بعض لوگ ناواقفیت یا غفلت سے استہزاء و تمسخر کو مزاح (خوش طبعی) میں داخل سمجھ کر اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں حالانکہ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ مزاح جائز جو آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے‘ اس کی شرط یہ ہے کہ اس میں کوئی بات خلاف واقعہ زبان سے نہ نکلے اور کسی کی دل آزاری نہ ہو
محمد رفیع رحیم اللہ
کسی مسلمان کے ساتھ استہزا و تمسخر یہ کبیرہ گناہ ہے اور کرنے والے کا کوئی دنیوی معاشی فائدہ بھی اس میں نہیں مگر عام مسلمان غفلت و بے پروائی سے اس میں مبتلا ہیں‘ قرآن کریم میں حکم ہے۔ ترجمہ: کوئی جماعت کسی کے ساتھ تمسخر نہ کرے شاید وہ اللہ کے نزدیک ان سے بہتر ہوں۔ استہزاء کے معنی یہ ہیں کہ کسی کی اہانت و تحقیر اور اس کے عیب کا اظہار اس طرح کیا جائے جس سے لوگ ہنسیں اس میں بہت سی صورتیں داخل ہیں مثلاً: کسی کے چلنے پھرنے‘ اٹھنے بیٹھنے‘ ہنسنے اور بولنے وغیرہ کی نقل اتارنا یا قد و قامت اور شکل وصورت کی نقل اتارنا۔ اس کے کسی قول و فعل پر ہنسنا۔ آنکھ یا ہاتھ پیر کے اشارہ سے اس کے عیب کا اظہار کرنا‘ یہ وہ گناہ بے لذت ہیں جو آج کل مسلمانوں میں وبا کی طرح پھیلے ہوئے ہیں‘ عوام سے لے کر خواص تک ان میں مبتلا ہوجاتے ہیں‘ حالانکہ قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت میں ان کا حرام ہونا صاف مذکور ہے اور دوسری جگہ ارشاد ہے یعنی خرابی ہے‘ ہر طعنہ دینے عیب چننے کی اور آیت کریمہ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ صغیرہ سے مراد کسی مسلمان پر ستہزاء سے تبسم کرنا اور کبیرہ سے اس پر قہقہ لگانا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے کسی انسان کی نقل اتاری تو نبی کریم ﷺ نے (منع فرمایا) اور ارشاد فرمایا کہ مجھے تو کوئی بڑی سے بڑی دولت بھی کسی کی نقل اتارنے پر ملے تو میں کبھی نہ اتاروں۔ اس میں اشارہ اس کی طرف بھی ہوسکتا ہے کہ یہ گناہ ایسا بے لذت اور بے فائدہ ہے کہ اس میں کوئی فائدہ بھی نہیں اور بالفرض کوئی فائدہ ہوتا بھی جب بھی اس کے پاس نہ جانا ہی تھا۔
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ دوسرے لوگوں کا استہزا کرتے ہیں(مذاق اڑاتے ہیں) آخرت میں ان کیلئے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور اس کی طرف بلایا جائے گا اور جب وہ سسکتا سسکتا ہوا وہاں پہنچے گا تو دروازہ بند کردیا جائے گا‘ پھر دوسرا دروازہ کھولا جائے گا اور اس کی طرف بلایا جائے گا جب وہاں پہنچے گا تو بند کردیا جائے گا۔ اسی طرح برابر جنت کے دروازے کھولے اور بند کیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ مایوس ہوجائے گا اور بلانے پر جنت کے دروازہ کی طرف نہ جائے گا۔ (راوہ البیہقی مرسلا ترغیب المنذری)۔
ایک شخص کی ریح آواز کے ساتھ صادر ہوگئی لوگ ہنسنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے اس پر خطبہ میں زجرو تنبیہ فرمائی اور فرمایا جو کام تم سب خود بھی کرتے ہو اس سے کیوں ہنستے ہو اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کسی شخص کو اس کے گناہوں پر عار دلائے‘ وہ اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک خود اس گناہ میں مبتلا نہ ہوجائے۔ احمد بن منبع فرماتے ہیں کہ اس جگہ گناہ سے وہ گناہ مراد ہیں جن سے توبہ کرلی گئی ہو۔ (ترمذی از تخریج احیاء)
تنبیہ: بعض لوگ ناواقفیت یا غفلت سے استہزاء و تمسخر کو مزاح (خوش طبعی) میں داخل سمجھ کر اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں حالانکہ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ مزاح جائز جو آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے‘ اس کی شرط یہ ہے کہ اس میں کوئی بات خلاف واقعہ زبان سے نہ نکلے اور کسی کی دل آزاری نہ ہو اور وہ بھی مشغلہ اور عادت نہ بنے‘ کبھی کبھی اتفاقاً ہوجائے۔ (احیاء العلوم)۔
استہزاء و تمسخر جس میں مخاطب کی دل آزاری یقینی ہے وہ باجماع حرام ہے(زوار۲۔۱۸) اس کا مزاح جائز میں داخل سمجھنا گناہ بھی ہے اور جہالت بھی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں