آپ نے کیسے بتا دیا؟: میں بعض اوقات نبض پر ہاتھ رکھ کر بیماریاں بتا دیتا ہوں تولوگ حیران ہو جاتےہیں‘ ایک صاحب میرے پاس اپنے میڈیکل کے ریکارڈ کی فائل لے کر آئے، میں نے کہاآپ فائل رکھ دیں میں آپ کوبیماری بتا دیتا ہوں۔ اگر آپ کی بیماری، میری سمجھ میں نہ آئے تو مجھے فائل دکھا دیں۔ چنانچہ جب میں نے اللہ کی توفیق سے کچھ عرض کردیا تو کہنے لگے:میںنے تو ہزاروں روپے کے ٹیسٹ کرائے ہوئے ہیں، ٹیسٹ کروا کر ہی ڈاکٹروں نے میرا مرض بتایاتھا۔ مگر آپ نے کیسے بتا دیا؟
ہم نے خود کو کبھی روحانی مریض سمجھا ہی نہیں!
اگرمریض کو جسمانی بیماری بتا دی جائے تومریض طبیب کاشکریہ ادا کرتاہے۔ اوراگرطبیب کسی مریض کو روحانی بیماری بتا دے تو مریض غصے میں آجاتا ہے۔ اسکی وجہ کیا ہے؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ آج تک کسی مریض نے اپنے طبیب سے روحانی علاج کروانے کاسوچا ہی نہیں،مریض نے کبھی اپنے آپکو روحانی مریض سمجھا ہی نہیں۔اگر مریض اپنے مرض کو نہیںسمجھے گاتوعلاج کیسے کروائے گا؟ اگراپنے آپ کو مریض سمجھے گاہی نہیں تو علاج کیسے کروائے گا؟جب ہم اپنے آپ کومریض سمجھیں گے توہی ہم کسی طبیب سے علاج کروائیں گے۔اگر مریض کو کوئی طبیب کہے کہ آپ کو روحانی مرض ہے تو مریض کوغصہ نہیں آئےگا؟ وہ اظہار کرے یا نہ کرے ، دل کے اندر غصّے کی کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں۔
علم وہ جو ہمیں رب کی پہچان کرادے
ہم نے اپنے دماغ میںجو علوم بھرے ہوئے ہیں وہ یہ ہیں کہ مرنے سے پہلے کی محنت ہی ہمارے لیے سب کچھ ہے اور ساری محنت دماغ کو استعمال کرنے کی ہے اورہم نے اسی کا نام علم رکھا ہواہے۔ مگر یہ علم نہیں ہے۔علم وہ ہے جو ہمیں اپنے رب کی پہچان دے۔جن چیزوں پرہم محنت کرتے ہیںوہ فن ضرور ہے، ہماراسبجیکٹضرور ہے،چاہے وہ اکنامکس کا سبجیکٹ ہے ،چاہے وہ ٹیکنالوجی کا سبجیکٹ ہے،چاہے وہ سائنس کا سبجیکٹ ہے،چاہے وہ میڈیکل کا سبجیکٹ ہے یہ سارے سبجیکٹ ہیں، فن ہیں اور فن سیکھنا کوئی گناہ نہیں۔ لیکن علم صرف وہ ہے جس سے اللہ اور اسکے رسولﷺ کی پہچان پیدا ہو، علم وہ ہے جو اُسکی آنکھوں سے اندھیرا ہٹا دے،علم وہ ہے جو اسکی آنکھوں کے سامنے اجالا لے آئے ، علم وہ ہے جو اس کو آخرت کی پہچان دے دے، علم وہ ہے جو موت کے بعد آنے والی ہمیشہ کی زندگی کااسکو سلیقہ دے دے، علم تو اُسے کہتے ہیں۔
انسان اور جانور میں فرق
ایک بندہ کے پاس ساری دنیا کا علم اور فن ہے لیکن اس کے پاس اپنے رب کی پہچان نہیں ہے ، اپنے رب کی معرفت نہیں ہے، اس کے پاس حلال و حرام کی پہچان نہیں، تووہ جانور ہے۔ جو جانورکسی دوسرے مالک کے کھیت میںگھس جائے اسے کوئی پتہ نہیں کہ یہ مالک کا کھیت ہے یاکسی اور کا کھیت ہے۔ اس کے پیشِ نظر صرف بھوک ہے، خواہش ہے، چاہت ہے۔ اسے جہاں سبز گھاس نظر آئے گی وہ اُسی کھیت میں جائے گاایسا کرنے والا جانور ہوتا ہے انسان نہیں ہوتا۔
زندگی کا نظام کہیں اور سے چلتا ہے
انسان وہ ہے جس کی نظر اپنے کھیت کی گھاس پر ہوتی ہے ،چاہے وہ گھاس سوکھی ہویاسڑی ہوئی ہو ۔گھاس دراصل تعبیر ہے ہر اس چیزکا جس کا تعلق رزق سے ہے، خواہش سے ہے، زندگی کے کسی شعبے سے ہے۔جس کے دل میں احکام الٰہی ہوگاوہ انسان کہے گاکہ یہ میراکھیت ہے اگرچہ کسی اور کے کھیت کی گھاس ہری بھری ہے مگر وہ اپنے کھیت کی گھاس ہی استعمال کرے گا۔
یہ سوچ تب آئے گی جب علم آئے گا
یہ سوچ تب آئے گی جب اس کے دل میں علم الٰہی آئے گا، یہ سوچ اس وقت آئے گی جب اسکے دماغ کے اندر سے تمام تفریقیں ختم ہوجائیں گی کہ میں نے جواب تک علم سیکھا ہے، وہ مکمل نہیںہے!ہم نے جو کچھ سیکھاہے وہ فن ہے،جوصرف روٹی کمانے کے لیے ہے، روزی کمانے کے لیے ہے،روزی چاہے حلال ہو یا حرام۔حلال و حرام میں فرق کرنے کیلئے کوئی اور فن ہے،اس کے لیے کوئی اور علم ہے۔ یہ علم ہمیں اللہ والوں سے ملے گا کہ یہ رزق حلال ہے یا حرام ہے۔ یہ پھرزندگی کا نظام کہیں اور سے چلتا ہے۔ اللہ والو! میری بات غورطلب ہے! جس طرح ہم نے دنیا کے فن کو سیکھنے کے لیے وقت دیا تھابچپن سے لے کربڑھاپے تک قلم اورپنسل اُٹھائی، پڑھا ،لکھا، سوچا اور علم کے نام پر فن حاصل کیا لیکن اس علم نے یہ نہ سکھایاکہ اللہ کون ہے؟رسول ﷺ کون ہیں؟ حلال کیا ہے؟ حرام کیا ہے؟اس علم نے یہ سب نہ سکھایا۔ معلوم ہوا ، علم تو مل گیا مگر انسانیت نہیں ملی ۔
علم تو ملا انسانیت نہ ملی
اکثروالدین کہتے ہیںکہ ہم نے اپنی اولادکو علم وفن کی بہت بڑی ڈگری دلوائی مگر اب ہماری اولاد ہی ہماری بے عزتی کرتی ہے۔ بعض اوقات والدین اپنی اولاد کو اپنے ساتھ لے کر آتے ہیںتو میں اُن سے کہتا ہوںکہ آپ نے اپنی اولاد کو جو دنیا وی علم دیا اس علم کی ڈگری تواسے مل گئی مگر کیا آپ نے اپنی اولاد کو حقیقی علم دیا ہے؟ کہ ماں باپ کی خدمت سے کیا ملتاہے، اُنکے دیدار سے کیاملتا ہے، اُنکے اکرام سے کیاملتا ہے۔اپنی اولاد کویہ علم تو آپ نے دیا ہی نہیں ۔ (جاری ہے)
جسم کے اندر دو نازک چیزیں ہیں ایک دماغ ہے اور دوسرادل ہے۔ دماغ اللہ کے حکم کو پورا کرنے کے لیئے سوچتاہے اور دل اس لیئے دھڑکتاہے کہ اللہ کی محبت اور اللہ کا عشق کیسے حاصل کیا جائے؟
موجودہ نظام حکومت ناکام کیوں۔۔۔۔؟
جو قانون دماغ سے بنتے اور چلتے ہیںوہ قانون ختم ہوجاتے ہیں۔ 70 سال کے بعد کمیونزم ختم ہو گیا۔ لینن کے مجسمے کو وہی لوگ گھسیٹ رہے تھے جو کمیونزم کو چلانے والے تھے کہ یہ علم غلط تھا۔ 70 سال انہوں نے محنت کی آخر لینن کے مجسمے کو سڑکوں پر گھسیٹا، ساری دنیا کے میڈیا نے بتایا کہ یہ علم غلط تھا۔ اور علم وہی ٹھیک ہے جس کے اندر اللہ اور اُسکے رسولﷺ کی مہر لگی ہو۔ صحابی رضی اللہ عنہٗ اُس علم کی وجہ سے صحابی رضی اللہ عنہٗ بنے۔اہل بیت رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین اس علم کی وجہ اہل بیت رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین بنے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں