دھماکے کی آواز اتنی زیادہ تھی کہ کئی بچوں کی چیخیں نکل گئیں۔ ڈرائیور نے جلدی سے سکول بس کو بریک لگا کر سڑک کی بائیں جانب روکا تو پتہ چلا کہ بس کے پچھلے ٹائروں میں سے ایک ٹائر پھٹ گیا ہے جس سے دھماکے کی آواز پیدا ہوئی ہے۔ بس کی چھت پر اضافی ٹائر تبدیل کرلیا تو سکول بس دوبارہ سڑک پر رواں دواں ہوگئی۔ احمد سکول سے آدھا گھنٹہ تاخیر سے گھر پہنچا تو اس کے باقی بہن بھائی کھانے کی میز پر اس کا انتظار کررہے تھے۔ طارق نے کھانے کی میز پر احمد کو بلایا۔ احمد نے جلدی سے یونیفارم تبدیل کی۔ منہ ہاتھ دھورہا تھا کہ نماز ظہر کی اذان سنائی دینے لگی اذان سنتے ہی احمد وضو کرنے لگا تاکہ کھانے سے پہلے مسجد میں جاکر نماز ظہر ادا کرے۔وضو کے بعد احمد کھانے کی میز کی طرف بڑھنے کی بجائے مسجد جانے کے لیے گھر کے گیٹ کی جانب جانے لگا تو امی نے کہا ’’تمہارے بھائی بہن کب سے کھانے کی میز پر تمہارا انتظار کررہے ہیں۔ کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے اس لیے کھانے کے بعد مسجد چلے جانا‘‘ احمد یہ بات سن کر پریشان ہوگیا ایک طر ف نماز کا وقت ہورہا تھا دوسری جانب کھانا ٹھنڈا ہورہا تھا ایسے میں ایسے یاد آیا کہ ایک روز خطبہ جمعہ میں امام مسجد نے پیارے نبیﷺ کی ایک حدیث سنائی تھی۔ کہ جب کھانا سامنے آجائے تو نماز بعد میں پڑھی جاسکتی ہے۔ یہ سوچ کر احمد اپنے دوسرے بھائی بہنوں کے ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھ گیا اس نے اطمینان سے کھانا کھایا اس کے بعد بڑے بھائی طارق کے ساتھ مسجد پہنچا تو نماز باجماعت ہوچکی تھی۔ چند لوگ فرض نماز کے بعد سنتیں اور نوافل ادا کررہے تھے کچھ لوگ ایک دائرے میں بیٹھے ہوئے تھے ایک صاحب کھڑے ہوکر ان کو کچھ بتا اور سمجھا رہے تھے۔’’بھائی جان! دائرے میں بیٹھے ہوئے لوگ سنتیں اور نوافل کیوں نہیں ادا کررہے، مسجد تو صرف نماز پڑھنے کے لیے ہوتی ہے۔ یہ لوگ کیا کررہے ہیں۔ احمد نے پوچھا، احمد میاں! تمہارے سوال کے جواب میں ایک واقعہ پیارے نبیﷺ کا سناتا ہوں۔ایک مرتبہ رحمت دوجہاںﷺ مسجد نبوی میں تشریف لائے تو آپﷺ نے دیکھا کہ کچھ لوگ نوافل ادا کررہے ہیں اور کچھ لوگ دینی علم سیکھنے اور سکھانے کے لیے جمع ہیں۔ نبی کریمﷺ نے دیکھ کر فرمایا: نوافل ادا کرنے والے بھی اچھے ہیں لیکن وہ لوگ جو علم سیکھ اور سکھلا رہے ہیں( اللہ کی باتیں سکھلا رہے ہیں) ان کا درجہ نوافل ادا کرنے والوں سے کئی گناہ زیادہ ہے‘‘۔
علم حاصل کرنے کی اتنی زیادہ اہمیت میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا احمد نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔احمد میاں! علم کی اتنی زیادہ فضیلت اور اہمیت ہے کہ تم اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ قرآن مجید کی بہت ساری سورتوں میں اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔جیسا کہ سورئہ المجادلہ میں ارشاد ربانی ہے ’’تم میں جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا‘‘۔بھائی جان نے قرآنی آیت
کی روشنی میں علم کے متعلق فرمایا۔ کیا علم کے متعلق پیارے نبیﷺ اور اصحاب رسولﷺ کے بھی ارشادات موجود ہیں۔ احمد نے پوچھا بھائی جان نے بتانا شروع کیا۔حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ پیارے نبیﷺ نے فرمایا ’’جو شخص علم کی طلب میں کسی راہ پر چلا۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردے گا‘‘۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ’’علم پیغمبروں کی میراث ہے جبکہ مال و دولت کافروں کی میراث ہے‘‘۔ حضرت علی مرتضیٰؓ رضی اللہ عنہٗ کا فرمان ہے’’علم مال و دولت سے بہتر ہے کیونکہ مال کی تمہیں حفاظت کرنی پڑتی ہے جبکہ علم تمہاری حفاظت کرتا ہے‘‘ علم جتنا حاصل کرتے چلے جائو گے بڑھتا چلا جائے گا۔ علم کی اس قدر فضیلت اور اہمیت ہے میرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔ اب میں دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ اتنا زیادہ دینی علم حاصل کروگا کہ اللہ اور حضرت محمدﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں باعمل انسان بن جائو اور اس روشنی کو آگے پھیلائوں گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ احمد نے پرعزم لہجے میں کیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں