کاش! شوہر اپنا حقوق ادا کریں۔ میری ایک منت ہے کہ جسے اسلام نے غیرمحرم قرار دیا ہے اس سے کبھی بھی تنہائی میں نہ ملیں‘ میں گیا تو اصلاح کرنے تھا مگر خود پھنس گیا۔ واقعی اسلام سچا ہے یہ جس چیز سے منع کرے اس پر آنکھیں بند کرکے عمل کریں۔
میری داستان ان شوہروں کے لیے ہے جو اپنی بیویوں کو پاؤں کی جوتی اور خود کو ان کا آقا و حاکم سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں۔ ایسے ہی حاکم میرے دور کے ماموں(میری والدہ کے کزن) بھی ہیں‘ جن کے اپنی اہلیہ سے ناروا سلوک نے ان کی اور میری زندگی تباہ و برباد کردی۔ میں آج کی تحریر بڑے حوصلے کے ساتھ لکھ رہا ہوں تاکہ قارئین پڑھیں اور سبق حاصل کریں اورآئندہ سے کوئی شخص یا کوئی عورت میری طرح برباد نہ ہو۔
ہوا کچھ یوں کہ میں خاندان کی ایک شادی کی تقریب میں شامل ہوا تو میری ایک دورکی ممانی جو مجھ سے چھ سال بڑی تھیں اور ان کے چھ بچے تھے‘ کم عمر میں شادی ہوگئی‘ ان کا فیملی پس منظر یہ تھا کہ ان کے اصل ماں باپ کا پتہ نہیں‘ ہسپتال سے ہی ایک عیسائی فیملی نے گود لے لیا‘ سوتیلی ماں نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دئیے‘ نوکرانیوں سے بھی بدتر سلوک کرتی‘ بات بات پر وحشیانہ تشدد کرتی‘ میری یہ ممانی بچپن سے ہی خوبصورت اور پرکشش تھی‘ ایک مرتبہ میرے دل پھینک ماموں کی نظر پڑگئی اور اس کے پیچھے پڑگئے‘ یہ محترمہ بھی اس وقت اپنائیت اور سہارا ڈھونڈرہی تھی‘ ماموں کی لگی لپٹی باتوں میں آئی اور سب کچھ چھوڑ کر ماموں کے پاس چلی آئی۔ پھر ماموں نے انہیں مسلمان کرکے شادی کرلی‘ کچھ دنوں بعد ہی ماموں نے اپنے رنگ دکھانا شروع کردئیے اور ممانی پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑدئیے‘ ممانی ماموں سے صرف اپنے حقوق مانگتی‘ شوہر کی ایک مسکراہٹ‘ توجہ کو ترستی اور آگے سے ماموں اسے خوب مارتے‘ بات بات پر غلیظ ترین گالیوں سےنوازتے اور خود باہر اپنی عیاشی کا ہر سامان کرتے‘ غیرعورتوں میں خوب مگن رہتے‘ حتیٰ کہ گھر میں غیرعورتوں کو لاکر ان کے سامنے ممانی کو خوب ذلیل کرتے اور بالوں سے پکڑ پکڑکر گھسیٹتے۔ منہ پر جوتے مارتے۔ بیوی خوبصورت تھی اور اپنا کردار خراب‘ جس وجہ سے خوب شک کرتے‘ بقول ممانی کے بچے تو چھ ہوگئے مگر ہمیشہ شوہر کی محبت اور توجہ سے محروم رہی۔ ہمیشہ روتی کہ جس کی خاطر سب کچھ چھوڑا اس نے میرا کیا حال کردیا۔ اب واپس اپنے موضوع پر آتا ہوں۔ شادی کی تقریب میں میری اس ممانی سے رسمی ملاقات ہوئی‘ اگلے دن ولیمہ تھا تو پھر سب اکٹھے ہوئے تو ممانی نے مجھے کہا کہ کل تم میرے گھر آنا مجھے تم سے ایک ضروری کام ہے‘ میں اگلے دن حاضر ہوگیا‘ انہوں نے اپنی مجھے تمام کہانی سنائی جو میں نے اوپر بیان کردی‘ ایک بات بتاتا چلوں میرے یہ ماموں(والدہ کے کزن) بالکل ایسے ہی ہیں اور پورے خاندان میں ان کی عیاشی کے ناپاک چرچے ہیں۔ ممانی نے اپنی تمام بات سنانے کے بعد آنسو پونچھتے ہوئے بتایا کہ اب مزید ظلم برداشت نہیں ہوتا میں چاہتی ہوں کہ تمہارے ماموں سے طلاق لے کر کسی دوسرے شخص سے شادی کرلوں‘ ایک شخص ہے جو مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے تمہیں اس کے بارے میں سب پتہ کرنا ہے کہ وہ کیسا ہے؟ ممانی کی یہ بات سن کر میرا دماغ گھوم گیا اور پھر خیال آیا کہ یہ سارا قصور ان کے شوہر کا ہے جن کے رویہ کی وجہ سے آج ان کی بیوی غیرمردوں میں دلچسپی لینا چاہ رہی ہے۔ خیر میں نے سوچا کہ میں نے ان کا دھیان اس گندی سوچ سے ہٹانا ہے۔ میں پھر ان کو خصوصی ٹائم دینا شروع ہوگیا‘ یوں ہمارا ایک دوستی کا رشتہ قائم ہوگیا اور پھر میں جو ان کو غلط راستے سے ہٹانے نکلا تھا خود بھی اسی راستے پر چل پڑا اور ہم گناہوں کی دلدل میں دھنسنا شروع ہوگئے۔ چند ماہ گناہوں کے مرتکب ہونے کے بعد انہوں نے کہا کہ مجھ سے شادی کرلو‘ میں نے کہا یہ ناممکن ہے کیونکہ میری شادی میرے ماں باپ کریں گے یہ ان کا حق ہے‘ تمہارے بچے ہیں معاشرہ کیا سوچے گا؟قارئین! میری زندگی تباہ و برباد ہوچکی ہے۔ میرا رزق‘ میرا چہرے کی رونق سب اجڑ چکا ہے‘ نوکری ختم دربدر کی ٹھوکریں کھارہا ہوں‘ گناہ کبیرہ مجھے کھاگیا ہے۔ میرا ایک جگہ نکاح ہوا‘ انہیں کسی نے اس رشتے کی بھنک ڈال دی‘ انہوں نے اسی وقت کورٹ میں کیس دائر کردیا اور مجھے طلاق دینا پڑی۔ میری معاشرے میں عزت ختم ہوچکی ہے۔ آج ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا میں نے تمام رابطہ منقطع کردیا ہے‘ عبقری پڑھنا شروع کیا‘ درس سنے‘ زندگی میں ایک ٹھہراؤ آگیا ہے۔ گزشتہ زندگی (باقی صفحہ نمبر 54 پر)
(بقیہ: شوہر کی بے توجہگی نے میری زندگی تباہ کر ڈالی)
سے رو رو کر توبہ کرتا ہوں‘ تنہائیوں میں اپنا منہ نوچتا ہوں‘ سر پیٹتا ہوں کہ میں کیا کرتا رہا؟ میرا کیا بنے گا؟۔ کاش! شوہر اپنے حقوق ادا کریں۔ میری ایک منت ہے کہ کبھی بھی غیرعورت جسے اسلام نے غیرمحرم قرار دیا ہے اس سے کبھی بھی تنہائی میں نہ ملیں‘ میں گیا تو اصلاح کرنے تھا مگر خود پھنس گیا۔ واقعی اسلام سچا ہے یہ جس چیز سے منع کرے اس پر آنکھیں بند کرکے عمل کریں۔ کہیں میری طرح خود کو دھوکہ دیتے دیتے برباد نہ ہوجائیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں