لندن میں دس سے بارہ فیصد خواتین بانجھ پن کے مسئلے سے دو چار ہیں اور عین ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ خواتین ایسی ہوں جو کہ بچپن یا لڑکپن میں نہایت تنگ لباس پہنتی رہی ہوں
انسانی تہذیب کے آغاز پر لباس محض تن ڈھانپنے کیلئے استعمال ہوا۔ جس کے بعد دنیا بھر کے خطوں میں اسے تہذیب کا ایک بنیادی عنصر سمجھا جانے لگا۔ ہر معاشرے اور ہر علاقے میں مختلف لباس متعارف ہوئے جو ان علاقوں کی روایات کے عین مطابق تھے۔ حتیٰ کہ مردوں کے لباس میں ہر خطے اور ہر علاقے میں مختلف رہے ہیں اور یہ ان کی قومی پہچان بھی ہیں۔ مثلاً اب لباس دیکھ کر بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ فلاں شخص کا تعلق فلاں علاقے یا فلاں خطے سے ہے۔ ہمارے ہاں خواتین و مردوں میں ہمیشہ سے شلوار قمیص مقبول رہا ہے اور آزادی سے قبل بھی ہندو مسلم کی پہچان لباس سے ہوتی تھی۔ مثلا ہندو عورت ساڑھی اور مرد خاص قسم کی دھوتی اور کرتا پہنتا تھا جب کہ مسلمان مرد شلوار قمیص پائجامہ کرتا یا پھر طرہ دار پائجامہ اور شیروانی زیب تن کیا کرتا تھا۔ لباس میں یہ انفرادیت اور روایات جنوبی ایشیا کے مسلمان کی پہچان بن چکی ہے۔ مغرب میں ہمیشہ مردوں میں سوٹ اور خواتین میں میکسی یا ٹراوزر ز ہی مقبول رہا ہے۔ جس میں فیشن کے مطابق جدت و اختراع ہوتی رہی۔ یہاں کی خواتین کے لباس میں وہ شرم و حیات نظر نہیں آتی جو ہماری مشرق کی خاتون کے ہاں دکھائی دیتی ہے۔ یوں مغرب و مشرق کے درمیان لباس کے معاملے میں بھی زمین و آسمان کا فرق باقی رہا ہے۔ مگر پھر ایسا بھی ہوا کہ الیکٹرک اور پرنٹ میںمیڈیا نے پیرس (جو کہ لباس میں فیشن کا مرکز خیال کیا جاتا ہے) کے فیشن شو پوری دنیا میں دکھانے شروع کئے۔ اگرچہ ان کے لباس اور ان کی تراش خراش مشرقی لباس سے قطعی میل نہ کھاتے تھے۔ مگر پھر بھی فیشن کا یہ وائرس کسی نہ کسی طور مشرق کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے لگا۔ مثلاً پیرس کی لمبی پتلی ماڈلز نے جب تنگ و چست ٹروازر اور سکن ٹائٹ بلاوز پہنا تو وہ بڑی گلیمرس لگی اور اسے دیکھ کر مشرق کی متوالیاں بھی تنگ قمیص پہننے لگیں اور یوں کسی نہ کسی طور پیرس کے فیشن شو مشرق پر بھی اثر انداز ہونے لگے فیشن بدلتے رہے نت نئے انداز متعارف ہوتے رہے اور مغرب سے فیشن کی اٹھنے والی لہریں ہر بار مشرق کو متاثر کرتی رہیں۔ دوسری طرف مغرب کو ہر ہر چیز پر تحقیق کا بھی شوق ہے۔ چنانچہ ان دنوں ان کی تازہ تحقیق نے ایک بار تنگ و چست لباس کی دلدادہ خواتین کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق لڑکپن میں جو بچیاں نہایت تنگ لباس پہنتی ہیں۔ انہیں بعد کی کسی بھی عمر میں ایسا مرض لاحق ہوسکتا ہے جس کا نتیجہ بانجھ پن کی صورت میں نمودار ہوسکتا ہے۔ گویا تنگ کپڑے مضر صحت ہیں۔ اس تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ لندن میں دس سے بارہ فیصد خواتین بانجھ پن کے مسئلے سے دو چار ہیں اور عین ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ خواتین ایسی ہوں جو کہ بچپن یا لڑکپن میں نہایت تنگ لباس پہنتی رہی ہوں۔ تحقیق کرنے والوں نے یہ انتباہ کرتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ تنگ لباس سے اجتناب کیا جائے خاص طور پر ایام ماہواری کے دوران۔ کیونکہ ان دنوں میں تنگ لباس کے باعث جسم کے اندر ایسے خلیے پیدا ہوسکتے ہیں جو آگے جاکر بانجھ پن کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چست کپڑے و نب اور فلاپین ٹیوب پر دبائو بڑھاتے ہیں جو نقصان دہ ہے اور جونہی چست کپڑوں سے جسم آزاد ہوتا ہے یہ دبائو خودبخود کم ہو جاتا ہے۔ تنگ لباس کے نقصانات کے بارے میں ایک موقف یہ بھی اختیار کیا گیا ہے کہ ایسا لباس جسم کے اوپر جلد کے مسام کیلئے سانس لینے کا رستہ روکتا ہے۔ جسم تنائو اور کھچائو میں مبتلا رہتا ہے۔ اگرچہ ہماری مشرقی روایات میں تنگ لباس کی قطعی کوئی گنجائش نہیں۔ کیونکہ اسلام نے ہمیں سادہ اور ایسا ڈھیلا ڈھالا لباس پہننے کی تلقین کی ہے جس سے کہ جسم کی نمائش نہ ہو۔ مگر مغرب کی فیشن کی یلغار نے ہمیں کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ہے۔ اب ہمارے ہاں وہی کچھ فیشن اور ٹرینڈ خیال کیا جاتا ہے جو یورپ اور پیرس سے نقل شدہ ہے۔ آج کل بھی تنگ کپڑوں کا لباس فیشن کی زد میں ہے۔ جس میں خواتین کو بعض اوقات نہایت مشکل بھی ہوتی ہے۔ مگر فیشن ایک ایسا مرض ہے جو ہماری بیشتر نوجوان خواتین کے ساتھ چھوت کی طرح چپک کر رہ گیا ہے۔ بہرحال وہ مذکورہ تحقیق کے بعد شاید کچھ سوچنے پر مجبور ہوں اور فیشن کی اس بھیڑ چال سے نجات حاصل کرسکیں۔ بات کچھ بھی ہو لباس میں میانہ روی ایک اچھی عادت ہے اور جو لوگ میانہ روی کا راستہ اختیار کرتے ہیں وہ کبھی تنگ نہیں ہوتے۔ بلکہ بہت سی بدعتوں سے بچ جاتے ہیں۔ میانہ روی جہاں طرز عمل میں ضروری ہے وہاں لباس میں بھی بڑے اچھے نتائج مرتب کرسکتی ہے۔ روایت کی پاسداری کے ساتھ فیشن میں میانہ روی پر شاید دیکھنے والوں کو بھی اعتراض نہ ہو اور جسمانی طور پر بھی یہ طرز عمل برائے اثرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں