سات سال کے بعد اچانک ایک آدمی (ا) کے پاس آیا اور کہا کہ تمہارے والد بہت بیمار ہیں اور تم کو بلا رہے ہیں‘ (ا) نے اتنا سننا تھا کہ اسی حالت میں دوڑا اور والد کے دروازے پر جاکر خود کو روکا‘ کانپتے بدن کے ساتھ گھر میں داخل ہوا اور باپ کے قدموں سے لپٹ گیا
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! آج قارئین عبقری کیلئے ناانصافی کا ایک واقعہ لکھ رہا ہوں‘ اس واقعہ کو لکھتے ہوئے‘ جسے سن کر میں سوچ میں پڑگیا کہ کیا والدین اور بہن بھائی بھی ناانصافی کرسکتے ہیں‘میں ایک ہومیوڈاکٹر ہوں اس لیے میرے پاس اکثر مریض آتے رہتے ہیں‘ ایک مریض میرے پاس آیا جس کا میں یہ واقعہ تحریر کررہا ہوں۔ اس کا نام (ا) ہے یہ واقعہ اس کے ساتھ 1996ء میں پیش آیا اور اس نے خود بتایا۔ (ا) ایک شریف اور مخلص انسان تھا‘ ماں باپ کی خدمت کرنا‘ مزدوری کرتا تھا‘ جب اس کی شادی ہوئی تو ایک دن اس کے والدین نے کہا کہ بیٹا تم اب ہمارا علیحدہ خرچہ مقرر کردو یعنی ہر جمعہ کو ایک مقررہ رقم ہمیں دیا کرو‘ یہ سن کر (ا) نے ادب کے ساتھ کہا کہ میں مزدوری کرتا ہوں‘ آمدنی مقرر نہیں کرسکتا‘ آپ کو جتنے پیسوں کی ضرورت ہو مجھ سے روزانہ لے لیا کریں‘ اس کے دوسرے بہن بھائیوں نے اپنے والدین کے کان بھرنا شروع کردئیے انہوں نے والدین کو یہاں تک (ا) کے خلاف کردیا کہ انہوں نے (ا) سے کہا کہ تم گھر سے نکل جاؤ‘ (ا) نے کہا کہ ابو مجھے جیسے ہی کوئی گھر ملے گا میں گھر چھوڑ کر چلا جاؤں گا جب اس کے بہن اور بھائیوں نے دیکھا کہ یہ گھر چھوڑ کر نہیں جارہا تو انہوں نے والدین سے کہا کہ آپ بھائی کو عاق کردیں اور پھر وہ خود ہی گھر سے نکل جائے گا۔ والد نے اپنے بیٹے (ا) کو عاق کردیا اور گھر سے نکال دیا۔ محلے والوں کو جب معلوم ہوا کہ تو سب اس باپ کے پاس آئے اور کہا کہ تم اپنے سب سے فرمانبردار اور غریب بیٹے کے ساتھ زیادتی کررہے ہو‘ اگر تم کہو تو ہم تم باپ بیٹے کی صلح کروا دیتے ہیں‘ مگر وہ باپ نہ مانا‘ اسی طرح چند ہمدردوں نے (ا) سے دلی ہمدردی کی کہ تمہارے ساتھ ظلم ہوا ہے‘ (ا) نے کہا کہ میرا اللہ میرے ساتھ ہے‘ میرا اللہ سب دیکھ رہا ہے‘ اس کے بعد (ا) گھر سے چلا گیا‘ چار سال کے اندر اللہ تعالیٰ نے (ا) کو سب کچھ دے دیا‘ جب اس کے والدین نے اسے گھر سے نکالا تھا اس کے کچھ ہی عرصہ کے بعد ہی (ا) کے والد سیڑھیوں سے نیچے گرگئے اور ان کی کمر پر شدید چوٹ لگی اور وہ سہارا لے کر چلنے لگے مگر اپنے غریب بیٹے کو بتایا تک نہیں‘ اسی طرح سات سال گزر گئے‘ سات سال تک (ا) نے پیچھے گھر والوں کی طرف رخ نہ کیا‘ اور نہ ہی کبھی والدین یا بھائیوں نے اس کی خیرخبر لی۔ (ا) اندر اندر ماں باپ‘ بہن بھائیوں کی جدائی میں آنسو بہاتا رہتا تھا۔ سات سال کے بعد اچانک ایک آدمی (ا) کے پاس آیا اور کہا کہ تمہارے والد بہت بیمار ہیں اور تم کو بلا رہے ہیں‘ (ا) نے اتنا سننا تھا کہ اسی حالت میں دوڑا اور والد کے دروازے پر جاکر خود کو روکا‘ کانپتے بدن کے ساتھ گھر میں داخل ہوا اور باپ کے قدموں سے لپٹ گیا‘ والد چارپائی سے اٹھ نہ سکتا تھا‘ والد نے کانپتے ہاتھوں سے (ا) کا ہاتھ پکڑااور ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے لگا‘ اور کہا کہ بیٹا مجھے معاف کردو‘ میں نے تمہارے ساتھ بہت ظلم کیا ہے‘ جب سے تمہیں گھر سے نکالا ہے مجھ پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹتے رہے مگر میں اپنی اکڑ میں رہا‘ تم مجھے معاف کردو‘ میں دوسروں کی باتوں میں آگیا اور اپنے سب سے فرمانبردار بیٹے کو گھر سے نکال دیا‘ (ا) والد سے روتے ہوئے لپٹ گیا اور کہا ابو آپ مجھے شرمندہ کررہے ہیں‘ میں کون ہوتا ہوں آپ کو معاف کرنے والا بلکہ آپ مجھے معاف کردیں‘ میں آپ کی خدمت نہ کرسکا۔ کافی دیر گفت و شنید کے بعد (ا) گھر واپس آگیا۔ چار دن کے بعد پھر والد نے بلایا اور معافی مانگی (ا) نے کہا ابوجان معاف کرنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے‘ اس کے دو دن بعد (ا) کے والد کا انتقال ہوگیا کچھ دن کے بعد اس کے بھائی بھی (ا) کے پاس آئے اور آکر معافی مانگی اور کہا کہ بھائی جب سے آپ کو گھر سے نکالا ہے ہماری پریشانیاں بڑھی ہیں‘ ایک پریشانی جاتی ہے تو دوسری گھیر لیتی ہے‘ ہمارے گھر میں بیماریوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں‘ کاروبار تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے‘آپ ہمیں معاف کردیں اور آکر اپنا کمرہ سنبھال لیں‘ (ا) نے سب کو معاف کردیا مگر واپس اس گھر میں جانے کی ہامی نہ بھری اور کہا اب میں علیحدہ اپنے گھر میں خوش و خرم زندگی گزار رہا ہوں آپ کو وہ گھر مبارک ہو اللہ تعالیٰ آپ کو خوشیاں اور ترقیاں عطا فرمائے۔ رہی بات میرے حصے کی تو مجھے اس گھر سے کوئی حصہ نہیں چاہیے۔ آپ بھائی آپس میں بانٹ لیں۔ اس کے بعد وہ بھائی بھی اب خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔
قارئین! یہ سن کر میں لکھنے پر مجبور ہوگیا کہ آج کل کے والدین بچوں کے ساتھ واقعی ناانصافی کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سب کے ساتھ برابر کا سلوک کرو کسی میں بھی فرق نہ کرو‘ اگر بچے رب کے حضور جواب دہ ہوں گے کہ انہوں نے والدین کی خدمت صحیح نہیں کی تو والدین بھی اللہ تعالیٰ حضور جواب دہ ہوں گے انہوں نے بچوں میں فرق کیوں کیا؟ ان کی پرورش صحیح طریقے سے کیوں نہ کی؟۔میں ماہنامہ عبقری میں صرف اس لیے لکھ رہا ہوں کہ شاید اس کے پڑھنے سے والدین اپنے بچوں کے ساتھ برابر کا سلوک کرنا شروع کردیں اور ان کو بھی آخرت یاد آجائے کیونکہ آج کل تو خون ہی سفید ہوگیا ہے۔ آپ نے وہ کہاوت تو سنی ہوگی کہ اللہ رب العزت کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے۔ یہ اس واقعہ پر پوری اترتی ہے۔ (نعیم اقبال ‘ ملتان)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں