ورزش شروع کرنے سے پہلے خوب اچھی طرح سوچ کر دل میں اسے باقاعدہ جاری رکھنے کا پختہ عزم کیجئے اور پھر یہ بھی اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے کہ اس کے فائدے فوری طور پر ظاہر نہیں ہوں گے۔ ذہنی طور پر اس تیاری کے بعد ورزش کا آغازکیجئے۔
سید رشید الدین احمد
خوشی اور مسرت کیا ہے؟ اس کی تعریف کرنا بہت مشکل ہے۔ بالکل اسی طرح یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ صحت کیا ہے؟ صحت کی قدر اور اہمیت کا اندازہ بیمار پڑنے کے بعد ہی ہوتا ہے جب تک ہم صحت مند اور توانا رہتے ہیں‘ نہ غذائی اجزا کی اہمیت ہوتی ہے اور نہ ورزش کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح اچھی صحت کیلئے کچھ بلکہ اکثر افراد اچھی مرغن غذائیں ضروری سمجھتے ہیں تو کچھ ورزش کو اچھی صحت کی ضمانت قرار دیتے ہیں۔ بعض اسے محض ذہن کا نتیجہ سمجھتے ہیں یعنی اگر آپ خود کو صحت مند سمجھتے ہیں تو صحت ٹھیک رہتی ہے اور اگر بیمار سمجھتے ہیں تو یقیناً بیماری‘ کمزوری آپ کا مقدر قرار پاتی ہے۔
سوچ کا یہ انداز درست نہیں ہے جس طرح غذا کے علاوہ صاف پانی‘ صاف ہوا اور صاف ذہن و فکر لازمی ہیں‘ ورزش بھی اچھی صحت کیلئے ضروری ہوتی ہے۔ محض کھانے سے صحت ٹھیک نہیں رہتی اور صرف ورزش بھی صحت و توانائی کی ضامن نہیں ہوسکتی۔
ورزش بے شک بہت ضروری ہے‘ لیکن اس کی لازمی اور بنیادی شرط جس میں توانائی اور طاقت کی موجودگی ہے اس کے بغیر ورزش نہیں ہوسکتی‘ اس لیے بچپن‘ لڑکپن اور جوانی میں بھوک کھل کر لگتی ہے تو خوب کھیلنے بھاگنے کو بھی جی چاہتا ہے۔ جو لوگ یہ تقاضے پورے کرتے ہیں‘ عرصے تک ان کے جسم میں طاقت و توانائی کا ذخیرہ موجود رہتا ہے۔
اس توانائی یا طاقت کو اصطلاحاً دم‘ جان‘ قوت برداشت‘ یا اسٹیمنا بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے بغیر کسی قسم کی جسمانی مشقت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بڑے بوڑھے اسی لیے کہتے ہیں کہ بچوں کو جان بنانا چاہیے‘ انہیں قوت بخش غذاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی ورزش و جسمانی مشقت کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہیے۔
دم یاجان کیا ہے؟ یہ ایک خاص وقت تک جسم کی تواتر کے ساتھ ورزش کرنے کی صلاحیت کا نام ہے اور ہمیں یہ صلاحیت بخشنے میں ہمارے پھیپھڑے‘ قلب اور خون کی شریانیں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان تینوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مربوط اور ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ایک طبی ماہر کے مطابق کسی بھی ورزش کا انحصار‘ چاہے وہ گھر کے قریبی مرکز خریداری تک چل کر جانا ہو یا ایک گھنٹے کی گھڑسواری ہو‘ قوت برداشت پر ہوتا ہے۔ آپ میں یہ طاقت کم ہے تو پھر وہ قدم چلنا بھی دشوار ہوگا اور اگر یہ طاقت یا سکت خوب ہے تو گھڑسواری جیسی ورزش بھی آسان لگے گی۔
آرام کے مقابلے میں سخت ورزش کے دوران ہمارے عضلات یا پٹھے تیس گنا زیادہ توانائی استعمال کرتے ہیں اور اس توانائی کے لانے کیلئے انہیں زیادہ توانائی اور کسی جن کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ خود پٹھوں میں بہت کم آکسیجن جمع یا ذخیرہ رہتی ہے‘ اسی لیے انہیں زیادہ مقدار میں آکسیجن کی فراہمی کیلئے قلب کی رفتار بڑھ جاتی ہے اور ہم زیادہ تیزی کے ساتھ سانس لینے لگتے ہیں۔
مثلاً ورزش سیکھنے سے پہلے آپ کے دل کی دھڑکن 120 دھڑکن فی منٹ ہوسکتی ہے اور پھر یہی رفتار ورزش سیکھنے اور اس کے عادی ہوجانے کے بعد گھٹ کر 120 فی منٹ ہوسکتی ہے جبکہ ورزش کے دوران آپ اتنی ہی مقدار میں آکسیجن جذب کررہے ہوں گے لیکن چونکہ اس دوران آپ کی قوت برداشت میں اضافہ ہوچکا ہوگا اس لیے قلب کی رفتار 120 دھڑکن فی منٹ ہوجائے گی۔
قوت برداشت میں اس اضافے کے پورے جسم پر بڑے خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہر قسم کی جسمانی مشقت کیلئے زیادہ کوشش درکار نہیں ہوگی اور آپ زیادہ عرصے تک یہ محنت کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ اس طرح آپ تھکیں گے بھی دیر سے۔ ورزش کرنے والا صحت مند انسان ورزش نہ کرنے والے شخص کے مقابلے میں اپنے عضلات (پٹھوں) کو تین گنازیادہ آکسیجن فراہم کرسکتا ہے۔
آپ آج کل ائربک ورزشوں کا نام اکثر سنتے یا پڑھتے ہوں گے۔ اس کے معنی ’’ہوا یا آکسیجن کے ساتھ‘‘ ہوتے ہیں۔ جسمانی مشقت اور ورزش کے دوران عضلات کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس توانائی کی بہتر فراہمی کیلئے آکسیجن ضروری ہوتی ہے۔
کسی بھی ورزش کے دوران چاہیے وہ سائیکلنگ ہو یا تیز قدمی یا جوگنگ‘ پہلے پٹھے سکڑتے ہیں اور پھر پھیلتے ہیں۔ جب یہ سکڑتے ہیں تو خون کی رگیں بھینچتی ہیں جس سے پٹھوں کو خون کی فراہمی رک جاتی ہے اورجب یہ پھیلتی ہے تو انہیں خون کی فراہمی ہونے لگتی ہے اور یہی خون انہیں آکسیجن فراہم کرتا ہے۔
تیز قدمی‘ جاگنگ‘ سائیکلنگ اور تیراکی جیسی ورزشیں ائربک کہلاتی ہیں۔ ویسے ورزش چاہے کوئی ہو‘ اس کے دوران سانس لینے کا عمل مسلسل اور باقاعدگی کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔ صدیوں پرانی چینی ورزشوں اور یوگا آسن کے دوران بھی سانس لینے کا عمل مسلسل باقاعدہ جاری رکھنے پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ سانس تواتر اور تسلسل سے نہ لینے کی صورت میں پٹھوں کو آکسیجن کی فراہمی گھٹ جائے گی اور یوں آپ بہت جلد تھک کر نڈھال ہوجائیں گے۔
لہٰذا ورزش شروع کرنے سے پہلے خوب اچھی طرح سوچ کر دل میں اسے باقاعدہ جاری رکھنے کا پختہ عزم کیجئے اور پھر یہ بھی اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے کہ اس کے فائدے فوری طور پر ظاہر نہیں ہوں گے۔ ذہنی طور پر اس تیاری کے بعد ورزش کا آغازکیجئے۔شروع میں اس کی رفتار کم رکھئے۔ آپ کے عضلات یا پٹھے رفتہ رفتہ سکڑنے اور پھیلنے کے عادی ہوتے جائیں گے۔ اس طرح ان میں آکسیجن کی فراہمی بھی بڑھتی جائے گی۔ جس سے آپ کی قوت برداشت میں مسلسل اضافہ ہوتاجائے گا اور آپ تھکن کے بغیر زیادہ سے زیادہ ورزش کرنے کے قابل ہوتے چلے جائیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں