فکر مندی میں
جب میں کسی بات پر فکر مند ہوتاہوں تو بہت ہی غصہ آتا ہے۔ کوئی مجھ سے کچھ بھی کہے، اس وقت میری نظروں سے دور ہو جائو۔ کمرے میں لوگ موجود ہوں تو باہر نکال کر دروازہ بند کردیتا ہوں۔ اب جس کو کمرے سے نکالو، وہ برا مان جاتا ہے‘ یہ نہیں سوچتے کہ اچھا ہوا بات نہیں بڑھی۔ ایک تو میں اپنے غصے پر کنٹرول کرتا ہوں دوسرے لوگوں کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ (ایم کاشف، اوکاڑہ)
مشورہ:غصے کے وقت کسی کو کمرے سے نکالنا یا اپنے سامنے سے دور ہو جانے کا کہنا یہ بھی غصے کا اظہار ہے۔ غصہ کنٹرول کرنے کے لیے ہر طرح کے منفی ردعمل سے بچنے کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً چیخ و پکار نہ کرنا، جسمانی حرکات پر قابو رکھنا، زبان پر قابو رکھنا وغیرہ، دوسروں کو کمرے سے نکالنے کے بجائے خود دوسری جگہ چلے جائیں، پانی پی لیں، کھلی فضا میںکچھ دیر ٹہلیں اور گہرے گہرے سانس لیں۔فوری وضو کرلیں۔درود شریف پڑھنا شروع کردیں۔ ان شاء اللہ رویے میں جلد بہتری آجائے گی۔
اِدھر اُدھر بھٹکنا
میر ایک کزن ہے جس کی عمر 26 سال کے قریب ہوگی۔ اس نے ایم بی اے کیا ہے۔ ہم سب سے پہلے اس کو بڑی کمپنی میں جاب مل گئی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ وہ دوسرے شہر جانے کی تیاری کررہا تھا۔ جاب کرتے ہوئے صرف دو ماہ گزرے تھے کہ وہ عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگا۔ جہاں وہ رہتا تھا وہاں ہمارے ایک اور کزن بھی رہتے تھے انہوں نے بتایا کمپنی میں اس کا بہت بڑا جھگڑا ہوگیا۔ اس نے لوگوں کو مارا پیٹا۔ فرنیچر توڑ دیا۔ ہمیں یقین نہیں آیا کہ وہ تو بہت سلجھا ہوا لڑکا تھا، آخر یہ کیا ہوا؟ بہرحال وہ اس کو واپس لے آئے۔ گھر آکر بھی وہ پہلے جیسا نہ تھا۔ ساری رات جاگنا اور دن بھر اِدھر اُدھر بھٹکنا اس کا معمول ہوگیا۔ (وقاص، جہلم)
مشورہ:بعض نفسیاتی امراض نوجوانی میں حملہ آور ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں رویہ تبدیل ہو جاتا ہے حالانکہ یہ لوگ ذہانت میں کسی سے کم نہیں ہوتے بلکہ ذہنی مرض کا شکار ہونے سے پہلے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ اگر ذہنی کیفیت کے خراب ہونے کی وجہ دوسروں پر ڈال دی جائے گی تو بہتری نہیں آسکتی حقائق کو قبول کرلیا جائے اس طرح اصلاح کے لیے اقدامات ممکن ہیں۔
متوازن رویہ
اس روز میری پریشانی کی انتہا نہ رہی جب مجھے دوسرے بچوں نے بتایا کہ میرا بیٹا سکول نہیں آیا تھا جبکہ وہ گھر سے سکول کے وقت پر نکلا۔ پانچ منٹ گزرے ہوں گے دوسرے بچوں کو آئے ہوئے کہ وہ بھی مجھے آتا نظر آگیا۔ چہرے سے ظاہر تھا کہ وہ سکول نہیں گیا۔ گردوغبار میں الجھے بال، میلی سی یونیفارم اور کمر پر پڑا ہوا بستہ بتا رہا تھا کہ آج اس کو سکول کا ماحول نہیں ملا۔ میں نے بچوں کے سامنے اس کو کچھ نہیں کہا حالانکہ بچے کھڑے انتظار کررہے تھے کہ کب اس کی پٹائی ہو اور ہم دیکھیں۔ خوف کی وجہ سے شوہر کو بھی نہیں بتایا۔ اکیلے میں بچے سے بات کی۔ اس نے وعدہ کیا ہے کہ آئندہ ایسا کبھی نہیں کرے گا۔ اس کو سکول میں ایک ٹیچر کا ڈر تھا۔ میں نے سکول جاکر بھی بات کی۔ بہرحال انہوں نے اطمینان دلایا ۔ اب ڈرتی ہوں کہ دوبارہ ایسا نہ کرے۔ (ی، مری)
مشورہ:آپ نے بہت برداشت کا مظاہرہکیا ہے۔ اب یہ معلوم کریں کہ وہ کیسے دوستوں میں رہتا ہے۔ ذہنی رحجان اور دلچسپیاں کیا ہیں۔ دراصل بچے فطرتاً تجسس پسند، مہم جو اور گھومنے پھرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ اگر ان باتوں کا موقع آسانی سے نہ ملے تو وہ خود ہی نکل پڑتے ہیں۔ اس طرح ایک طرف ان کو سکول کے پابند ماحول سے نجات ملتی ہے تو دوسری طرف گھومنے اور کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ ایسے بچوں کو برا یا گناہ گار سمجھنا غلط ہے بلکہ ان کے نفسیاتی مسائل کو سمجھیں، سکول یا گھر کی طرف سے سیر و سیاحت یا پکنک کا انتظام کیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ حد سے زیادہ لاڈپیار اور غیر ضروری کڑی نگرانی یا پُرتشدد رویے سے بھی گریز ضروری ہے۔ بچے پر مناسب توجہ دی جائے جس کے نتیجے میں وہ یہ سمجھ لے کر سکول سے فرار اخلاقی جرم ہے، دھوکہ ہے اس پر اس کو سزا بھی مل سکتی ہے۔ یہ بھی احساس دلائیں کہ بچہ والدین کیلئے پسندیدہ ہے، اس کو مزید اچھا بننے کی ضرورت ہے اس طرح وہ محبت اور توجہ سمیٹ سکتا ہے۔
حمتوازن رویہ بچے کو کبھی کہیں بھاگنے پر آمادہ نہیں ہونے دے گا۔
گھول کر تلخی
اپنے ہی جیسے ایک لڑکے کو پسند کرتی تھی لیکن گھر والوں نے اپنی مرضی سے بڑے گھرانے میں رشتہ کردیا۔ گھرانہ برا نہیں تھا، میری ہی قسمت خراب تھی۔ شوہر نے کبھی اہمیت نہ دی، اور اب ایک سال سے جاپان میں ہیں۔ کہتے ہیں وہاں شادی کرنا ضروری ہے۔ اس سے بہت فائدے ہوں گے۔ مگر میں ان کے آنے کی امید نہ کروں۔ اب اکیلی بیٹھی سوچتی ہوں کہ گھول کر تلخی وہ میری زندگی میں اپنی زندگی بنا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ بہت فائدے ہوں گے مگر کس کو؟ اولاد میری ہوئی نہیں۔ نئی نئی شادی اور پھر لمبے عرصے کی دوری مجھے کہاں لے جائے گی؟ (اقبال فاطمہ، میرپور)
مشکل حالات کو بدلتے دیر نہیں لگتی، اس لیے کبھی قسمت کو برا نہیں کہنا چاہیے۔ مشکلات بھی تو سبق سکھاتی ہیں۔ اس وقت بھی آپ کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک یہ ہے اپنے حقوق کو فراموش کر کے قسمت پر آہیں بھریں۔ دوسرے یہ کہ پہلے شوہر سے بات کی جائے۔ انہیں احساس دلائیں کہ ان کا فیصلہ آپ کے حق میں ٹھیک نہیں ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ ان کے آنے کی کبھی امید ہی نہ رکھی جائے۔ اگر وہ اتفاق نہیں کرتے تو اپنے والدین اور شوہر کے والدین میں بات کی جائے۔ کوئی نہ کوئی بہتری کی صورت ضرور سامنے آئے گی۔
زیادہ فکر
میری بڑی بہن کو پورا خاندان پسند کرتا ہے۔ اس کے رشتے بھی بہت آرہے ہیں۔ ایک روز میں نے امی کو کہتے سنا کہ مجھے چھوٹی بیٹی کی زیادہ فکر ہے۔ یہ الفاظ میرے کانوں میں کیوں پڑے کیونکہ یہ سننے کے بعد مجھے اپنا آپ اچھا نہیں لگا۔ اس دن سے خود کو گھر میں بوجھ سمجھنے لگی۔ آخر مجھ میں ایسا کیا ہے کہ امی میری فکر زیادہ کریں۔کیا میں اتنی بری ہوں۔ (ش، مظفرآباد)
زیادہ فکر وہی لوگ کرتے ہیں جو محبت کرتے ہیں۔ والدہ نے کسی برائی یا بوجھ سمجھ کر ایسا نہیں کہا ہوگا بلکہ وہ تو بڑی بہن سے زیادہ آپ کا خیال کررہی ہیں حالانکہ آپ چھوٹی ہیں۔ ان کے الفاظ کو مثبت لیں، ان میں آپ کی خیر خواہی اور محبت چھپی ہے۔ اپنے الفاظ، حیالات اور عمل سے والدہ سے اظہار محبت کریں تاکہ اپنی ذات کی ناپسندیدگی سے توجہ ہٹ کر خدمت کے خوشگوار احساس میں بدل جائے۔
ایک ہی بات کو
چچازاد بہن کی شادی میرے بھائی سے ہوئی۔ چچا کا بیٹا مجھے پسند کرتا ہے۔ انہوں نے میرے والد سے کہا کہ ہم نے تمہیں اپنی بیٹی دے دی، تم نے اس کو جیسا بھی رکھا ہم نے کوئی شکایت نہ کی، اب اپنی بیٹی ہمیں دے دو۔ ہمارا بیٹا اس سے ہی شادی کرنا چاہتا ہے۔ میرے والد کو بہت برا لگا اور انہوں نے صاف انکار کردیا۔ اب لڑکا خودکشی پر آمادہ ہے۔ چچا دوبارہ رشتہ لانے پر رضا مند نہیں۔ میں بھی اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ (ا،ج۔مانسہرہ)
آپ کے چچا نے رشتہ بہتر انداز میں نہیں مانگا۔ کسی سے کچھ مانگاجائے تو پہلے احسان نہیں جتایا جاتا۔ بہرحال کچھ ان کے دل پر گزری ہوگی جو ان کا انداز ایسا ہوا۔ مگر اب بیٹے کی پسند کا معاملہ ہے اس بار وہ نہیں آنا چاہتے تو لڑکے کی ماں یا بڑا بھائی یا خاندان کا کوئی قریبی فرد بات کرسکتا ہے۔ ایک ہی بات اگر دوسرے اور مناسب انداز سے کہی جائے تو مان لی جاتی ہے۔ اس معاملے میں آپ کو بہت زیادہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جو لڑکا خودکشی پر آماد ہورہا ہے وہ ذہنی طور پر ٹھیک ہے یا نہیں۔ کیونکہ اپنی بات منوانے کے لیے دلیلیں دی جاتی ہیں، دھمکیاں نہیں۔
اضطراب اور اعصابی تنائو
مجھے دانتوں سے ناخن کاٹنے کی عادت ہے۔ اب کالج میں آگیا ہوں مگر یہ عادت برقرار ہے۔ ناخن اتنے چھوٹے ہوگئے ہیں کہ انگلیاں بدنما لگتی ہیں۔ گھر میں فارغ بیٹھا ہوتا ہوں تو ناخن کترتا رہتا ہوں۔ پہلے تو سب ہی ٹوکتے تھے اب کوئی کچھ نہیں کہتا مگر اب مجھے اپنی یہ عادت اچھی نہیں لگتی۔ خاص طور پر کچھ سوچتے ہوئے بغیر ارادے کے ناخن کترنے لگتا ہوں۔ (عثمان، رحیم یار خان)
عام طور پر یہ عادت بچوں میں ہوتی ہے جو کہ گہرے اضطراب اور اعصابی تنائو کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کے ذہنوں میں والدین، بہن ، بھائی، دوست احباب یا اساتذہ کے خلاف غم و غصے کے دبے ہوئے جذبات پائے جاتے ہیں لہٰذا بڑے ہو کر بھی ایسے لوگ عدم تحفظ یا خطرات کے احساس اور ناخوشی، بے زاری وغیرہ کا اظہار اسی طرح کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اس عادت کو ترک کرنے کے لیے ارادے کی مضبوطی سے مدد لینی ہوگی۔ ہاتھوں کو لکھنے میں مصروف رکھیں۔ کمپیوٹر کا استعمال کریں۔ اسائنٹمنٹ وغیرہ ٹائپ کر کے تیار کریں تاکہ دونوں ہاتھ مصروف رہیں اور دانتوں کی طرف نہ بڑھیں۔ جس قدر ارادہ مضبوط ہوگا اتنی ہی جلد یہ عادت ختم ہو جائے گی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں