میں حیران ہوا میرا اتنا مال کیسے ملا‘ وہی لوگ تھے جن کے دلوں میں ترس پیدا نہیں ہورہا تھا اور جو بے غم اور بے ترس تھے اور میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ یقین جانیے! اتنے دنوں میں سوائے چائے کے چند کپ اور دو تین بسکٹ کے میں نے کچھ نہیں کھایا۔
قارئین! ہر ماہ حضرت حکیم صاحب کا روحانی رازوں سے لبریز منفرد انداز پڑھیے۔(ایڈیٹر کے قلم سے)۔
ایک صاحب اپنا واقعہ بتانے لگے کہ ایک دفعہ مجھے کاروبار کے سلسلے میں بیرون ملک جانا ہوا۔ میرے پاس روسی کرنسی تھی یہ اس دور کی بات ہے جب ابھی روس ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوا تھا اور بہت زیادہ ایک بڑا بریف کیس بھرا ہوا تھا اور پتہ نہیں کیا ہوا فلائٹ لیٹ تھی اور میں اس کے انتظار میں اونگھ گیا جب آنکھ کھلی اور سامان تو تھا لیکن وہ بریف کیس نہیں تھا۔ میں ایک دم پریشان ہوگیا‘ ایئر پورٹ سکیورٹی کو بتایا تو کہنے لگے کہ ہمارے پاس تو اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ میں ان کے بڑے افسر سے ملا حتیٰ کہ ہر کاؤنٹر پر گیا کہیں سے مجھے تسلی بخش جواب نہ ملا۔
پہلے تو وہ مانتے نہیں پھر کہتے تھے اچھا ٹھیک ہے چیک کرتے ہیں شاید مل جائے۔ بہرحال کسی نے تسلی بخش جواب مجھے نہ دیا۔ میں حیران پریشان حتیٰ کہ اسی پریشانی میں میں نے دانستہ اپنی فلائٹ کو مس کردیا کہ جب تک میرا پاکستانی کروڑوں روپے کا بریف کیس نہ ملے‘ میں کہاں جاسکتا تھا۔
میں تین راتیں چار دن مسلسل ایئرپورٹ پڑا رہا۔ مجھے کہیں سےکوئی راستہ نہ ملا۔ اچانک خواب میں میری والدہ صاحبہ آئیں اور انہوں نے مجھے یاددہانی کرائی کہ تو حکیم صاحب کا وظیفہ یَارَبِّ مَوْسٰی یَا رَبِّ کَلِیْم بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نہیں پڑھتا‘ بس ایک ہلکا سا چہرہ اور ان کی آواز مجھے ملی اچانک میں چونک کر اٹھ پڑا اور میرے آنسو نکل پڑے۔ میں نے آپ سے یہ وظیفہ سنا تھا‘ میں نے وہ پڑھنا شروع کردیا اور پڑھتے پڑھتے دو دن مزید وہاں اس ایئرپورٹ پر رہا۔
آخر کار ایک دن ایک بڑا افسر میرے پاس خود آیا اور کہنے لگا آپ اتنے دنوں سے پریشان ہیں آپ میرے پاس آئیں‘ وہ مجھے اپنے پاس کنٹرول روم میں لے گیا۔ وہاں ہر طرف کیمرے فٹ تھے اس نے اس ڈیٹ کا کیمروں کا ڈیٹا کھلوایا اور پھر کئی گھنٹے وہ سرچ کرتے کرتے آخر اسی جگہ اور اسی لمحے پہنچ گیا میں نے کیمرے میں دیکھا۔ میں سورہا ہوں اور ایک صفائی کرنے والا سویپر آیا اس نے بریف کیس کو اٹھایا پھر رکھ دیا پھر دوسرے بیگ اٹھائے پھر آخر کار اس نے یہ بریف کیس اٹھایا اور اٹھا کر ساتھ ہی ٹائلٹ سے منسلک وہ چھوٹا سا کمرہ جہاں صفائی کا سامان ٹشو وغیرہ پڑے ہوتےہیں‘ اس نے وہاں رکھ دیا۔
اس کے بعد کیمرے سے منظر ختم ہوگیا لیکن اس آدمی کا چہرہ واضح نظر آیا۔ اس افسر نے فوراً صفائی کے معمور اعلیٰ افسر کو کال کی اور اس کو اس چہرے اور اس حلیے کے خاکروب‘ فلاں وقت اور فلاں تاریخ کو اس کی ڈیوٹی تھی۔ اس کے بارے میں اس نے بتایا۔ دو تین گھنٹے کے بعد سکیورٹی گارڈ اس کو پکڑ کر لے آئے۔ انہوں نے اس کو کرسی پر بٹھا دیا اور فوراً پھر کیمرہ آن کیا اور آن کرنے کے بعد اسے وہ منظر دکھایا۔ اس کی شکل ملائی۔ اس سے کہنے لگے‘ دیکھ! مجھے پتہ ہے تو بہت غریب ہے اور مجھے علم ہے کہ تو نے یہ کسی مجبوری کی وجہ سے چرایا ہے۔ لیکن اگر یہ شخص بغیر کیش کے چلا گیا تو ہمارے ملک کی بدنامی ہے اور تیری خیر اسی میں ہے کہ تو خاموشی سے یہ سارا بریف کیس بالکل اسی مکمل کیش کےساتھ واپس کردے ورنہ تیرا کیس بہت اونچی سطح پر جائے گا اور تجھ پر بہت بڑا مقدمہ بن جائے گا اور ساری عمر جیل میں سڑتا رہے گا۔ وہ ایک دم رونےلگ گیا اور معافی اور معذرت کرنے لگ گیا اور کہنے لگا کہ میں ابھی آپ کو دیتا ہوں لیکن میں نے کچھ اس میں سے خرچ کرلیے ہیں۔ پھر وہ افسر‘ میں‘ سکیورٹی گارڈ بڑی گاڑی میں بیٹھے ‘نامعلوم کس طریقے سے وہ بریف کیس ایئرپورٹ سے باہر نکال کر دور ایئرپورٹ کے فلیٹس میں لے گیا تھا۔ ہم اس کو لے کر اس کے گھر گئے‘ گھر میں اس نے اپنے پرانے بستروں میں وہ بریف کیس چھپا رکھا تھا۔ اس نے جتنے پیسے خرچ کیے سکیورٹی افسر نے وہ رقم اور پیسے تمام مکمل ادا کیے۔ حتیٰ کہ ایک لیٹر لکھا جس میں اپنی طرف سے ایئرپورٹ کی طرف سے حتیٰ کہ اپنے ملک کی طرف سے معذرت لکھی اور معذرت میں لکھا: کہ میں معذرت کرتا ہوں میری وجہ سے آپ کو کئی دن کی مشقت وپریشانی ہوئی اور مجھے باعزت اپنے ملک روانہ کیا۔
میں حیران ہوا میرا اتنا مال کیسے ملا‘ وہی لوگ تھے جن کے دلوں میں ترس پیدا نہیں ہورہا تھا اور جو بے غم اور بے ترس تھے اور میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ یقین جانیے! اتنے دنوں میں سوائے چائے کے چند کپ اور دو تین بسکٹ کے میں نے کچھ نہیں کھایا۔ میں نہیں سویا اور سویا اس وقت جب مجھے وہ خواب والدہ کا آیا اورمیری والدہ نے خواب میں مجھے اسی وظیفے کے بارے میں یاددہانی کرائی تو غافل کیوں ہے۔۔۔ تو اس وظیفے کو پڑھ۔ پھر کیا تھا۔۔۔ میں نے دن رات‘ وضو بےوضو یہ وظیفہ پڑھنا شروع کردیا۔ شاید میرے اندر وجدان تھا‘ پاگل پن تھا اور مجھے کہیں سہارا نہیں مل رہا تھا اور پھر میں نے جس توجہ‘ جس طاقت‘ جس دھیان اور جس یقین سے پڑھا وہ مجھے پتہ ہے۔ کبھی کبھی آج بھی وہ گھڑیاں سوچتا ہوں اور اپنی اس بے کلی‘ بے قراری‘ بے خودی اور پریشانی کا سوچتا ہوں تو خود حیران ہوتا ہوں اور پھر کبھی کبھی اپنے اوپر حیران ہوتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی قوت اور طاقت اور اللہ کے نام کی برکت پر حیران ہوتا ہوں کہ اللہ نے اس وظیفے کی برکت سے مجھے کتنا کچھ نوازا اور کیسے لوگوں کے دلوں میں محبت اور پیار پیدا ہوا۔
قارئین! واقعی یہ وظیفہ لوگوں کے دلوں میں محبت‘ پیار‘ الفت‘ خیرخواہی اور اپنی گمشدہ چیزوں کے حصول کیلئے ایک انوکھا وظیفہ ہے۔ نفرت کو ختم کرنا حتیٰ کہ نفرت کی آگ کو بجھانے کیلئے اس سے بڑھ کر وظیفہ اور کہیں نہ ملے یا کہیں نہ پائیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں