بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مشکل صورت حال یا کوئی ناخوشگوار واقعہ انہیں پریشان‘ مضطرب اور بدحواس کردیتا ہے یا کوئی جسمانی تکلیف بھی پریشانی کا باعث بن جاتی ہے لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ہمارے خیالات ہی درحقیقت ہر مصیبت کی جڑ ہیں۔ ہمارے والدین‘ بہن بھائی‘ شوہر‘ بیوی یا روزمرہ پیش آنے والے واقعات ہمیں اتنا پریشان نہیں کرتے ہیں جتنا ہمارے خیالات ہمیں درہم برہم کردیتے ہیں۔ مثال کے طور پر شدید برف باری کے موسم میں آپ اپنی کار پرکہیں جارہے ہیں کہ دفعتاً کار کا ایک ٹائر پنکچر ہوجاتا ہے دراصل ٹائر کے پنکچر نے آپ کو پریشان نہیں کیا پریشانی تو آپ کو اس خیال سےہوئی کہ سخت سردی میں کار سے اتر کر آپ کو ٹائر تبدیل کرنا پڑے گا۔ ہمارے خیالات ہمیں بھڑکاتے ہیں اور ہمیں ٹھنڈا رکھتے ہیں۔ میں اسے جذبات کی ابجد کا نام دوں گا جس کی وضاحت میں اس طرح کروں گا کہ ہم دو قسم کی تکالیف محسوس کرتے ہیں۔ ایک جسمانی اور دوسری جذباتی یا روحانی۔ اگرچاقو سےآپ کو زخم لگ جائے تو چاقو کو میں الف کا نام دوں گا اور سینے کے زخم کوج، آپ یقیناً میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ الف جو ہے وہ ج (زخم) کا باعث بنا یعنی چاقو زخم کا باعث بنا‘ یا اگر کسی کار کی ٹکر سے آپ کی ٹانگ ٹوٹ جاتی ہے تو کار الف اور ٹوٹی ہوئی ٹانگ ج کہلائے گی۔ دوسری لفظوں میں الف، ج کا باعث بنا، یہ جسمانی تکلیف کا نظریہ ہے۔ آپ کے جسم کے کسی حصے پر جو کچھ ہوا ہے آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے اور جو کچھ بھی ہوا وہ کسی دوسرے کےذریعے ہوا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم تکلیف محسوس کرتے ہیں لیکن نہ کوئی زخم دکھائی دیتا ہے نہ جلد پر کوئی خراش لگی ہے اور نہ کوئی ہڈی ٹوٹی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تکلیف کہاں سے آئی؟ یہ تکلیف دراصل ب کی وجہ سے محسوس ہورہی ہے جو آپ کے خیالات ہیں۔ جو تکلیف کا احساس دلارہے ہیں۔ اس موقع پر کسی نے آپ کوکوئی تکلیف نہیں پہنچائی۔ تکلیف تو آپ کے خیالات آپ کو پہنچارہے ہیں۔ فرض کیجئے کوئی شخص آپ کو گالی دیتا ہے۔ گالی دینے والا الف کہلائے گا۔ گالی سننے کے بعد آپ اپنے آپ سے کچھ اس طرح ہم کلام ہوتے ہیں
’’کیا یہ زیادتی نہیں ہے وہ مجھے پسند نہیں کرتا‘ میں یہ سب کچھ برداشت نہیں کرسکتا آپ کی یہ سوچ دراصل ب ہے۔ جو آپ کو تکلیف پہنچارہی ہے۔ اس کے بعد ج کی باری آتی ہے یعنی ہمارے جسم کا کوئی حصہ مثلاً سر میں درد ہونے لگتا ہے۔ یہ سارا عمل ب کا ہے۔ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہمارے خلاف کہے ہوئے ناخوشگوار الفاظ نے ہمیں پریشان کردیا ہے جب کہ درحقیقت یہ ان الفاظ کے بارے میں ہمارے خیالات تھے جو تکلیف کا باعث بنے۔ الف ہمیں کسی قسم کی جذباتی یا روحانی تکلیف پہنچانے کا باعث نہیں بنتا۔ اس تکلیف کا باعث ہے یعنی ہمارے خیالات۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں