روحانی منزل مری میں وہ پراسرار عجائبات اور حقائق جو اچانک افشاں ہوئےاور مخلوقات کی امانت ان تک پہنچائی جارہی ہے۔
روحانی منزل سالہا سال سے ایک خاموش روحانی انقلاب لائی اور وہ خاموش روحانی انقلاب یہ تھا کہ انسانیت کو وہاں سے ملنے والا انوکھا فیض اور انوکھی ترقی۔ کئی لوگوں نے یہاں تک بتایا ہمیں علم ہی نہیں تھا کہ روحانی منزل بھی اتنا کمال اور فیض رکھتی ہے اور روحانی منزل سے بھی اتنا مخلوق کو نفع مل سکتا ہے اور روحانی منزل میں بھی اتنا مسائل کا حل گھریلو الجھنوں کا حل‘ مشکلات پریشانیوں کا حل ہوسکتا ہے کیونکہ مری کا نام آتے ہی ذہن میں ایک بات آتی ہے کہ سیر وتفریح ہوگی اور نامعلوم کیا کچھ ہوگا‘ لیکن مری کا نام آتے ہی کتنے لوگ ایسے ہیں کہ ان کے دل و دماغ میں اب روحانی منزل کا ہی عکس اور نقشہ ہے جو کہ پی سی بھوربن کے بالکل سامنے ہے۔ ایک صاحب بتانے لگے: میں روحانی منزل صرف ایک رات ٹھہرا‘ یہ اس دور کی بات ہے جب اس کے نیچے والا حصہ ابھی مکمل ہوا تھا اوپر والا حصہ مکمل نہیں ہوا تھا۔ مجھے کسی نے بتایا کہ عبقری والوں کی روحانی منزل ہے پتہ نہیں میرے دل میں کیا آیا‘ گھر سے نکلا ہوا تھا قرض خواہ میرے پیچھے تھے‘ مشکلات اور مسائل نے مجھے گھیرا ہوا تھا‘ ایک وقت تھا گاڑی‘ بنگلہ‘ عزت وقار اور میں اپنے علاقہ کا چیئرمین اور میری سیاسی پوزیشن بہت مضبوط تھی‘ میرا وہ وقت بھی تھا جب بڑے بڑے افسران میرےگھر میں کھانا کھاتے‘ تصاویر کھنچواتے‘ حالات نے پلٹا کھایا ‘کچھ میری غلطی بھی میری زندگی میں ایک ایسی عورت آئی کہ اس نےمیری زندگی کا پانسا اور کایا پلٹ دی اور میں حقیقتوں سے دور ہوگیا‘ پھر آہستہ آہستہ میرا رقبہ‘ زمینیں بکنا شروع ہوئیں‘ صحت میں مجھے شوگر اور گھٹنوں کادرد بڑھ گیا۔ پھر میری بیوی نے میرا ساتھ چھوڑا اس نے بہت ساری جائیداد اپنے نام کروا لی وہ سمجھتی تھی کہ شاید میں نے جو دوسری شادی کی ہے‘ سب کچھ وہی لے اڑے گی‘ آہستہ آہستہ میں خالی اور کنگال ہوتا گیا‘ پہلے جیب نوٹوں سے بھری ہوتی تھی حتیٰ کہ میں نے بڑے بیٹے کی شادی جب کی تو میں نے ڈالروں کو نچھاور کیا اور لوگ حیران تھے ‘ شادی پر لوگوں کے گھر بہترین کھانا اعلیٰ ترین برتنوں میں بھیجا جن کے گھر کھانا بھیجا وہ برتن بھی انہی کو دے دئیے۔ میری شکار کی گاڑی علیحدہ تھی‘ گھر کے سامان اور خریداری کی گاڑی علیحدہ تھی‘ ہر بچے اور بیوی کی گاڑی علیحدہ تھی‘ نو کنال کے مکان میں میں رہتا تھا جس میں مختلف پورشن بنے ہوئے تھے مہمانوں کا آنا جانا لوگوں کا آنا جانا عموماً لگا رہتا تھا‘ آمدنی تھی‘ کاروبار تھا‘ زمیندارہ تھا‘ چوہدراہٹ تھی‘ چیئرمینی تھی‘ بس ایسے ہی کوئی ساڑھے چار سال کے عرصہ میں سب کچھ سمٹتاچلا گیا اور سب کچھ بکھرتا چلا گیا حتیٰ کہ میں بکھر گیا اور پھر میرا کوئی نہ رہا جو دوسری شادی کی تھی جب اس نے میرے حالات کمزور دیکھے‘ اس کا لہجہ اور رویہ بدل گیا اور اس کے انداز بدل گئے اور مجھے احساس ہوا کہ وہ کسی اور سے بھی رابطہ میں ہے‘ مجھے بہت افسوس ہوا اسی کی خاطر تو میں نے سب سے جنگ کی تھی اور سب سے دشمنی لی تھی‘ وہی میرا ساتھ چھوڑ گئی ۔پھر قرض خواہ میرے پیچھے پڑے اور مجھے قرضوں کا تقاضا کرنے لگے۔ میں پریشان تھا کیا کرتا آخر کار میں نے اپنی دیگر جائیداد بیچ کر قرض داروں کو دینا شروع کردی لیکن قرض ا تنا زیادہ اور اس کا سود اتنا بڑھ گیا کہ میں اپنی پوری جائیداد بیچ کر بھی کچھ نہ کرسکا۔ آہستہ آہستہ میں مزید کنگال ہوتا چلا گیا ‘اپنے چھوڑ گئے‘ دوست منہ موڑ گئے‘ یارانے ختم ہوگئے‘ میرا ڈیرہ ختم ہوگیا‘ ایک نقصان اور ہوا کہ میرا ایک بیٹا نشہ اور ہیروئن پرلگ گیا اور اس نے تاش کھیلنا شروع کردی اور جوا میںسب کچھ ہارنا شروع کیا۔ اس نے گھر کے صوفے فریجیں اور ایک گاڑی تک جوئے میں ہار دی اور نشہ میں سب کچھ ختم کردیا ۔ہر طرف سےنقصان ہوا میں نے دل کو نہ لگایا لیکن جس دن مجھے بیٹے کے نقصان کا پتہ چلا‘ پھر اچانک دل کا دورہ پڑا ڈیڑھ ماہ ہسپتال رہا کچھ لوگوں سے قرض لے کر ہسپتال کے اخراجات پورے کیے۔ حالات بد سے بدتر ہوگئے ‘مشکلات میں الجھتا چلا گیا ‘کئی بار خودکشی کرنے کی کوشش کی پھر ڈر جاتا تھا حتیٰ کہ گھر سے نکل پڑا‘ راولپنڈی کے ایک بازار میں ایک صاحب کے پاس چھپ کر آکر ملازمت کی‘ اس نے مجھے بارہ ہزار مہینے پر نوکر رکھ لیا اسے میرے گزشتہ حالات کی خبر نہ تھی کہ میں کیا تھا میرے حالات کیا تھے؟ میں کتنا عروج پاچکا تھا ایک دم آسمان سے گرا اور زوال میں آگیا۔ اسی دوران میں نے ایک بندہ سے سنا کہ جمعہ کا دن وہ مری میں کوئی جگہ ہے روحانی منزل وہاں جاکر رہتا ہے‘ بقول اس شخص کے وہاں بہت فیض ہے‘ دعائیں قبول ہوتی ہیں‘ اللہ تعالیٰ کے ولی جنات وہاں رہتےہیں‘ ان کی وہاں عبادات ہوتی ہیں اور وہ صلوٰۃ التسبیح اور یَافَتَّاحُ کا عمل بتاتے ہیں وہ ہر جمعہ جاتا تھا اور سارا دن وہی گزارتا تھا چونکہ جمعہ چھٹی تھی وہ بھی غریب آدمی تھا لیکن حالات کا مارا ہوا نہیں تھا وہ بس شروع سے غریب تھا میں تو شروع سے مالدار تھا‘ حالات نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ ایک دن میں بھی اس کے ساتھ گیا‘ روحانی منزل میں اس کےعلاوہ صرف ایک اور آدمی تھا اور کوئی نہیں تھا‘ بس ہم بیٹھے رہے‘ وہ تسبیح ذکر کرتا رہا‘ میرا خاص دل نہ لگا‘ میں نے ایک دو دفعہ تقاضا بھی کیا کہ آئیں واپس چلیں کہاں لے آیا ہے‘نہ کوئی دربار ہے‘ نہ کوئی ڈھول‘ نہ کوئی چادریں‘ نہ کوئی لنگر تقسیم ہورہا‘ خاموشی اور ویرانی ہے‘ وہ خاموش میری بات سنتا رہا‘آخر کار دن ڈوبے ہم راولپنڈی کیلئے روانہ ہوئے لیکن ایک چیز ہے میرے دل میں یہاں مایوسی وساوس سب کچھ تھا لیکن اک احساس ضرور تھا کہ میں نے اس بحران سے نکلنا ہے اور اس بحران سے نکل کر ملک و قوم کیلئے بھی کچھ کرنا اور جن کے (جاری ہے)
قرض دینے ان کے بھی قرض دینے ہیں اور اپنے گھر کو پھر سے بسانا ہے‘ کچھ تین چار دنوں کے بعد میرے اندر ایسے روحانی منزل کی بے تابی سے طلب پیدا ہوئی اور روحانی منزل کا ایک بس انقلاب آگیا میرا جی چاہے میں سب کچھ چھوڑ کر روحانی منزل جاکر بیٹھ جاؤ‘ پھر خیال آئے خرچہ کہاں سے لوں گا‘ کچھ نہ کچھ نوکری لگی ہے اپنا گزارا تو کررہا ہوں‘ آخر جمعہ کا دن آیا تو میں نے اس سے پہلے اپنے دوست کو کہنا شروع کردیا کہ روحانی منزل چلنا ہے اس نے تیکھی نظروں سے مجھے دیکھا۔ کہنے لگا: تمہیں کیا غرض ہے وہاں سے تم تو کہتے تھے واپس چلو کہنے لگا نہں میرا اندر کہہ رہا کہ وہاں کچھ ملے گا بس آخر وہ مجھے وہاں لے گیا بس روحانی منزل میں جاتے ہی مجھے احساس ہوا جیسے ماں کی گود ماں کی چھاؤں میں آگیا ہوں بچھڑا ہوا بچہ مامتا کو تلاش کرتا ہے ماں ماں پکارتا ہے میں اسی طرح بچھرا ہوا کسی سہارا اور یقین میں آگیا۔
مجھے صلوٰہ التسبیح کا تیسرا کلمہ نہیں آتا تھا میں نے اس سے سیکھ لیا میں نے صلوٰہ التسبیح پڑھی میری آنکھوں سےا ٓنسو نہں تھمتے تھے میرا اندر تڑپ رہا تھا مین نے اسی دن تین بار صلوٰہ التسبیح پڑھی اس کے علاوہ یافتاح تڑپ تڑپ کر مچل مچل کر پڑھ رہا تھا اندر سے ایک آواز آرہی تھی ایک ایسی خیر کی جگہ بڑی دیر سے پہنچا جہاں دنیا بہت فیض پاچکی اور پائے گی اور جہاں سے انسانیت کو بہت نفع ملے گا جہاں مسائل حل ہوئے ہیں اور ہوں گے اور مشکلات ٹلیں گی جہاں دکھ درد دور ہوئے ہیں اور جہاں جادو کی کاٹ کا اصل محور ہے۔
تو بندشوں مٰں جھکڑا ہوا ہے تیری راہیں بند ہیں تیرے راستے بند ہیں تجھے منزل بہ دور نظر آتی آج احساس ہوا کہ تجھے منزل ملی ہے تو جھے راستے ملے ہیں میرے اندر ایک آوازیں تھیں جو اٹھ رہی تھیں اور باتیں تھیں جوآرہی تھیں دل تھا کہ کہہ رہا تھا کہ بس جھے وہ منزل مل گئی ہےجس کی مجھے زندگی بھر سے تلاش تھی۔
پھر میں نے مسلسل وہاں جانا شروع کردی کبھی کوئی ایک فرد ہوتا کبھی کوئی بھی نہیں ہوتا تھا اور میں وہاں بیٹھا رہتا کیونکہ وہاں کھانا مہنگا تھا میں یہی سے کوئی چیز کھانا وغیرہ باندھ لیتا تھا وہیں کھاتا اور شام کو چلا آتا جو شخص مجھے لے گیا وہ بہت عرصہ سے جاہرا تھا کچھ ہفتے ہوئے مجھے نظر نہآیا ادھر ادھر پتہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ اپنا کام چھوڑ گیا کوئی سوا سال کے بعد ایک دفعہ مجھے ملا تو میں حیران ہوا کہ وہ بھی ایسے ملا کہ میں بازار مٰں جارہا تھا اپنا کام اور نوکری ختم کرکے ایک گاڑی میرے قریب آکر رکی مجھے آواز دے کر کہنے لگےکہا ٓو گٓڑی مین بیٹھو میں نے اس کو پہچان لیا میں نے جھجکتے ہوئے اس نے کہا نہیں آکر بیٹھ جاؤ میں نے کہا ڈرائیوری کرلی ہے‘ کہنے لگا پاگل بس بیٹھ جا یہ گاڑی بھی میری ہے آ تجھے اپنا گھر دکھاتا ہوں پھر وہ مجھے اسلام آباد کے بہترین بلاک میں اپنے گھر لے گیا ملازم نے گیٹ کھولا ہم بیٹھے میں پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا یہ وہی ہے جس کے کپڑے نہٰں تھے جوتا نہیں تھا کھانا نہیں تھا کبھی کبھی مجھ سے دس روپے ادھار بھی لے لیات اتھا اور میں کبھی میں اس سے بھی لے لیتا تھا پھر اس نے اپنے رنگے جانے اور کمال پانے کے مجھے واقعات سنانا شروع کیے کس طرح مجھے روحانی منزل کا بھاگ لگا فیض ملا اور نفع ملا۔ کس طرح روحانی منزل سے مجھے برکات ملیں اور کس طرح قدرت نے میرا ہاتھ پکڑا اور پھر تھوڑے ہی عرصہ میں رزق حلاال کا ایسا ذریعہ میرے ہاتھ آیا حالانکہ رزق حرام کے کئی ذرائع آئے میں نے چھوڑ دیا میں نے مولا سے ایک بات کہ کہ یااللہ صلوٰہ التسبیح اور یافتاح کا نتیجہ ہمیشہ رزق حلاال تمی ہوتا ہے میں نے حرام اہوں کو چھوڑا ہے اور ہمیشہ کیلئے چھوڑا ہے مجھ سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں اور میں ان غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہتا بس پھر قدرت نے میرے ساتھ وہ کرم کیا‘ اور وہ شفقت اور نوازش کی خود میں بھی حیران ہوں اور میری عقل بھی دنگ ہے اس کی اس حالت کو دیکھ کر میرا یقین اور بڑھ گیا لیکن ایک احساس تھا کہ مولا کہنے مجھے نیک بندہ بنا اورمجھ سےکچھ گناہ اوربرائیاں اور چھڑوا پھر تیرا جی چاہے تو مجھے دولت رزق دے ورنہ مولا دولترزق اس دنیا میں مل گیا اور تو اور تیرے حبیب کا در نہ ملا تو میں ناکام انسان ہوں! میں نے روحانی منزل اور جانا شروع کردیا پھر میں نے باقاعدہ نماز شروع کردی پھر عالم یہ ہوگیا کہ رات کو کوئی ایسا وقت ہوتا کوئی طاقت جیسے مجھے اٹھا دیتی میں نے تہجد لفظ سنا تھا لیکن تہجد پڑھنے کا علم ہی نہیں تھا۔ ٹوٹی پھوٹ جیسے بھی تھی پڑھی پڑھ لوگوں سے پوچھا کہ تہجد کیسے پڑھتی ہے انہوں نے طریقہ بتایاپھوٹ پھوٹ کر رونا اللہ نے مجھے آج نصیب ہوا مالک دکان نے میرے حالات بدلتے دیکھ کر مجھے اپنے مزید قریب کیا اس کا کاروبار بہت بڑا تھا لیکن اس نے مجھے صرف چائے بوتل صفائی جھاڑو پر رکھا ہوا تھا چونکہ میں خود بہت بڑا بزنس مین تھا ایک دفعہ اس نے مجھے اپنے قریب یٹھا کہنے لگےاپنے کوئی حالات سناؤ میں نے اسے اپنے حالات سنانے شروع کیے۔ اور وہ حیران ہوا پھر میں نے اپنے دوست بتائے ان میں سےا یک دوست ایسا تھا جو اس کا بھی جاننے والا تھا اس نے اسی وقت اس کو فون ملایا کہ فلاں شخص کو جانتے ہو اس نے کہا اچھی طرح جانتا ہو لیکن وہ اس وقت فرار ہے کئی لوگں کے پیسے کھائے ہوئے میں یہ چیز میں نے اپنے ہی اپنے م الک کو بتائی ہوئی تھی میں حالات کا مارا ہوا ہون۔۔۔
میں نے سچ میں ایک کرامت دکھائی جو حالات میں نے بتائے تھے وہی اس دوست نے بتائی تھی مالک دکان نے یہ نہیں بتایا کہ وہ دوست میرا نوکر ہے اس سے حالات سنتا رہا پھر اس سے سامنے بنچ سے اٹھا کر کہنے لگا کرسی پر بیٹھو اور کہا اتنے عرصہ سے میں نے تمہاری دیانت داری دیکھی ہے تمہارے کام کا سلیقہ دیکھا ہے آج کے بعد تم میرے منیجر ہو جب اس نے یہ لفظ منیجر کہا اچانک روحانی منزل کا وہ نیچے کا حصہ وہ تنہائی اور پھر وہ صلوٰۃ التسبیح اور یافتاح کا پڑھنا وہ سب کچھ سامنے آیا میرے آنسو گرپڑے اور میں اس کے قدموں میں بیٹھ گیا اور میں نے اس سے کہا آپ نے مجھے ایک پل میں جتنی عزت اوروقار دیا ہے میں وعدہ کرتا ہوں آپ کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاؤں گا پھر اعتماد بڑھتا گیا اس کا سارا کیش میرے پاس ہوتا تھا اس نے کئی بار مجھے آزمایا لیکن روحانی منزل کا فیض مجھے ہر دفعہ کامیاب کراتا چلا گیا اورمیری دیانت بڑھتی چلی گئی۔
میرا جی چاہتا ہے روحانی منزل کے درو دیوار چوموں اور میں چومتا ہوں اور میں ادب سے جاتا ہوں ادب سے رہتا ہوں ادب سے چلتا ہوں۔ میں وہاں جاکر انتظامات کا شکوہ نہیں کرتا بلہ کہتا ہوں اس در کا کتا ہوں کتے کو تو گرا پڑا ٹکڑا مل جائے تو وہ راضی ہوتا ہے مطمئن ہوتا ہے نہ ملے تو ہے تو کتا۔ پھر اس کے بعد قدرت نے میرے اوپر کیا فیض اور عنایات کی بارش کی یہ انوکھی کہانی ہے جو اس نے مجھے سنائی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں