عمر کے ساتھ حافظہ میں کمی
حافظہ بڑی نعمت ہے۔ تحریر و رسم الخط سے محروم دنیا کی کئی اقوام اور برادریوں کی تاریخ اور واقعات ان کے بڑوں کے حافظوں میں محفوظ رہتے ہیں جو نسلوں میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ یہ حافظے کی وجہ سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ حافظے میں عمر میں اضافے کے ساتھ کمی ہونے لگتی ہے خاص طور پر 50سال کے بعد لوگ خود رکھی ہوئی چیزوں کی جگہ بھولنے لگتے ہیں مثلاً انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ گاڑی کہاں پارک کی تھی، چابیاں کہاں رکھی تھیں، دوائیں مقررہ وقت پر کھائیں یا نہیں۔ علاج و تدبیر نہ کرنے کی صورت میں یہ شکایات مزید بڑھتی جاتی ہیں۔ اصل بات بھول جاتی ہے اور واقعات کے بیان میں غلطی کے امکانات بڑھتے جاتے ہیں۔ ایک حد تک تو ماہرین اس بھلکڑپن کو وقتی اور معمولی قرار دیتے ہیں، لیکن جب یہ شکایت بہت بڑھ جاتی ہے تو کئی مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں مثلاً اپنے گھر کے بجائے کسی اور گھر میں جا گھسنے جیسے واقعات پیش آنے لگتے ہیں۔ یہ گویا حافظے میں مسلسل کمی کی علامات ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں معالج سے مشورہ ضروری ہوجاتا ہے۔ماہرین معمولی شکایت کو تھکن اور محض توجہ کی کمی کا نتیجہ قرار دیتے ہیںاور یہ شکایات وقتی قرار دی جاتی ہیں۔
اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ اپنے کسی دوست کے ساتھ سرراہ یا کسی محفل میں اپنے کسی پرانے واقف کار کو دیکھ کر کھل اٹھتے ہیں اور بڑے شوق و تپاک سے اس کا تعارف اپنے ساتھی دوست سے کرانے لگتے ہیں تو اس کا نام آپ کے حافظے سے غائب ہو جاتا ہے اور اسے کبھی محمود، مسعود، مختار کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اسی طرح کئی بار پڑھی ہوئی پسندیدہ کتاب کا نام آپ کی یادداشت سے نکل جاتا ہے جس سے ذہنی الجھن ہوتی ہے اور آپ بار بار کہتے ہیں بھئی نام یاد ہے بس زبان پر نہیں آرہا۔ اس قسم کے واقعات تقریباً ہر شخص کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ایک ماہر کے مطابق غلطیوں کا تعلق لفظ کا معنی یاد کرنے سے نہیں ہوتا بلکہ اس کی صورت یا آواز سے ہوتا ہے۔ اکثر اوقات کسی لفظ کی آواز یا صورت بے معنی اور مہمل لگتی ہے۔ اسے یاد کرنے کی کوشش ایک چیلنج بن جاتی ہے۔ اس کا علاج یہی ہے کہ ایسے نام یا اشیاء کو دہراتے اور یاد کرتے رہنا چاہیے۔
تجربہ کرکے دیکھیے ! ہوٹل میں بیرا کھانوں کے نام یکساں تسلسل اور ترتیب سے سنا سکتا ہے اسی طرح سیلز مین اپنے گاہکوں کے نام بالکل ٹھیک بتا سکتے ہیں۔ یہ دہرانےکا کرشمہ ہے۔ دراصل گڑبڑ اس وقت ہوتی ہے کہ جب ایک جیسی آواز والے لفظ یادداشت میں دھراتے ہیں مسعود، محمود اور اسی کشمکش میں غلط نام زبان پر آ بھی جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک ماہر نفسیات کا مشورہ یہ ہے کہ ایسی صورت میں ذہن کو کسی اور طرف موڑ دینا چاہیے کیونکہ اس طرح ذہن کو ڈھیل دینے یا دوسری طرف متوجہ کرنے سے بسا اوقات صحیح لفظ یا نام یاد آجاتا ہے۔
چیزیں رکھ کر بھول جانا! ایسا کیوں؟
توجہ کی کمی:چیزیں رکھ کر بھول جانا ایک عام شکایت ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایک ماہر نفسیات کے مطابق اس کا بنیادی سبب توجہ کی کمی ہوتا ہے۔ یہی بات ایک مشہور مصنف نے کہی تھی کہ آپ اس لیے بھولتے ہیں کہ بھولنا چاہتے ہیں۔ آپ سے توقع ہوتی ہے کہ آپ کوئی بات یا چیز یاد رکھیں گے، لیکن چونکہ آپ نے اسے توجہ اور ترتیب سے یاد نہیں رکھا، اس لیے وہ آپ کے حافظے سے غائب ہوگئی۔ چیزوں اور بات کے سلسلے میں ان کی ترتیب اور تعلق کو قائم اور برقرار رکھنے سے ان کا یاد کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ بسا اوقات اس قسم کی بھول سے بڑے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں مثلاً اگر آپ نے دوران گفتگو اپنا موبائل فون جیب میں تو رکھ لیا، لیکن یہ یاد نہیں رکھا کہ آپ نے کیا رکھا ہے تو ایسی صورت میں آپ یہ بھول جائیں گے کہ فون الماری میں لٹکی ہوئی آپ کی جیکٹ کی جیب میں ہے۔ اب اسے حافظے کی کمزوری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ غلطی صرف یہ ہے کہ آپ نے اپنے نظام حافظہ کو درکار معلومات فراہم نہیں کی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں