آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک خود ساز‘ اور دوسرے تاریخ ساز‘ خودساز آدمی کی توجہات کامرکز اس کی اپنی ذات ہوتی ہے اور تاریخ ساز آدمی کی توجہات کا مرکز وسیع تر انسانیت۔
خود ساز آدمی کی سوچ اس کی ذاتی مصلحتوں کے گرد بنتی ہے۔ اس کے جذبات وہاں بھڑکتے ہیں جہاں اس کے ذاتی فائدہ کا کوئی معاملہ ہو اور جس معاملہ کا تعلق اس کے ذاتی فائدے سے نہ ہو وہاں اس کے جذبات میں کوئی گرمی پیدا نہیں ہوتی۔ خود ساز آدمی اپنے ذاتی نفع کے لیے ہر دوسری چیز کو قربان کرسکتا ہے خواہ وہ کوئی اصول ہو یا کوئی قول و قرار۔ خواہ وہ کوئی اخلاقی تقاضا ہو یا کوئی انسانی تقاضا۔ وہ اپنی ذات کے لیے ہر دوسری چیز کو بھلا سکتا ہے۔ وہ اپنی خواہشات کے لیے ہر دوسرے تقاضے کو نظرانداز کرسکتا ہے۔تاریخ ساز انسان کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ وہ اپنی ذات کے خول سے نکل آتا ہے۔ وہ برترمقصد کیلئے جیتا ہے وہ اصولوں کو اہمیت دیتا ہے نہ کہ مفادات کو۔ وہ مقصد کیلئے تڑپنے والا انسان ہوتا ہے نہ کہ مفاد کیلئے تڑپنے والا انسان۔ وہ اپنے آپ میں رہتے ہوئے اپنے آپ سے جدا ہوجاتا ہے۔تاریخ ساز انسان بننے کی واحد شرط خود سازی کو چھوڑنا ہے۔ آدمی جب اپنے آپ کو فنا کرتا ہے اسی وقت وہ اس قابل بنتا ہے کہ وہ تاریخ ساز انسانوں کی فہرست میں شامل ہوسکے۔ اس کے دل کو جھٹکے لگیں پھر بھی وہ اس کو سہہ لے اس کے مفاد کا گھروندا ٹوٹ رہا ہو پھر بھی وہ اس کو ٹوٹنے دے۔ اس کی بڑائی اس کی آنکھوں کے سامنے مٹائی جائے پھر بھی وہ اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہ کرے۔تاریخ سازی کے لیے وہ افراد درکار ہیں جو خود سازی کی خواہشات کو اپنے ہاتھ سےذبح کرنے پر راضی ہوجائیں جو صرف اپنے فرائض کو یاد رکھیں اور اپنے حقوق سے دستبرداری پر خود اپنے ہاتھ سے دستخط کردیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں