حضرت مولانا دامت برکاتہم العالیہ عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ان کی نامور شہرہ آفاق کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہٗ (پھلت)۔
وہ بڑے خوش قسمت تھے‘ ایک کے بعد ایک سال ان کو حج کی سعادت ملتی رہی‘ اللہ نے صحت بھی ان کو خوب دی اور عمر بھی ستاسی سال پورے ہونے کو تھے‘ ان کا یہ سترواں حج تھا۔ بہت مشہور ہے کہ حرم شریف حاضری پر ہر بار آدمی میں اشتیاق بڑھتا جاتا ہے۔ اس لیے انسٹھ کے بعد ستر ویں مرتبہ ان کا شوق آخری عروج پر تھا‘ حرم میں حاضری اس بار ان کے بڑے ناز کے انداز میں تھی‘ ان کو خیال تھا کہ شاید یہ سعادت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوئی ہوگی۔
وہ حج سے فارغ ہوکر طواف وداع کررہے تھے کہ طواف کرتے کرتے ان کا یہ حال یقین کو پہنچ گیا اور فخر سے اور بھی اکڑ کر چلنے لگے۔ مالک کائنات کو بھی اپنے گھر سترویں بار مہمانی کرنے والے مہمان پر ترس آیا اور ہوشیار کیا گیا‘ الہام ہوا: او بے ادب! یہ ستر ویں بار حاضری کا شرف کیا بڑی بات ہے اور اس میں تیرا کیا کمال ہے؟ وہ غفلت سے بیدار ہوئے۔ اپنے عجب نما ناز پر شرمندہ ہوئے۔ خیال کیا کہ میرے سارے حج بے کار ہوگئے‘ ان حجوں کو ایک روپے میں فروخت کردوں اور ان کو کسی غریب کو حرم میں صدقہ کرکے کچھ آخرت کا نفع کمالوں۔ انہوں نے اعلان کرنا شروع کیا‘ کوئی ہے جو میرے ستر حجوں کو ایک روپے کے بدلے خرید لے؟ لوگ ان کی آواز سنتے تو ہنستے تھے‘ خیال کرتے شاید کوئی دیوانہ پاگل ہے مگر ایک رمز آشنا بوڑھے نے آواز سنی‘ منہ پچکا کر جواب دیا: بڑا مہنگا بیچتا ہے۔ ستر حج کا ایک روپیہ کون دے گا‘ میں اپنے پچاسی حج دو دمڑیوں میں بیچ چکا ہوں۔
وہ بہت نادم ہوئےدل میں خیال آیا کہ تو بغداد کا شیخ سمجھا جاتا ہے‘ اندلس کا ایک بوڑھا پچاسی حج کرچکا ہے۔ ندامت اور شرم ساری سے شیخ ابوالحسن بغدادی نے مطاف میں اپنی پریشانی رکھ دی اور شرمندگی سے زارو قطار ہوکر ناک رگڑنے لگے: میرے مولیٰ ابوالحسن کے سترحجوں کی قیمت تو دو دمڑی بھی نہیں‘ میرا نفس ان پر عجب کرتا ہے‘ بس آپ ہی میری حفاظت فرماسکتے ہیں۔
کسی نیکی کو اللہ کی عطا اور بھیک سمجھ کر شکر کے جذبہ سے جھک جانا نیکی کی قبولیت کی علامت ہے اور کسی بڑے سے بڑے عمل کو ان اتیتہ علی علم من عندی ( یہ میری اپنی کوشش کا نتیجہ ہے) کہہ کر اپنی جانب نسبت کرنا اور اس پر عجب کرنا بڑی نادانی ہے۔ وحدہ لاشریک لہ رب کائنات کی ذات عالی کی جس بندے کو معرفت کا کوئی حصہ ملا ہوگا اسے ہر وقت یہ شرمندگی رہے گی کہ میں اس کی شایان شان کہاں اس کی اطاعت کرسکتا ہوں اور یہ نہیں کہ عبادت بلکہ کوئی اور بڑی سے بڑی دینی خدمت کی توفیق اس کے اندر مزید تواضع پیدا کردے گی۔
اپنے اسلام و ایمان اور توفیق پر ناز کرنے والے اعرابیوں کو قرآن حکیم نے کیا خوب نصیحت کی ہے: یمنون علیک ان اسلموا قل لاتمنو علی اسلامکم بل اللہ یمن علیکم ان ھدا کم اللایمان (الحجرات) ۔ یہ لوگ تم پر اسلام لانے کا احسان رکھتے ہیں‘ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم مجھ پر اپنے اسلام کا احسان مت رکھو بلکہ یہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے ایمان کی توفیق بخشی۔
حج کرنے والے ہر حاجی کو‘ نماز پڑھنے والے ہر نمازی کو‘ ذکر کرنے والے ہر ذاکر کو‘ سخاوت کی توفیق ملنے پر ہر سخی کو اور کسی دینی و دعوتی اور علمی خدمت کی توفیق سے سرفراز ہر خادم دین کو ہر لمحہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ مجھ سے کتنے اچھے لوگ اس زمین میں ایسے ہیں کہ اہلیت اور صلاحیت ہونے کے باوجود ان کو اللہ کی طرف سے اس کی توفیق نہیں ملی۔ مجھ پرمیرے اللہ کا اتنا بڑا احسان ہے کہ مجھے عدم استحقاق اور نااہلی کے باوجود یہ شرف بخشا ہے۔ یہ جذبہ شکران نعمت ہے جس پر توفیق کی زیادتی اور مقبولیت کا فیصلہ ہوتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں