نسلوں سے برکت چھن گئی عبرتناک انجام
ملازمین کی خیانت اور بددیانتی کھاگئی
ہمارے ایک رشتہ دار بہت بڑے سیٹھ ہیں‘ انہوں نے تقریباً تین سے ساڑھے تین سو جانور رکھے‘ بہت بڑا فارم ہاؤس بنایا‘ ماہرین بٹھائے لیکن وہ صرف دو سال سے زیادہ عرصہ نہ چل سکا‘ ملازمین کی خیانت‘ بددیانتی انہیں کھاگئی اور آخرکار وہ ناکام ہوگئے اور حیرت انگیز بات یہ ہےجب بھی کوئی جانور رکھنے والا ناکام ہوا ہے اور جب اس نے جانور بیچنے کا فیصلہ کیا ہے براہ راست یا کسی اور کو سامنے کرکے خریدار ہمیشہ وہی ملازم ہوتے تھے جن کو خدمت پر رکھا جاتا تھا لیکن جو بات سب سے حیرت انگیز ہے وہ ملازم بھی نہ تروتازہ ہوئے‘ نہ کامیاب ہوئے نہ ان کو برکات ملیں بلکہ ان کے گھروں میں بیماریاں ‘تکالیف‘ مشکلات‘ مسائل‘ جھگڑے حتیٰ کہ قتل و غارت اور خون ریزی تھی۔ صرف اس بدنیتی کی وجہ سے جو انہوں نے اپنے مالک کے ساتھ کی تھی۔
سارے مضمون کا نچوڑ
ہمارے ایک اور رشتہ دار ہمارے باغ کے ساتھ ان کا باغ ہے‘ انہوں نے قربانی کے دنبے پالے‘ خود محنت کی‘ شہر میں رہتے تھے‘ صبح جاتے تھے شام کو پوری محنت کرکے آتے تھے‘ انہیں کسی سیانے نے ایک بات کہی کہ آپ ناکام ہوجائیں گے جب تک دن رات خود اوپر نہ رہیں گے‘ ہاں دن رات خود اوپر رہیں‘ یہ بڑی خاص بات ہے اس سارے مضمون کا نچوڑ ہے‘ دن رات خود اوپر رہیں تو کامیاب ہوجائیں گے اگر دن رات خود اوپر نہ رہیں تو ناکام ہوجائیں گے لیکن انہیں اس بات کی سمجھ نہ آئی‘ وہ دن کا کچھ حصہ جاتے تھے‘ پوری نگرانی‘ پوری توجہ پورا دھیان کرتے تھے لیکن آخرکار وہ ناکام ہوگئے کیوں؟ ان کے ملازمین کی بدنیتی خیانت انہیں کھاگئی اور آخرکار انہیں اپنے جانور اور سب کچھ بیچنا پڑا اور ساری چیزیں بیچ کر آج وہ لوگوں کو نصیحتیں کرتے ہیں کہ کبھی بھی جانور نہ رکھنا اگر رکھنا بھی تو ایک لفظ کہتے ہیں کہ ’’خود جانور ہوجانا‘‘ یعنی ان کے ساتھ خود اپنا وقت دینا اگر خود وقت نہ دے سکے تو ناکام ہوجاؤگے اور میری طرح ناکامی کا عبرتناک نشان بن جاؤ گے کیونکہ تمہیں کوئی بھی ملازم‘ کوئی لاکھوں میں ایک ملازم ہوگا جو کہ دیانت دار ہوگا‘ ورنہ تو وہ خیانت کرنا پیشے کا حصہ سمجھتے ہیں نہ کہ اس کو خیانت سمجھتے ہیں۔
دیہا ت میں چوری‘ زنا اور جھوٹ یہ گناہ نہیں سمجھا جاتا
میرے والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک بات فرمایا کرتے تھے ’’دیہات میں چوری‘ زنا اور جھوٹ یہ گناہ نہیں سمجھا جاتا‘‘ ان کا ساری زندگی کا تجربہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے موجود ہیں‘ پانچوں انگلیاں برابر نہیں لیکن ہمیشہ جو بات کی جاتی ہے اکثریت کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے‘ میرے بڑے بھائی صاحب نے خود جانور رکھے اور ان کی نگہداشت کی‘ باقاعدہ چارہ کاٹنے کی مشین لگائی‘ لکڑی کی ان کی بہترین قسم کی کھرلیاں اور کھانے کا نظام بنایا‘ ساتھ ایک پڑوسی نے اپنا بیٹا یہ کہہ کر ملازم رکھا کہ یہ آپ کی خدمت کرتا رہے گا اور دن رات میں بھی اس کے ساتھ رہوں گا‘ وہ جتنا بھی چارہ تھا اپنے جانوروں کو کھلاتے تھے اور بھائی صاحب کے جانوروں کو چارہ نہیں کھلاتے تھے‘ آخرکار جانور کمزور ہوئے بیمار ہوئے اور بہت زیادہ مرنے لگے تو انہوں نے سارا نظام آخرکار مجبوراً ختم کیا‘ جب وہ چیزیں بیچنے لگے توخریداروں میں آخرکار وہ خود سامنے آئے کہ ہم خریدار ہیں لیکن انوکھی بات ہے انہیں تو میں خود ہی جانتا ہوں‘ ان کی نسلوں میں آبیاری نہیں ہوئی‘ اموات بہت زیادہ‘ بیماریاں‘ تکالیف بہت زیادہ ہیں کیونکہ دھوکہ‘ چوری اور جھوٹ کو گناہ نہیں سمجھتے‘ اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں۔
جانور نہ رکھ‘ تیرے بس کاکام نہیں!
ایک پولیس کا اے ایس آئی تھا‘ جب ریٹائر ہوا تو اسے کسی نے مشورہ دیا کہ تم جانور رکھ لو‘ اس نے جانور رکھے ‘لوگوں نے اسے بہت سمجھایا کہ تو جانور نہ رکھ‘ تیرے بس کا کام نہیں‘ اس نے کہا ساری عمرنگرانی کی ہے‘ تفتیش کی ہے‘ ایک ایک چیز کا کھوج لگایا ہے‘ میں دھوکے بازوں کے دھوکے سمجھتا ہوں‘ یہ میرا کچھ نہیں کرسکتے‘ جانور رکھے‘ اس کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ ظاہر ہے وہ جانوروں کے ساتھ ہروقت نہیں رہ سکتا تھا‘ جانوروں کی بدبو‘ پیشاب‘ گوبر‘ ملازم کے اوپر چھوڑا‘ خود نگرانی کرتا رہا‘ ایک ایک چیز کو پرکھتا رہا‘ ملازمین نے گھاس بھی چوری کی اور بیچی اور جو کَھل ہوتی ہے اس کو بھی چوری کیا‘ تھوڑا تھوڑا کَھل کو بھگو کر جانوروں کے منہ کو لگا دی جاتی تاکہ مالک آئے توجانور اپنی زبان سے وہ کَھل کو چاٹتے نظر آئیں‘ پھر وہ ناکام ہوا اور بری طرح ناکام ہوا پھر اس نے پنجابی میں ایک لفظ کہا کہ ’’نہ رکھیں اوہنوں بیلی‘ جیندی ہوئی ایک لیلی‘‘ یعنی اس کو دوست نہ رکھنا جس کا بکری کا ایک بچہ بھی ہو‘ کیوں؟ وہ گھاس تمہارے جانور کو نہیں کھلائے گا وہ اپنے بکری کے بچے کو ہی گھاس کھلائے گا۔
دکھ سکھ میں ساتھ دیا مگر ملازم نے دھوکے میں رکھا
ایک دفعہ میں گھر آیا تو میرے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ پریشان تھے‘ میں نے پوچھا اباجی کیا بات ہے؟ فرمانے لگے: ( ہمارا بہت بڑا باغ ہے چونسا‘ انور رٹول بہترین قسم کا ہے اور آم کا مزاج ہے کہ کھڑے کھڑے مرجاتے ہیں یا آندھیوں کی وجہ سے گرجاتے ہیں تو اس کی جگہ اور پودا لگایا جاتا ہے اور اس کی نگہداشت کی جاتی ہے) میں پودا لگاتا تھا اور پودا سوکھ جاتا تھا حالانکہ اس کی نگرانی ہوتی تھی‘ ملازم اس کو پانی بھی دیتا تھا اور نگہداشت بھی کرتا تھا لیکن پودا سوکھ جاتا تھا‘ آخر مجھے حیرت ہوئی اور میں پریشان ہوا کہ یہ پودا کیوں سوکھتا ہے؟ میں نے اس کے لیے ایک نگران باقاعدہ جاسوسی کیلئے رکھا‘ تو پتہ چلا کہ رات کو وہی ملازم جس کو بہترین تنخواہ‘ اعلیٰ کھانے‘ ان کی خوشی‘ غمی میں بہت زیادہ شریک اور ان کے حالات کیلئے پیسے رقم‘ مال دیئے‘ وہ اٹھ کر پودے کو رات کو جڑ سے کھینچ کر ہلا دیتا تھا اور صبح اس کو پانی بھی دیتا تھا‘ کچھ دنوں کے بعد پودا سوکھ جاتا تھا پھر والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ کو کہتا کہ میں تو آپ کے سامنے اس کی پوری نگہداشت کرتا ہوں‘ پانی بھی دیتا ہوں‘ لگتا ہے ان کو کوئی بیماری لگی ہوئی ہے‘ ان کی سوچ یہ ہوتی کہ اگر یہ پودا بڑا ہوگیا تو ان کا باغ زیادہ ہوجائے گا اور پھر یہ مزید مالدار ہوجائیں گے‘ سو قسم کی بدنیتی کی باتیں ان کے پاس تھیں‘ والدصاحب پریشان بیٹھے تھے‘ ساری عمر میں نے ان لوگوں کی خدمت کی اور جاسوسی کے بعد مجھے اب پتہ چلا کہ انہوں نے میرے ساتھ یہ حرکت کی ہے۔(جاری ہے)
میری کہانی بھی پڑھتے جائیے!
میں آپ کو اپنی کہانی سناتا ہوں‘میرے جی میں آیا کہ میں بکریاں رکھوں‘ بکریوں میں برکت اور سنت ہے‘ میں نے اس کو سوچا اور بکریاں رکھیں‘ ’’درود محل‘‘ میں بکریاں رکھیں‘ ان کا بہترین گھاس‘ بہترین پانی‘ اس کیلئے ایک بندہ‘ اس کا بہترین معاوضہ(باقی صفحہ نمبر 55 پر)
لیکن بس اتنے الفاظ کہوں گا آٹھ بکریاں چھری کے نیچے آئیں اور انہوں نے خود کھائیں اور ایک بکری حرام ہوگئی وہ ذبح نہ ہوسکی اور آخرکار وہ نظام مجھے ختم کرنا پڑا‘ پھر دو بکریاں میں نے اپنی چھت پر رکھیں‘ اس کیلئے پورا خدمت گار رکھا‘ خدمت گار نے جس کو میں بہترین معاوضہ دیتا تھا اور تنخواہ لاجواب تھی‘ ایک بکری سردی سے مرگئی اور دوسری آخرکار ذبح کرنا پڑی‘ ایک سمجھ دار اور سیانے کا قول ہے کہ جانور کے ساتھ جانور ہونا پڑتا ہے پھر جانور آپ کا ساتھی ہوتا ہے‘ آپ جانورکو کسی اور کے حوالے کردیں کبھی جانور آپ کا نہیں ہوگا۔
ہمارے ایک دوست ہیں ملک عابد‘ ایک دفعہ میرے بڑے بھائی صاحب کہنے لگے کہ میں ان کے ہاں گیا‘ ان کا جانوروں کا باڑہ ہے‘ جانور پالتے ہیں پھر عید قربانی کے لیے ان کو بیچتے ہیں‘ دودھ بیچتے ہیں‘ جانور پال کر بیچتے ہیں‘ انہوں نے بنولے کی کَھل خود بھگوئی اور خود کھلائی اور کہنے لگے کہ میں بنولے کی کَھل بھگو کر جاتا تھا ملازم میرے جانوروں کو نہیں کھلاتے تھے‘ بھگوئی ہوئی آگے بیچ دیتے یا اپنے جانوروں کو کھلا دیتے تھے حالانکہ میں انہیں ہر قسم کی ان کی خدمت اور ان کا دھیان کرتا ہوں‘ ہمارے ایک دوست بھٹی صاحب ہیں‘ انہوں نے مرغی کا فارم بنایا‘ مرغی کے فارم میں ایک بیماری آئی تو اس بیماری میں انہوں نے ماہرین نے کہا کہ مرغیوں کو دہی کھلائیں‘ انہوں نے دہی بھیجی‘ پتہ چلا کہ دہی ملازمین نے آپس میں بانٹ لی ہے اور وہ دہی انہوں نے مرغیوں کو نہیں کھلائی اور وہ دہی وہ خود کھاگئے‘ پھر اس پر وہاں ایک پرانے آدمی نے ایک بات کہی تھی ’’دھار تاں آپ چار نہ تاں جھک نہ مار‘‘ یعنی اگر دھار خرید آپ خود اس کو چار یعنی اس کو اس جانور کو اپنی نگرانی میں خود رکھ ورنہ جھک نہ مار‘ اگر تو نے کسی اور کے حوالے کردیا جیسے تو نے جھک مارا۔ میری دو بہنیں ہیں‘ میرے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے نام کی چار چار بکریاں لیں اور دو آدمیوں کو بکریاں دیں کہ ان کو پالیں‘ آدھی آپ کی اور آدھی میری۔ اس صاحبان نے بکریاں پالیں‘ کچھ سالوں کے بعد ایک دو بکریاں دے گیا‘ باقی بکریوں کا معاملہ ختم کرگیا۔ ان میں سے دوسرے صاحب تھے جن کو بکریاں دی تھیں‘ ان کے والد فوت ہوئے انہوں نےساری بکریاں بیچ دیں اور آج سے تیس سال پہلے دس ہزار روپے کی بکریاں بیچیں اور میرے والد رحمۃ اللہ علیہ کو آکر کہا کہ آپ کا حصہ دس ہزار اتنے سو غالباً دس ہزار تین سو اور یہ رقم میں آپ کو دے دوں گا اور آج تک نہیں دی۔
بددیانتی کا عجب نظام ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ پھر نسلوں میں برکات اور نسلوں سے خیریں چلی جاتی ہیں‘ کئی لوگوں نے باڑے اور فارم ہاؤس بنائے جانور چوری ہوئے‘ بعد میں پتہ چلا کہ جانور چوری کروانے میں ملازم کا ہاتھ تھا‘ اس نے مخبری کی تھی حالانکہ وہی ملازم تھا جو مالک کا نہایت وفادار تھا اور اس نے وہ ساری مخبری کرکے خود چوری کروائی۔
ہمارے ایک شاہ صاحب تھے‘ انہوں نے ایک جانوروں کا باڑہ بنوایا‘ خود مرگیا بچوں نے اپنے ایک والد کا قریبی دوست اس کی نگرانی پر رکھا‘ وہ شہر میں دودھ لاتا تھا اس نے ایک جگہ اسی ڈرم میں سے دودھ دینے کا نظام بنایا تھا کہ وہ دودھ بیچ کر پیسے کھا جاتا تھا انہیں پتہ چلا‘اس کو رنگے ہاتھوں پکڑا‘ اس نے خود بتایا کہ وہ دودھ بیچ کر پانی ملا دیتا تھا۔
یہ ساری چیزیں آخر کیوں ہیں؟ ہمارے ایک جاننے والے پٹواری صاحب ہیں انہوں نے جانوروں کا ایک باڑہ بنوایا‘ بوڑھے والد کو نگرانی کیلئے بٹھایا‘ والد صاحب فوت ہوگئے‘ والد کے فوت ہوتے ہی انہوں نے وہ باڑہ فوراً ختم کردیا‘ کسی نے پوچھا کیوں ختم کیا؟ کہا اگر میں نے اب باڑہ ختم نہ کیا تو ملازم مجھے ختم کردیں گے شاید وہ سمجھ دار آدمی تھا۔
آج میں آپ کو ایک تجربہ بتاتا ہوں جو کہ میری زندگی کا نچوڑ ہے‘ میں نے زندگی میں جس کو بھی غریب دیکھا ہے اس کے ہپیچھے تین دلیلیں ہیں نمبرایک: ہڈحرام یا سست‘ دوسرا: بدنیت (بدنیتی کی ساری مثالیں دی ہیں‘ چور دھوکے باز) تیسرا: مغرور متکبر۔ حدیث میں آتا ہے اللہ کے حبیبﷺ کا فرمان ہے کہ غریب متکبر پر اللہ کی لعنت ہے۔ غریب ہو اور متکبر بھی ہو۔ یہ تین چیزیں ہیں‘ متکبر غریب‘ سست ہڈ حرام اور بدنیت۔
اگر کوئی دیکھے کہ غریب بھی ہے اور اس میں یہ تین چیزیں نہیں ہیں وہ بہت کم لوگ ملیں گے تو سمجھ لیں کہ وہ جنتی ہے اللہ اسے تھوڑی دنیا دے کر بہت بڑی آخرت دینا چاہتا ہے۔
قارئین! زندگی کا یہ سبق ہماری نسلوں کے کام آئے گا کہ کام کی نگرانی اتنی اہم تو تھی کہ حضرت سلیمان علیہ الصلوٰۃ والسلام خود وصال کے بعد نگرانی کے اوپر رہے‘ اللہ پاک سے مہلت مانگی کہ وقت آگیا ہے لیکن میرے جسم کو کھڑا رکھنا ہے اور جنات یہ بیت المقدس کی تعمیر کے دوران یہ سمجھتے رہے کہ شاید اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام زندہ ہیں۔
نگرانی ایمان والے کی کبھی نہیں کی جاتی‘ وہ دیکھتا ہے‘ دائیں بائیں کوئی نہیں دیکھ رہا‘ خیانت کا موقع ہے تو فوراً کہتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے‘ فوراً کہتا ہے کہ اللہ کا نظٓام میرے سامنے ہے‘ اگر ہم اپنی نسلوں کو خیانت سے بچالیں‘ خود بچ جائیں تو نسلوں میں عزت‘ تونگری‘ دولت‘ صحت‘ خوشحالیاں‘ مسائل مشکلات کا حل‘ پریشانیوں کاحل‘ ہمیں اپنی آنکھوں سے نظر ٓآئیں گی اگر خیانت سے بچ جائیں اور دیانت کی زندگی پر آجائیں آج بے برکتی کی جو عبرت ناک مثالیں ہیں اس کی بنیادی وجہ خیانت ہے‘ یہ خیانت کی مختلف شکلیں ہیں‘ یہ خیانت کی مختلف صورتیں ہیں جومیں نے آپ کے سامنے بیان کی ہیں‘ آئیں! خود بھی اور اپنی نسلوں کو بھی خیانت سے بچائیں ورنہ نسلیں فقر‘ فاقہ‘ غربت‘ تنگدستی بدحالی اور پریشانی میں ایسی مبتلا ہوں گی کہ انسان گمان اور خیال نہیں کرسکتا کہ اس کو کتنا زیادہ نقصان ہوگا اور پھر کتنے زیادہ مسائل‘ مشکلات اور پریشانیاں اس کی غربت اور تنگدستی بڑھ جائے گی‘ مسائل‘ مشکلات بڑھ جائیں گے‘ اس وقت جب ہم دیانت داری کو چھوڑ بیٹھیں گے اور خیانت کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں گے آئیں دیانت پر آجائیں اور خیانت سے نکل جائیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں