شور ایک تکلیف دہ کیفیت
شورنہ صرف یہ کہ انتہائی تکلیف دہ چیز ہے بلکہ وہ نازک کاموں مثلاً ہسپتال کے آپریشن اور سائنسی تحقیق کار کی توجہ منتشر کرتا ہے۔ انسانی ذہن ایک وقت میں صرف ایک خیال پر اپنی توجہ مرکوز رکھ سکتا ہے اگر اس وقت شور کی مداخلت ہو جائے تو توجہ بٹ جاتی ہے اور تنائو یا خوف پیدا ہونے اور غلطی کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ شور کا مطلب یہ ہے کہ کان کے پردے پر مسلسل ناگوار آوازوں کی بمباری ہوتی ہے مثال کے طور پر بسوں اور ٹرکوں کا شور‘ ٹیکسیوں اور رکشائوں کا شور ‘ہوائی جہازوں کا شور اپنی آواز میں بجائے جانے والے میوزک کا شور ہمارے ذہن کے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ شور اب سماجی مسئلہ بن گیا ہے اس کا علاج ویسے ہی کرنا پڑے گا جیسے ہم پانی اور ہوا کی آلودگی کا کررہے ہیں ہمارے کان کا پردہ طبعی طور پر کم شور کو برداشت کرسکتا ہے گاڑیوں کی آوازیں، بعض مشینوں کی گڑگڑاہٹ، ہوائی جہاز کی آواز گاڑیوں کے ہارن سائرن شور کی انتہائی سنگین صورتیں ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسانی کان کی نزاکت ان کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ کان کے بعد شور فوراً دماغی نظام کو متاثر کرتا ہے۔ بعض طبی ماہرین نے تو اسے امراض قلب، ہائی بلڈپریشر، معدے کے السر تک کے لیے سخت نقصان دہ قرار دیا ہے۔شور کو ہم غیر ضروری آواز بھی کہہ سکتے ہیں، زیادہ شور بہرہ پن پیدا کرسکتا ہے اور متاثرہ شخص کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ بہرہ ہورہا ہے
کان کی نزاکت
انسان کے کان کا نظام نہایت نازک ہے ہر تیسرا بہرہ شخص جو آپ کو ملے گا وہ شور کی وجہ سے سماعت سےمحروم ہوتا ہے انسانی کان نوے ڈیسی بل کی آواز برداشت کرسکتا ہے اس سے زیادہ شور ہوتو کان میں روئی کی پھریری رکھنی چاہیے زیادہ اونچی آواز کا میوزک بھی 135 ڈیسی بل ہوتا ہے اور کانوں کے لیے سخت نقصان دہ ہوتا ہے ٹیلی ویژن‘ موبائل‘ ایم پی تھری یہاں تک کہ کی بورڈکی آواز بھی ناقابل برداشت ہو جاتی ہے اس شور میں کوئی شخص نہ تو اپنی توجہ مرکوز کرسکتا اور نہ ہی وہ آرام کرسکتا ہے۔
تخلیقی خیال: شور تخلیقی خیال کا قاتل ہے۔ صرف ٹیلی فون کی گھنٹی بھی تخلیقی خیال کے سلسلہ کو توڑ سکتی ہے۔ جدیددور میں ایجادات پر توجہ مرکوز کرنا‘ تخلیقی تحریر لکھنا، پینٹنگ کرنا شور کی وجہ سے مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ اعصاب کے لیے خاموشی کی ضرورت ہے‘ خاموشی اعصاب پر مرہم کا کام کرتی ہے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ ایک ایسی طبعی ضرورت ہے جسے افریقہ کے قبائل بھی جانتے ہیں، سوڈان کا قبیلہ ’’ماھان‘‘ ڈھول تک نہیں بجاتا اور اپنے جنگل میں مکمل خاموشی قائم رکھتا ہے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ائرپورٹ کے کنٹرول ٹاور کے اہلکار ہوائی جہازوں کے اترنے چڑھنے کے شور سے متاثر ہوکر بعض اوقات ایسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں جو جہاز کے حادثے کا باعث بن جاتی ہیں مسلسل شور سے اہلکار تھک جاتے ہیں، چڑچڑے ہو جاتے ہیں اور دماغ صحیح کام نہیں کرپاتا۔
شور کے دیگر نقصانات
شور میں آپ رات بھر سو نہیں سکتے شور میں کام کرنے والے افراد کے عضلات اکڑ جاتے ہیں عمل جذب و ہضم بڑھ جاتا ہے اور آکسیجن زیادہ خرچ ہوتی ہے اس سے وہ روزانہ تھک کر چور ہو جاتا ہے تجربات سے ثابت ہوا کہ خاموش ماحول کے مقابلے میں پرشور ماحول میں انیس فیصدزیادہ توانائی صرف ہوتی ہے ایک تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ شور کو چالیس فیصد کم کیا گیا تو ٹائپنگ میں ایک تہائی غلطیاں کم ہوئیں۔
نیند پر اثرات
شور کے اندر سونے والوں کے عضلات سکڑجاتے ہیں اور نصف گھنٹے سکڑے رہتے ہیں غالباً شہروں کے رہنے والوں کی تھکن کی ایک وجہ یہی ہے کہ وہ دن رات شور سنتے ہیں۔ آج کل مکانات ایسے نہیں بنتے کہ وہ بیرونی شور کو روک سکیں اور اوپروالی منزل کی آواز نچلی منزل والے سن سکتے ہیں۔ آرام اور خاموشی پر انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں لیکن شہروں میں ٹریفک،موبائل‘ ٹیلی ویژن، میوزک اور تقریبات وغیرہ نے سب کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ شور کو کم کرنے کا سدباب ہونا بہت ضروری ہے شور کی بڑی وجہ ہماری ٹریفک ہے اگر ٹریفک پولیس موٹر سائیکل کو بغیر سائلنسر کے چلنے کی اجازت نہ دے اس کے علاوہ زیادہ ہارن بجانے پر پابندی عائد کردی جائے خاص طور پر ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور رہائشی علاقوں میں اس کے علاوہ لوگوں کو بھی چاہیے وہ میوزک ہرگز نہ سنیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں