یہ دور حاضر کے تین خاص امراض ہیں۔ان سے بچائو اور نجات کا طریقہ بہت آسان ہے۔ بس اپنے ایک پائوں کے آگے دوسرا پائوں رکھیے اور یوں ہی چلتے رہیے۔ کہنے کو یہ بہت سادہ سا عمل ہے، لیکن یہ وقت اور تجربے کی کسوٹی پر پرکھا ہوا ایک یقینی شفا بخش عمل ہے۔ دوائیں بھی اس کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔ دوائوں کا غلام بننے سے بہتر ہے کہ ’’پیر پیدل شاہ‘‘ کی غلامی قبول کرلی جائے اور روزانہ باقاعدہ چلنے کو زندگی کا ایک لازمی جز بنالیا جائے۔ایک مسلمان کی حیثیت سے ہر نمازی کے لیے مسجد سے گھر اور گھر سے مسجد تک لازماً پیدل چلنا ہوتا ہے۔ بڑے نادان ہیں وہ لوگ جو قریبی فاصلے کے باوجود کار یا موٹر سائیکل پر مسجد یا بازار آتے ہیں۔ ہاں اس مقصد کے لیے سائیکل کا استعمال یقیناً بہتر ہوتا ہے۔ مضمون کے عنوان کے لحاظ سے تین امراض ڈپریشن، گنٹھیا اور ذیابیطس سے بچائو بلکہ نجات کے لیے چلنا بہت مفید ہے تو پھر کمر ہمت باندھیے اور یہ سلسلہ شروع کردیجئے۔
یہ بات یقیناً آپ کے علم میں ہے کہ پیدل چلنا جسے ہم واک (Walk) بھی کہتے ہیں، صحیح معنوں میں ایک مکمل ورزش ہے۔ واک یا چہل قدمی کرنے سے ایک گھنٹے میں 340 حرارے (کیلوریز) جل جاتے ہیں۔ اس کے لیے چار میل فی گھنٹہ کی رفتار درکار ہوتی ہے۔ واک سے عضلات (پٹھے) بنتے ہیں، جوڑ مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں اور اس کی باقاعدگی سے قوتِ برداشت میں اضافہ ہوتا ہے۔ آج کل کم از کم ترقی یافتہ ملکوں میں واک کو کئی امراض کے علاج کے طور پر فروغ حاصل ہورہا ہے اس میں ڈپریشن، گنٹھیا اور ذیابیطس قابل ذکر ہیں۔
ڈپریشن سے نجات: بیس برس کی تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ محض اپنے صحن یا قریبی باغیچے میں مٹر گشت کرنے سے بھی معمولی قسم کے ڈیپریشن سے نجات مل جاتی ہے۔ ایک ماہر کے مطابق روزانہ صرف دس منٹ کی واک بھی بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک محقق ڈاکٹر رابرٹ ای تھائر کے مطابق خراب موڈ محض ایک مزاجی کیفیت نہیں ہوتی بلکہ یہ کئی خرابیوں اور تکالیف کا مجموعہ ہوتی ہے۔ یہ دراصل متعدد نفسیاتی الجھنوں اور احساسات کا مرکب ہوتی ہے مثلاً اس کی وجہ سے کام کا دن خراب لگتا بلکہ ضائع ہو جاتا ہے، عزت نفس کم اور مجروح محسوس ہوتی ہے۔ ان دو عوامل کے علاوہ مزاج کی اس کیفیت میں نیند کا بھی دخل ہوتا ہے۔ کیا پچھلی رات آپ اچھی نیند سوئے
تھے؟ نیند اچھی گہری اور بھرپور ہوتو معمول کے گھنٹوں سے ایک دو گھنٹے پہلے بھی آپ چست اور توانا بیدار ہوسکتے ہیں۔ دن کے کس حصے میں آپ خود کو پست و بے ہمت محسوس کرتے ہیں؟ جسمانی اعتبار سے آپ کی سرگرمی کی سطح کیا رہتی ہے؟ اس کے علاوہ آپ کی عادات کیا ہیں؟ کیا تمباکو اور کیفین (کوفی، کولا مشروبات) کے آپ غلام ہیں؟ ان تمام عوامل کے مجموعی اثر کو موڈ یا مزاجی کیفیت کہنا چاہیے۔ڈاکٹر تھائر کے مطابق یہی خراب موڈ رفتہ رفتہ ڈپریشن اور ذہنی دبائو اور کشیدگی کا مرض بن جاتا ہے۔ کشیدگی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ آپ خود محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے عضلات سخت کشیدہ ہیں۔شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر چہرے کے پٹھوں کا جائزہ لیجئے اور پھر تھوڑا سا مسکرا کر جائزہ لیجئے، آپ محسوس کریں گے کہ مسکرانے سے چہرے اور پیشانی کا رنگ ہی بدل گیا ہے۔ مسکراہٹ آپ کے چہرے کو10-5سال کم عمر بنادے گی۔ اس کشیدہ ذہنی اور پستی کے ساتھ اگر تھکن بھی شامل ہو جائے تو آدمی خود کو بالکل کھنڈر محسوس کرتا ہے۔ڈاکٹر تھائر کے مطابق اوسط قسم کے ڈپریشن کی ایک خاص علامت تھکن کا احساس ہے۔ تھکن ڈپریشن کی ایک خاص نشانی ہوتی ہے لیکن خود یہ تھکن اس ڈپریشن کا سبب بھی ہوسکتی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اس تھکن کو کس طرح دور کرکے آپ خود کو توانا محسوس کریں؟
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں