں صف ماتم بچھ گئی مسلمانوں پر عدالت میں کیس چلا کہ ہمارے بچے کو زبردستی مسلمان کیا گیا ہے۔ جے سنگھ کی عدالت میں کیس چلا پھر ایس ڈی ایم چکوال کی عدالت میں کیس چلا 09-04-1938 کو لاہور کے اخبار ’’احسان‘‘ ان کے اسلام لانے کی خبر چھپ گئی کہ بچے نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرلیا ہے ۔جہلم کی عدالت میں مقدمہ درج ہوا ۔ کچھ عرصہ لاہور کشمیر اور راوہ میں رہے کہ والد نے تلاش کرلیا۔ اتنا مارا کہ ٹانگوں اور رانوں کو خون آلود کردیا۔ کھونسوں اور تھپڑوں کی بارش کردی۔ انہیں باندھ کر دریا برد کرنے لگے کہ لوگوں نے چھڑالیا۔ وہاں سے بھوچال کلاں آئے اور پھر والد نے پکڑ لیا۔ ریاست چنبہ میں اندا رسائی کا نیاسلسلہ شروع ہوا۔ وہاں سے ستندار اور باتھری آئے۔ چھپ چھپا کر ڈلیوزی، امرتسر اور پھر کھیوہ میں آئے وہاں سے میانی میں میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ چک منگلا ضلع سرگودھا میں صرف،نحو اور تفسیر کا امتحان پاس کیا۔ پنڈی گھیپ میں علم فقہ، علم اصول علم معنی و بیان ادب منطق اور فلسفہ کی تعلیم حاصل کی پھر دارالعلوم دیوبند میں بطور تدریس کام شروع ہوا۔ تقسیم ہند کے وقت واہگہ سیکٹر آکر والدہ محترمہ سے آخری ملاقات کی۔ نومبر1948ء میں مڈل سکول کے ٹیچر بن گئے 13 دسمبر 1953ء کو شادی ہوگئی پھر ایف اے، بی اے، بی ایڈ اور ایم اے عربی کیا۔ پہلے گورنمنٹ ٹریننگ کالج اہور پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اسلامیات کے لیکچرار بن گئے۔ 1963ء میں بوچھال کلاں کالج میں آرڈر ہوگئے بطور اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ ڈگری کالج چکوال میں خدمات سرانجام دیں پھر بوچھال کلاں ڈگری کالج آئے۔ فریضہ حج ادا کیا۔ ریٹائر ہوئے اور دوسرا حج بیت اللہ کیا۔ریٹائرمنٹ کے بعد بوجھال کلاں ہی خطابت کے فرائض سرانجام دیتے(باقی صفحہ نمبر 52 پر)
(بقیہ:یااللہ یاسلام کا وظیفہ اور اندھیروں سے روشنی کا سفر)
رہے۔ پھر 1958 سے 1962 تک لاہور پونچھ کالونی کی مسجد میں خدمات سرانجام دیںؒ پھر میانی آکر جامع مسجد تعمیر کرائی اور اس میں تبلیغ کا کام کرتے رہے۔ 2010ء میں رحلت فرما گئے اور میانی میں دفن ہوئے۔ بندہ نے اپنے دوست سے ان کی اولاد کے بارے پوچھا انہوں نے ان کے بیٹے پروفیسر طہٰ کا نمبر دیا میں نے ان سے ان کے ابو کے بارے معلومات جاننا چاہیں فرمانے لگے کہ عام معمولات کے علاوہ میرے ابو جان نے اپنی زندگی میں پندرہ کروڑ دفعہ درودپاک پڑھا ہے۔ میں نے ان کا خاص وظیفہ جاننا چاہا تو فرمانے لگے ان کا وظیفہ ’’یا اللہ یا سلام‘‘ اوّل آخر درود پاک کے ساتھ 313 بار روزانہ پڑھنے کا تھا جو مشکلات، مصائب میں گھرے لوگوں کو بتایا کرتے تھے اور اس سے لوگوں کو بہت جلد فیض حاصل ہوتا ہے۔ آنکھوں کی تکلیف کے بندہ نے یہ وظیفہ پڑھا ہے اور آج کل پڑھ رہا ہوں اور مصیبت زدہ مخلوق خدا کو اس کے پڑھنے کی تلقین کررہا ہوں۔(پرنسپل(ر) غلام قادر ہراج، جھنگ)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں