دوڑتے دوڑتے وہ ایک کھیت میں جا پہنچا وہاں ایک کسان بھی تھا۔ اس نے جب ادرک کی خمیری روٹی سے بنے چھوٹے لڑکے کو دیکھا تو تیزی سے اسے پکڑنے کو لپکا:’’اے چھوٹے لڑکے! رک جائو میں تمہیں اپنی چائے کے ساتھ نوش کروں گا‘‘
بے اولادبوڑھے بونے میاں بیوی
پرانے وقتوں کا قصہ ہے۔ ایک دور دراز قصبے میں ایک بوڑھا آدمی اور اس کی بیوی رہا کرتے تھے۔ بوڑھا اور بوڑھیا دونوں بونے تھے۔ ان دونوں کی کوئی اولاد نہ تھی۔ ایک روز بوڑھی عورت نے کہا کہ ’’میں اپنے طور پر ادرک کی خمیری روٹی سے ایک چھوٹا سا لڑکا بنائوں گی‘‘ یہ کہہ کر وہ کام میں جت گئی۔ سب سے پہلے تو اس نے آٹے کو خمیر کیا۔ پھر اسے اچھی طرح سے گوندھا اور کاٹ کر ایک چھوٹے سے لڑکے کا جسم بنایا۔ اس کے بعد اس نے دو کشمکش اس کی آنکھوں کی جگہ لگائے اور تین کشمکش سامنے کی طرف بٹنوں کے طور پر لگادیئے۔ پھر چمچ کے نوک سے باریک سے مسکراتے ہوئے ہونٹ بناڈالے۔ جب چھوٹے سے لڑکے کا پورا جسم بن گیا تو بوڑھی عورت نے اسے بھٹی میں پکنے کے لیے رکھ دیا۔ کچھ دیر جب اس نے برقی بھٹی کا دروازہ کھولا تو اچانک ادرک کی خمیری روٹی سے بنے ہوئے چھوٹے لڑکے نے زور سے باہر چھلانگ لگادی اور کچن کے فرش پر تیز تیز گھومنے لگا۔’’افوہ!‘‘ بوڑھی عورت حیران و پریشان اس کی طرف لپکی لیکن چھوٹا لڑکا توتھا بہت ہی ہوشیار وہ کیسے اس کے ہاتھ آتا۔ اس نے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور گھر کے دروازے سے نکل کر بھاگ کھڑا ہوا۔ بوڑھی عورت ہکا بکا اپنے شوہر کو بتانے کے لیے دوڑی۔ پھر میں وہ دونوں لڑکے کی طرف دوڑ پڑے۔ اب آگے آگے لڑکا اور اس کے پیچھے پیچھے دونوں بوڑھے بھاگ رہتے تھے۔’’رک جائو، رک جائو! اے چھوٹے ادرک کی خمیری روٹی سے بنے لڑکے! رک جائو‘‘لیکن بھلا چھوٹا لڑکا کیسے ان کی بات پر کان دھرتا۔ وہ تو بس دوڑتاہی چلا گیا۔ تھا تو وہ چھوٹا سا لیکن آواز اس کی بڑی ہی تیز تھی۔ دوڑتے دوڑتے وہ اپنی باریک اور تیز آواز میں گاتا جارہا تھا :
’’دوڑو ہاں دوڑو، تیزی سے دوڑو
دوڑتے ہی جائو تھک تھک کے دوڑو
تم مجھے کیسے پکڑ سکتے ہو بھلا
کہ میں ہوں ادرک کی روٹی سے بنا
میںتو بوڑھے بوڑھی کو پیچھے چھوڑ آیا تم کیا چیز ہو؟
دوڑتے دوڑتے چھوٹا لڑکا تو کہیں کا کہیں جا پہنچا جبکہ بیچارا بوڑھا آدمی اوراس کی بیوی دونوں تھک ہار کر ناکام واپس لوٹ گئے۔ادھر چھوٹا لڑکا دوڑتا ہی رہا، دوڑتا ہی رہا۔ یہاں تک کہ وہ ایک چراگاہ میں جاپہنچا۔ وہاں ایک گائے کی نظر اس پر پڑی تو وہ اپنی بھاری اور بیٹھی ہوئی آواز میں بولی: ’’رک جائو، رک جائو اے لڑکے! کیونکہ تم مجھے کھانے کی نہایت مزیدار چٹنی لگتے ہو‘‘ لیکن چھوٹے لڑکے پر کہا اثر؟ وہ گائے کے پاس سے یہ کہتا ہوا بھاگ گیا کہ ’’میں تو بوڑھے بوڑھی کو بھی پیچھے چھوڑ آیا ہوں۔ تم بھلا مجھے کیسے پکڑسکتی ہو؟ تو تمہیں بھی پیچھے چھوڑ دوں گا۔ سمجھیں کچھ اے بی گائے!‘‘ یہ کہہ کر وہ آگے سے آگے دوڑتا چلا گیا۔ ایک ندی کے کنارے ایک گھوڑا کھڑا پانی پی رہا تھا۔ جب چھوٹا لڑکا اس کے قریب پہنچا تو گھوڑا زور سے پکارا:’’اے لڑکے ! رک جائو میں دیکھنا چاہتا ہوںکہ آخر تمہارا ذائقہ کیسا ہے؟‘‘لیکن چھوٹے لڑکے سے بھی بھلا کوئی تیز دوڑ سکتا تھا۔ وہ تقریباً پھسلتا ہوا گھوڑے کے پاس سے نکل گیا۔ ساتھ ساتھ وہ چلاتا جارہا تھا ’’تم مجھے کیسے پکڑ سکتے ہو بیوقوف گھوڑے! میں تو بوڑھے آدمی اور اس کی بیوی اور بی گائے سبھی کو پیچھے چھوڑ آیا ہوں۔گھوڑا بیچارا اپنا سا منہ لے کر رہ گیا اور سرکش چھوٹا لڑکا دوڑتا ہی چلا گیا۔
میں تجھے چائے کے ساتھ کھاؤں گا
دوڑتے دوڑتے وہ ایک کھیت میں جا پہنچا وہاں ایک کسان بھی تھا۔ اس نے جب ادرک کی خمیری روٹی سے بنے چھوٹے لڑکے کو دیکھا تو تیزی سے اسے پکڑنے کو لپکا:’’اے چھوٹے لڑکے! رک جائو میں تمہیں اپنی چائے کے ساتھ نوش کروں گا‘‘ لیکن چھوٹا پھرتیلا لڑکا کسان کی ٹانگوں کے بیچ سے ہوکر نکل گیا اور چیخ کر کہنے لگا:’’میں تو چھوٹے بوڑھے مرد، چھوٹی بوڑھی عورت، بی گائے اور بیوقوف گھوڑے تک کو پیچھے چھوڑآیا ہوں۔ تم بھلا کیا چیز ہو! میں تمہیں بھی ہرادوں گا‘‘ کسان اس کے پیچھے لپکا لیکن اسے پکڑنے میں ناکام ہوگیا۔ جب کسان بھی چھوٹے لڑکے کو نہ پکڑ سکا تو وہ جوش میں آگیا اور سرکش ہوکر اور تیز دوڑنے لگا۔ لیکن آخر کار اسے رکنا ہی پڑا کیونکہ اس کے سامنے بہت بڑا دریا آگیا تھا۔ جسے وہ عبور نہیں کرسکتا تھا۔ وہ مجبوراً ایک طرف ہوکر کھڑا ہوگیا اور سوچنے لگا کہ دریا کے پار کیسے جائوں؟
میری دم پر بیٹھو! میں دریا پار کروا دیتا ہوں
اسی اثنا میں وہاں ایک لومڑ آگیا۔ اس نے جب ادرک کی خمیری روٹی سے بنےلڑکے کو دیکھا تو بہت خوش ہوا اور سوچنے لگا یہ تو بڑی مزیدار چٹ پٹی چیز لگتا ہے۔ میں اسے ضرور کھائوں گا چونکہ لومڑ بہت مکار اور ہوشیار تھا۔ اس لیے اس نے ایک چال سوچی اور لڑکے سے کہنے لگا ’’آئوچھوٹے لڑکے! تم میری دم پر بیٹھ جائو۔ میں تمہیں بہت آسانی سے دریا کے پار پہنچا دوں گا۔ بس تم جلدی سے آجائو‘‘۔اب چھوٹا لڑکا تو تھا ہی بے وقوف۔ اپنے بڑوں کی بات تو اس نے نہ مانی تھی جبکہ مکار لومڑ کی چال میں آسانی سے آگیا۔ اور جلدی سے دم پر اچک کر بیٹھ گیا۔ لومڑ دریا میں اتر اور تیرنے لگا۔ کچھ دیر ہی گزری تھی کہ اس نے چھوٹے لڑکے کو آواز دے کر کہا:’’اے لڑکے! تم یقینا گیلے ہورہے ہوگئے۔ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ میری گردن پر بیٹھ جائو تاکہ دریا کا پانی تمہیں گیلا نہ کرسکے‘‘لڑکے نے یہ بات سنی تو اچھل کر لومڑ کی گردن پر آگیا۔ پھر جب وہ آدھا راستہ طے کر چکے تو لومڑ نے دوبارہ لڑکے کو زور سے آواز دی’’چھوٹے لڑکے! تم بہت بھاری ہو میری گردن تو تھک گی ایسا کرو کہ میری ناک پر آکر بیٹھ جائو‘‘چھوٹا لڑکا آرام سے اس کی ناک پر آبیٹھا۔ لومڑ تیزی سے تیرتا رہا۔ آخر وہ دوسرے کنارے پر پہنچ ہی گئے لیکن بچو! پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ پہلے تو لومڑ کا بڑا سا جبڑا کھلا پھر زور سے ’’ہپ‘‘ کی آواز آئی اور اس کے ساتھ ہی چھوٹے لڑکے نے چلانا شروع کردیا۔’’او پیارے لومڑ! یہ تم نے کیا کیا؟ میں تو آدھا ختم ہوگیا‘‘ وہ شور مچاتا ہی رہ گیا اور لومڑ نے دوسری بار بھی زور سے ’’ہپ‘‘ کرڈالا۔چھوٹا لڑکا پھر چلایا ’’اے پیارے لومڑ! مجھ پر رحم کرو میں تو تین چوتھائی ختم ہوگیا ہوں۔‘‘ اب بھلا لومڑ کیسے چھوڑ دیتا۔ اتنا تو مزیدار تھا وہ اور وہ بھی تو تھوڑا ہی رہ گیا تھا۔ اس نے پھر اپنا بڑا سا منہ کھولا اور تیسری بار جب ’’ہپ‘‘ کی آواز آئی تو وہاں نہ کوئی ادرک کی خمیری روٹی سے بنا لڑکا تھا اور نہ اس کا شوروغل تھا۔ لومڑ مزے سے اپنا منہ چلاتا ایک طرف کو چل دیا۔تو کہئے پیارے بچو! پسند آئی آپ کو کہانی۔ ہمارے سیکھنے کی بات اس میں یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے بڑوں کی بات مانیں۔ اگر ہم چھوٹے لڑکے کی طرح بدتمیزی کرکے بھاگ لیں گے تو آخر کب تک بھاگیں گے۔ آخر کار تو چالاک لومڑ جیسی کوئی نہ کوئی مصیبت آہی جائے گی نا۔۔!! پھر کیسے بچیں گے؟ اس لیے اچھی بات تو یہ ہے کہ آپ اپنے گھر میں سکون سے اپنے بڑوں کا احترام کرتے ہوئے رہیں۔ پھر انشاء اللہ کوئی چالاک لومڑ آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں