وہ کون سے عوامل ہیں جو شوہرحضرات کو گھر سے باہر رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کچھ خواتین کی عادت ہوتی ہے بیماری کو اپنے اوپر حاوی رکھنے کی۔ کہیں خواتین گھریلو پریشانی سے تنگ آکر سارا غصہ بچوں کو مار کر نکالتی ہیں۔ اس شور شرابے، ہنگامے سے بچنے کے لئے بے چارے شوہر کو باہر پناہ ڈھونڈنی پڑتی ہے۔
کیا گھر سے دور رہنا بہترہے؟:اکثر دیکھا گیا ہے کہ شوہر حضرات دفتری وقت کے علاوہ اپنا وقت اہلخانہ کے ساتھ گزارنے کی بجائے دوستوں یا اِدھر اُدھر بیٹھ کر گزار دیتے ہیں۔ خواتین کی طرح مرد حضرات بھی مختلف فطرت کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ خواتین پر منحصر ہوتا ہے کہ انہوں نے گھر کا ماحول کسی قسم کا رکھا ہے۔ بعض گھرانوں کا ماحول ایسا ہوتا ہے کہ وہاں کے مردوں کو گھر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے اور بعض جگہ شوہر دفتری وقت کے علاوہ دوستوں کے ساتھ یا اور کوئی مصروفیات نکال کر صرف سونے کے لئے گھر جاتے ہیں یعنی کہ وہ گھر کے ماحول سے گھبراتے ہیں کوشش کرتے ہیں کہ جتناگھر سے دور رہیں اچھا ہے۔چڑچڑی بہو کا کمال:کہیں مل جل کر رہنے کا رواج ہوتا ہے۔ کئی بھائی، بھابھیاں والدین کے ساتھ مل کر رہتے ہیں۔ ایک نئی بہو آکر سارے خاندان میں ہلچل مچا دیتی ہے جس طرح ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکر مارنے سے ارتعاش پیدا ہوتا ہے اسی طرح چڑچڑی بہو سب کو ناکوں چنے چبوادیتی ہے۔ نتیجتاً گھر کا سکون تباہ و برباد ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے گھر کے مرد باہر سکون ڈھونڈتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ گھر کا ماحول کس قسم کا ہوگا۔ اگر دفتر سے جلدی گھر جانا پڑے تو وہ دوست احباب کے ساتھ بیٹھ کر وقت گزارنا زیادہ پسند کرتے ہیں جس گھر میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں وہاں بیماریاں زیادہ پنپتی ہیں۔ سب لوگ ٹینشن زدہ ہوتے ہیں۔ کچھ مرد حضرات بیویوں کی آئے دن کے فرمائشی پروگرام سے پریشان رہتے ہیں۔ کچھ خواتین کو شاپنگ کا جنون ہوتا ہے بعض دفعہ وہ اس سلسلے میں حد سے تجاوز کر جاتی ہیں جس سے
گھر کے ماحول میں تنائو پیدا ہو جاتا ہے۔ شوہر کی روک ٹوک ایسی شاپنگ زدہ خواتین کوناساز گزرتی ہے۔ گھر کا ماحول خواب ہوتا ہے جس سے شوہر گھبرا کر باہر وقت زیادہ گزارنا پسند کرتا ہے یا ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیوی کے نت نئے فرمائشی پروگرام کے لئے شوہر کو اوورٹائم بھی کرنا پڑتا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ محنت کرتا ہے کہ گھر کا خرچ پورا ہوسکے۔ اس کی وجہ سے ایسے شوہروں کو گھر گھر نہیں ایک سرائے خانہ لگتا ہے۔ چند گھڑی آرام کیا پھر کام پر نکل کھڑے ہوئے۔ کچھ خواتین کو دعوتیں کرنے کا بہت شوق ہوتا ہے روز روز پارٹیاں دعوتیں کرنے میں وہ اپنی شان سمجھتی ہیں۔ ان کے دوست احباب میکے والوں کی آمدو رفت ہر وقت رہتی ہے۔ شوہر سوچتا ہے کہ صبح کا تھکاہارا جب گھر جائوں گا تو گھر میں بھی آرام نہیں ملے گا اس سے اچھا باہر بیٹھ کر وقت گزارا جائے۔ اس سے تمام الجھن سے بچ جائیں گے۔ضرور کوئی گڑبڑ ہے!:مرد حضرات کو عادت نہیں ہوتی کہ وہ اپنی پورے دن کی روداد بیوی کو آکر سنائے۔ باہر کئی قسم کے مسائل ہوتے ہیں جن سے انہیں گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی پریشان بھی ہوتے ہیں کبھی خاموش۔ اب بیوی کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں، ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ وہ ٹوہ میں لگ جاتی ہے کہ کہیں نہ کہیں پکڑ ہوگی۔ کہیں شوہر ذرا ذرا سی بات اپنی بیوی کو بتاتے ہیں اس طرح کے شوہر سکون سے رہتے ہیں۔تلاشی جیب:اکثر بیویوں کو شوہر کی جیب کی تلاشی لینے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسی بیویوں کے شوہر چالاک ہوتے ہیں وہ اپنی بیوی کی عادت سے واقف ہوتے ہیں۔ وہ جیب صاف کرکے گھر میں داخل ہوتے ہیںاگر غلطی سے بیوی کے ہاتھ کوئی چیز لگ جائے تو شوہر کی شامت آجاتی ہے۔ویک اینڈ میکے گزاروں گی:بیویوںکو ویک اینڈ میکے میں گزارنے کا جنون ہوتا ہے۔ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے وہ میکے ضرور جائیں گی۔ اب پورے ہفتہ میں سخت کام اور ذہنی ٹینشن کے بعد جو چھٹی آتی ہے وہ شوہر کو اورتنہا کردیتی ہے۔ وہ بھی وقت گزارنے کے لئے باہر نکل جاتا ہے۔ کہیں ہر سال بچوں کے اضافے سے گھر گویا مچھلی مارکیٹ کا منظر پیش کرتا ہے۔ اسی شور شرابے سے بچنے کے لئے شوہر باہر نکل جاتے ہیں۔ کہیں بیوی کے میکے والوں کا آنا جانا زیادہ ہوتا ہے۔ شوہر بیچارہ کرکٹ کا بارہواں کھلاڑی لگتا ہے مجبوراً وہ باہر نکل جاتا ہے۔
گھومنے پھرنے کی آزادی: اکثر شوہروں کی شادی سے پہلے گھومنے پھرنے کی آزادی یا عادت شادی کے بعد بھی نہیں بدل سکتی۔ وہ گھر بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں اور وقت ملتے ہی دوست احباب میں ملنے چلے جاتے ہیں۔ انہیں گھر کے ماحول سےزیادہ باہر کے ماحول میں سکون ملتا ہے جو بھی وقت ملتا ہے وہ یار دوستوں میں بیٹھ کر گزارنا اپنی شان سمجھتے ہیں۔ کچھ شوہروں کو ویک اینڈ پر شکار کھیلنے کا بہت مزہ آتا ہے۔ دوست مل کر ایک جگہ جمع ہوکر کوئی کھیل کھیلتے ہیں یعنی انہیں فیملی سے الگ انجوائے کرنے میں مزہ آتا ہے۔ ان کی فیملی پورا ہفتہ انتظار میں رہتی ہے کہ چھٹی آئے گی ہم بھی کہیں جائیں گے مگر ایسے لوگ اپنی فیملی سے الگ زیادہ خوش رہتے ہیں۔ بیوی کا پھوہڑپن: کہیں بیوی کی پھوہڑپن کی وجہ سے گھر ہر وقت بکھرا رہتا ہے، بچے بھی گندے پھر رہے ہوتے ہیں، کوئی چیز جگہ پر نہیں ملتی۔ شوہر کو دفتر جاتے ہوئے ایک ایک چیز خود ڈھونڈنی پڑتی ہے۔ کبھی تنگ آکر بیوی کو اپنی اس پریشانی کا بتاتا بھی ہے مگر کوئی اثر نہیں پڑتا مجبوراً وہ خاموش رہتا ہے۔ اگر بیوی زبان دراز ہوتی ہے تو بات بات پر چیخنے لگتی ہے۔ کہیں شوہر بھی مقابلہ کرتے ہیں۔ گھر گویا جنگ کا میدان بن جاتا ہے۔شوہروں کی عادات بد: بعض شوہروں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنی چیز جگہ پر نہیں رکھتے۔ دفتر سے آنے پر اور جانے کے بعد تمام استعمال کی اشیاء جگہ جگہ بکھری رہتی ہیں جس کو بیوی سمیٹتے سمیٹے تنگ آجاتی ہے مجبوراً وہ لڑنا شروع کردیتی ہے۔ دیر تک سونے کی عادت:بعض بیویوں کو کچھ زیادہ ہی سونے کی عادت ہوتی ہے۔ وہ صبح دیر سے سوکر اٹھتی ہیں دوپہر کو لازمی سوئیں گی چاہے کچھ ہو جائے۔ چھٹی کے دن بھی سونا ضروری ہوگا۔ شوہر کو عادت نہیں ہوتی، وہ کیا کرے اس لئے گھر سے باہر دوستوں میں چلا جاتا ہے۔
عورت کی ازدواجی زندگی
سید اصغر محمود
ایک لڑکی اس وقت نہایت عجیب صورتحال کا شکار ہوتی ہے جب وہ اپنے والدین کا گھر چھوڑ کر سسرال کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے اور ماں باپ کا گھر بھی ہنسی خوشی نہیں بلکہ رسم دنیا موقعہ اور دستور کے تحت چھوڑتی ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی ذات کسی اور کے حوالے کرتی ہے۔ اس موقعہ پر سسرال کا طرز عمل اس کی آئندہ زندگی پر اہم اثرات مرتب کرتے۔ وہ یہاں بھی اسی ماحول کی خواہشمند ہوتی ہے جو اس کے والدین کے گھر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے وہ عمر کا ایک حصہ وہیں گزرتی ہے وہاں کے دکھ سکھ آسائش تکلیف رونقیں عزیز و اقارب اسے بار بار یاد آتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں اگر سسرال کا تعاون حاصل ہوتو اس کے لئے خود کو اس ماحول میں ڈھالنا بہت آسان ہے۔ لیکن اگر صورتحال برعکس ہوتو وہ ہمیشہ دوچکی کے پاٹوں کے درمیان پستی رہتی ہے۔ اس طرح ساس وہ ماں کے روئیے کا تقاضا کرتی ہے۔ جو اپنے آپ کو ناجانے کسی بل بوتے پر برتر اور اعلیٰ سمجھتی ہیں اس لڑکی کو یہ باور کرانے کی کوششیں کی جاتی ہیں کہ سسرال اور میکے میں بہت فرق ہے۔ اس کی چھوٹی سی چھوٹی غلطی کو نوٹ کرکے طنزو تشنیع کے تیر برسائے جاتے ہیں۔ جبکہ میکے سے ملےن والے جہیز کو لوٹ کا مال سمجھ کر بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ لڑکی کو اور ملائم سمجھ کر کولہو کے بیل کی طرح کام کروایا جاتا ہے ایک اہم بات یہ کہ اس کی کبھی تعریف نہیں کی جاتی یہ المیہ درالمیہ ہے کہ کسی دوسرے کی خوبی اور اچھائی کو ماننے میں ہم ہمیشہ تامل کا شکار رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے جب تک کسی کو دل سے تسلیم نہ کیا جائے اور مانانہ جائے خوشگوار تعلقات پیدا ہو ہی نہیں سکتے۔ یہاں بعض شوہر حضرات بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شادی کرکے سب سے بڑا اور آخری عظیم کام انجام دے دیا گیا ہے۔ لہٰذا اب ان کے تمام ذاتی کام اسی حوا کی بیٹی کے سر ہوں گے۔ جو محض بہو ہونے یک سزا بھگتتی ہے۔ مردوں کو اپنے سب حقوق پورا کروانے کا زعم ہوتا ہے اور وہ فرائض جو بیوی سے متعلق ہوتے ہیں ان کا کوئی ہوش نہیں ہوتا۔ذرا سوچئے۔ کہ ہم جو دین اسلام کے دعویدار سنتوں کے پاسدار حج و عمروں کے علمبردار خود کو باعمل مومن سمجھتے ہیں اپنے قول اور فعل میں اسقدر تضاد کیوں رکھتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں