زندگی کے سب سے خوبصورت مگر نازک دنوں میں کیا کھانا چاہیے اور کس کھانےسے پرہیز بہتر ہوگا
عالیہ جب حاملہ ہوئی، تو قدرتاً اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ آخر 5 برس بعد اُمید بر آنے والی تھی لیکن کچھ ہی عرصے بعد اس کی جان عذاب میں آ گئی۔ ساس سمیت خاندان کی تمام بڑی بوڑھیوں نے متضاد نصیحتیں کر کے بے چاری عالیہ کا دماغ گھما دیا۔ بیشتر نصیحتوں کا مرکزی نقطہ یہ اَمر ہوتا کہ فلاں غذا نہ کھائو اور فلاں چیز خوب اُڑائو مگر اگلے ہی لمحہ دوسری بی بی کوئی اور منطق سامنے لے آتی۔ حالانکہ حاملہ کی غذا بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ عورت جو کچھ کھائے، وہ بڑھتے بچے پر اثرانداز ہوتی ہے۔ ذیل میں ان تمام غذائی عناصر کا ذکر ہے جو ایک حاملہ کو دورانِ حمل درکار ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے ایک بھی روزمرّہ کی غذا میں کم یا ناپید ہوجائے، تو وہ بچے کی نشوونما پر منفی اثرات ڈالتا ہے۔
زیادہ کھانا فائدہ مند نہیں
ہمارے ہاں یہ بات تقریباً کہاوت بن چکی ہے کہ حاملہ کو چاہیے وہ 2 آدمیوں جتنا کھانا کھائے۔ یہ بات غلط ہے۔ گو حاملہ کو یقیناً بعض غذائی عناصر مثلاً کیلشیم، فولاد اور پروٹین کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، لیکن زائد حرارے (کیلوریز) اسے دوسری سہ ماہی ہی میں درکار ہوتے ہیں ۔ دوسری اور تیسری سہ ماہی میں بھی حاملہ کو چاہیے کہ صرف تین سو حراروں والی زائد غذا کھائے۔ لیکن یہ غذا ردی یعنی فاسٹ فوڈ قسم کی نہ ہو، بلکہ وہ ایسی غذائیں کھائے جو بچے کی جسمانی نشوونما میں حصہ لیں مثلاً آدھی پیالی میوہ کھالیا یا سینڈوچ لے لیااور یہ بات یاد رکھیے کہ روزانہ 2 آدمیوں جتنا کھانا کھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بس ردی (جنک فوڈز)و فضول غذا سے دور رہیے اور صرف مفید غذائیں کھائیے۔
کام سے پرہیز
برصغیر پاک و ہند میں کئی صدیوں سے یہ بات بھی پھیلی ہوئی ہے کہ حاملہ عورت کو کام نہیں کرنا چاہیے۔ بس وہ بستر پر لیٹ کر آرام کرے حالانکہ جدید طبی سائنس اس امر کو غلط ثابت کر چکی ہے۔ حاملہ عورت کو چاہیے کہ وہ معمول کی سرگرمیاں انجام دے اور خود کو چاق و چوبند رکھے۔ یوں وہ پورے چالیس ہفتے ہشاش بشاش رہتی، ذہنی دبائو کا نشانہ نہیں بنتی اور حمل سے متعلق کئی خرابیوں مثلاً حملی ذیابیطس سے محفوظ رہتی ہے۔ مزیدبرآں حرکت کرنے سے زچگی بھی آسان ہوتی ہے اوربعدازاں بدن سمارٹ کرنے میں مشکل پیش نہیں آتی۔
فولاد، کیلشیم اور پروٹین
درج بالا تینوں غذائی عناصر حاملہ اور بچے کی صحت کے لیے ضروری ہیں۔ حاملہ کو چاہیے کہ وہ غذائوں سے 27تا 30 ملی گرام فولاد ضرور حاصل کرے۔ فولاد کے بڑے ذرائع گوشت، ثابت اناج، ساگ، جئی کا دلیہ اور خشک خوبانی ہیں۔ ایک پیالی ثابت اناج کھانے سے ۱۸ ملی گرام فولاد حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک پیالی ساگ ملی گرام جبکہ ایک پیالی خشک خوبانیاں ۵۰عدد۳ ملی گرام فولاد مہیا کرتی ہیں۔ یہ واضح رہے کہ جن غذائوں میں وٹامن سی ہوتا ہے، انھیں بھی تقریباً روزانہ استعمال کرنا چاہیے۔ دراصل وٹامن سی فولاد کو جسم میں جذب ہونے میں مدد دیتا ہے۔ حاملہ کے لیے کیلشیم کی روزانہ مقدار ۱۰۰۰ ملی گرام ہے۔
دودھ اور اس سے بنی مصنوعات
اس معدن کا خزانہ ہیں۔ ایک گلاس خالص دودھ پینے سے اُسے 400تا500 ملی گرام کیلشیم باآسانی مل سکتا ہے۔ اگر حاملہ ڈیری مصنوعات پسند نہیں کرتی، تو وہ دیگر غذائوں سے کیلشیم حاصل کرے مثلاً ایک پیالی پکا ساگ 246 ملی گرام کیلشیم فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح ایک پیالی بندگوبھی 94، پھول گوبھی61 اور پھلیاں 46 ملی گرام کیلشیم فراہم کرتی ہیں۔ خشک انجیر بھی اس معدن کا مخزن ہے۔ ایک پیالی انجیریں241 ملی گرام کیلشیم فراہم کرتی ہیں۔ تاہم گرم ہونے کی بنا پر انجیروں کا روزانہ استعمال مناسب نہیں۔ حاملہ کو چاہیے کہ وہ روزانہ60 ملی گرام پروٹین بھی جزوِبدن بنائے۔ ہر قسم کا گوشت خوب پروٹین رکھتا ہے۔ جو خواتین گوشت سے پرہیز کرتی ہیں وہ سویابین اور دالیں کھا سکتی ہیں۔ یہ بھی پروٹین فراہم کرتی ہیں۔
ڈی ایچ اے اومیگا3
چکنائی کی ایک قسم ہے۔ حاملہ کو اس کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ چکنائی مچھلیوں کی بیشتر اقسام میں ملتی ہے، تاہم انڈے، اخروٹ اور سویابین کا دودھ بھی ڈی ایچ اے اومیگا۔۳ مناسب مقدار میں فراہم کرتے ہیں۔ وٹامن بی ۱۲ بچے کے ذہن کی نشوونما کرتا اور اُسے ذہین بناتا ہے۔ یہ وٹامن مرغی، مچھلی، سرخ گوشت، انڈے اور ڈیری مصنوعات میں ملتا ہے۔ اگر کوئی حاملہ سبزی خور ہے، تو وہ ڈاکٹر کے مشورہ سے حیاتین تجویز کرا سکتی ہے۔
مچھلی… بچے کے لیے مفید غذا
حاملہ کے مالی حالات اچھے ہوں، تو وہ ہفتے میں ایک ڈیڑھ کلو مچھلی ضرور کھائے۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو خواتین زمانہ حمل میں مچھلی کھائیں، ان کے بچے ذہنی طور پر طاقتور اور چست و چالاک ہوتے ہیں جبکہ مچھلی نہ کھانے والی کے بچے ذہنی طور پر پسماندہ پائے گئے اور وہ دوسروں سے میل ملاپ کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ مچھلی میں ڈی ایچ اے اومیگا۔۳ چکنائی ملتی ہے۔ بچے کے ذہن اور آنکھوں کی نشوونما کے لیے یہ چکنائی ضروری ہے۔ چونکہ ہمارا جسم یہ چکنائی نہیں بناتا لہٰذا اُسے غذائوں سے حاصل کرنا چاہیے۔ اس کی کچھ مقدار مالٹا کے رس اور دہی میں بھی ہوتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں