امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے تاجر تھے۔ اکثر شہروں میں ان کی ایجنسیاں قائم تھیں۔ ان کا بڑے بڑے تاجروں سے معاملہ رہتا تھا اور لاکھوں کا لین دین ہوتا تھا۔ اس قدروسیع کاروبار کے ساتھ احتیاط اتنی برتتے تھے کہ ان کے خزانہ میں ایک پائی بھی ناجائز طور پر داخل نہ ہوسکتی تھی۔
منشی عبدالرحمان خان
نبی کریم ﷺ کی ایک پیشن گوئی کے مطابق یہ وہ زمانہ ہے کہ سود کے اثرات سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ تمام ترتجارت بینکوں کے ذریعے سے ہوتی ہے جہاں سودی لین دین ہوتا ہے۔ اکثر مسلمان سرمایہ دار اور صاحب ثروت بھی بغیر سود کسی کو قرض نہیں دیتے اور بعض تو یہودیوں سے بھی زیادہ سود لیتے ہیں۔ سود کے بغیر کاروبار چلانا ناممکن بتایا جاتا ہے مگر زمانہ رفتہ میں کروڑوں روپوں کا لین دین‘ تجارت اور قرض بغیر سود کے چلتا تھا۔
چوتھی صدی ہجری کا سیاح ابن حوقل جہاں گردی کرتے ہوئے جب مغربی افریقہ کی آخری حد بادغشت میں پہنچا تو اس نے وہاں اربوں روپے کی تجارت اور بلاسود قرضوں کے لین دین کا رواج دیکھا اور ان کی دستاویز تک پڑھیں۔ چنانچہ وہ ایک بلاسود قرض کی نسبت اپنی ڈائری میں لکھتا ہے: ’’میں نے ایک رسیدِ قرضہ بادغشت میں دیکھی جو محمدبن ابی سعدون کے قرض سے متعلق تھی۔ اس پر عادل گواہوں کی گواہیاں ثبت تھیں۔ اس رسید کی رقم 42 ہزار اشرفیاں تھیں۔‘‘ ایک روایت کے مطابق غوری نے آخری دفعہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ سے قرض لے کر ہندوستان پر چڑھائی کی تھی۔ عالم گیر کے لڑکے مراد بخش‘ گورنر گجرات نے ایک مرتبہ حاجی پیر محمدزاہد علی سے چھ لاکھ کا قرض لیا۔ یہ سب قرضے بلاسود تھے۔ اتنی کثیررقم کے قرض حسنہ کسی ضمانت اور رجسٹری وغیرہ کے بغیر آج کل ملنا تو ناممکن ہے۔ اس زمانہ میں لین دین سود کے منافع کے لالچ کے بجائے آخرت کے فائدے کے پیش نظر ہوتا تھا۔ نیت نیک ہوتی تھی‘ حاجت مندوں کی دعائیں شامل حال ہوتی تھیں جس سے کاروبار چمکتا تھا اور روپیہ بھی محفوظ رہتا تھا۔ ایسی تجارتِ آخرت کا اس زمانہ میں لین دین عام تھا۔
امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے تاجر تھے۔ اکثر شہروں میں ان کی ایجنسیاں قائم تھیں۔ ان کا بڑے بڑے تاجروں سے معاملہ رہتا تھا اور لاکھوں کا لین دین ہوتا تھا۔ اس قدروسیع کاروبار کے ساتھ احتیاط اتنی برتتے تھے کہ ان کے خزانہ میں ایک پائی بھی ناجائز طور پر داخل نہ ہوسکتی تھی۔ اس احتیاط کے باعث اگر کبھی نقصان بھی ہوجاتا تو ملول نہ ہوتے تھے۔ ان کے اپنے کارندوں کو اس بات کی سخت ہدایت تھی کہ عیب دار تھان‘ خریدار کو دکھلا اور جتلا کر بیچنا۔ ایک دفعہ حفص بن عبدالرحمان کو یہ ہدایت یاد نہ رہی اور اس نے عیب و ثواب بتلائے بغیر خز کے تھان فروخت کردیے۔ امام صاحب کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو انہیں بہت افسوس ہوا۔ کفارہ کی اور تو کوئی صورت نظر نہ آئی کیونکہ تھان ایسا شخص لے گیا تھا جس کا اتہ پتہ معلوم نہ تھا اس لیے آپ نے ان تھانوں کی قیمت جو تیس ہزار درہم تھی‘ خیرات کردی تاکہ آخرت میں کوئی مواخذہ نہ ہو۔ ایک اور موقع پر ایک عورت امام صاحب کے پاس خز کا ایک تھان برائے فروخت لائی‘ امام صاحب نے دام پوچھے تو اس نے دو درہم مانگے۔ امام صاحب نے کہا کہ یہ کم ہیں۔ اس نے کہا تو دو سو دے دیجئے۔ آپ نے فرمایا تھان پانچ سو سے کم کا نہیں ہے۔ اس پر عورت نے کہا کیا آپ ہنسی تو نہیں کررہے؟ امام صاحب نے کہا نہیں اور پانچ سو درہم اپنے پاس سےدے کر تھان رکھ لیا۔ ان کے پیش نظر ہمیشہ آخرت کی تجارت رہی تاکہ کسی غلط کاری کا وہاں کوئی خمیازہ نہ بھگتنا پڑے۔ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ بھی تجارت کے وقت آخرت کو پیش نظر رکھتے تھے۔ آپ ذاتی مفاد کی بجائے خریدار کے مفاد کو ترجیح دیتے تھے۔ ایک مرتبہ انہیں جرجرایا کی اراضی سے مال گزاری میں انگوروں کی کافی مقدار آئی۔ کچھ لوگوں نےا س کا افشردہ نکالنا چاہا تاکہ ان کی جلد نکاسی ہوجائے۔ ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے ایسا کرنے سے منع کیا اور کہا کہ انہیں منقیٰ بنا کر بیچو۔ کارندوں نے کہا کہ اس طرح ان کی نکاسی ممکن نہیں جس پر آپ نے سب انگوروں کو پانی میں پھینکوا کر ضائع کرادیا تاکہ لوگوں تک ایسی چیز نہ پہنچے جو حرام شکل اختیار کرچکی ہو۔ لین دین میں بسا اوقات لوگ کھوٹے سکے دے جاتے تھے۔ آپ کو جونہی ان کا علم ہوتا انہیں دوسروں کومڑھنے کے بجائے خود الگ کرکے رکھ دیتے تھے۔ چنانچہ آپ کی وفات پر ایسے پانچ سو کھوٹے سکے ایک جگہ جمع شدہ ملے۔گزشتہ صدیوں میں مسلمان دنیا کی تجارت پر ایسے حاوی تھے جیسے اس دور میں امریکہ اور برطانیہ کا طوطی بول رہا ہے۔
دنیا کا کوئی گوشتہ ایسا نہ تھا جہاں مسلمان نہ پہنچے ہوں اس دور کے کاروبار کا آج کی منڈیاں مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ اردبیل سے مراغہ جاتے ہوئے راستہ میں ایک منزل کورسرہ پڑتی تھی۔ یہاں سالانہ چاند کی ابتدائی تاریخوں میں تجارتی میلے لگا کرتے تھے۔ ان میلوں میں مختلف قوموں کے تجارتی لوگ شرکت کرتے تھے اور کپڑے‘ عطر‘ سرکہ‘ روشنی کے سامان‘ ٹھٹھیرے‘ سونا‘ چاندی‘ گھوڑے‘ خچر‘ گدھے‘ گائے‘ بیل‘ بھیڑ‘ بکریوں کی تجارت کرتے۔ میلہ کا یہ میدان نومربع میل سے زائد رقبہ پر پھیلا ہوا تھا اور بقول ابن حوقل جہاں گرد‘ حج کے موقع پر جس قدر ہجوم اور سازو سامان میدان عرفات میں جمع ہوتا تھا یہاں اس سے زیادہ جمع ہوتا اور حج کی یاد تازہ ہوجاتی تھی۔ کاروبار کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ ابواسحاق ماجروانی نے صرف اس میلہ میں ایک سال دو لاکھ جانور بیچے۔ ابومحمد عبدالرحمان ابن السری نے اسی میلہ میں دس لاکھ بھیڑ بکریاں فروخت کیں۔ اسی میلہ میں ایک دوسرے تاجر شعیب بن میران نے بھی اسی قدر جانور بیچے۔
مصر سے نکل کر صحرائے لیبیا کے مشہور شہر قیروان کو جاتے ہوئے راستے میں برقہ کے شہر سے گزرنا پڑتا تھا۔ یہ ایک تجارتی مرکز تھا۔ اس شہر میں اون ‘سیاہ مرچ‘ شہد‘ موم‘ روغن زیتون وغیرہ کی تجارت ہوتی تھی۔ یہاں بکثرت تاجروں اور دوسرے ممالک کے لوگوں کو ہروقت اور ہر زمانہ میں آمدورفت رہتی تھی۔ یہ سلسلہ آمدورفت کبھی منقطع نہ ہوتا تھا۔ اس شہر کے راستوں پر قافلوں پر قافلے ملتے تھے جو تمام تر مسلمانوں کی قوتِ عمل اور نیک نیتی کی کرامات تھیں۔اگلے وقتوں میں تجارت عروج پر تھی‘ معاملات میں نیک نیتی برتی جاتی تھی‘ اس لیے تجارت و بیوپار میں بڑی برکت تھی۔ دولت عام تھی‘ خیروخیرات بڑی تھی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین زیادہ تر تجارت پیشہ تھے اور ان کی نظر یوم آخرت پر رہتی تھی تاکہ وہاں کوئی خسارہ نہ اٹھانا پڑے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہٗ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں فیاض مشہور تھے۔ انہوں نے اپنی وفات پر بارہ لاکھ درہم نقد اور تین کروڑ کی جائیداد چھوڑی۔ ابن سعد کی ایک روایت کے مطابق آپ کے گھر سے تین بھار (بھار گائے کے چمڑے کو کہتے ہیں) وزنی سونا نکلا۔
مشہور صحابی تاجر حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی وفات پر ان کی چاروں بیویوں میں تقسیم کیلئے جب سونا کاٹا گیا تو کاٹنے والوں کے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے۔ ہر بیوی کو اسی اسی ہزار اشرفیاں ملیں۔ باقی حصہ داروں کے حصص کا تو شمار نہیں۔ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی دولت موجودحساب سے پینتیس ہزار ملین تھی۔ یہ تو دور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دولت کا حال ہے ان سے بعد کے زمانہ کی یہ کیفیت تھی کہ خلیفہ مقتدرباللہ کے زمانہ میں الجصاص جوہری کی خانہ تلاشی سے ایک کروڑ آٹھ لاکھ اشرفیاں برآمد ہوئیں‘ دکان کے مال اور دیگر اموال کا تو شمار ہی نہیں۔ الفخری کے ایک بیان کے مطابق خلیفہ معتصم باللہ کے زمانہ کے ایک چکی پیسنے والے نے بصرہ سے نقل مکانی کرکے جب بغداد میں کاروبار شروع کیا اس سے اسے اتنی آمدن ہوئی کہ ایک سو اشرفی روزانہ زکوٰۃ کی مد میں خیرات کرتا تھا۔ایران کے قدیم تجارتی بندرگاہ سیراف کے ایک تاجر نے اپنے پاس موجود مال کی وصیت کی تو اس کا ثلث دس لاکھ اشرفیوں پر مشتمل تھا۔ بے زر لوگوں کو تجارت کیلئے اس نے جو سرمایہ دے رکھا تھا وہ اس کے علاوہ تھا۔عدن کے سوداگر رامشت کے سب سے چھوٹے لڑکے موسیٰ کے زیراستعمال چاندی کے آلات کا جب وزن کیا گیا تو وہ ایک ہزار دو سو من نکلے۔ باقی لڑکوں اور اس کے گھر کی دولت اس کے علاوہ تھی۔ اس کے منشی علی نیل کو ایک مرتبہ صرف چین میں مال بیچنے کا منشیانہ پانچ لاکھ دینار ملا۔مآثر الامراء کے ایک بیان کے مطابق عالم گیر کے زمانہ میں سوات کے ایک ملا عبدالغفور کا سرمایہ تجارت کروڑوں روپے سے زائد تھا۔ یہ وہ اعدادو شمار ہیں جن پر زکوٰۃ ادا ہوتی تھی اور یہ اسی تجارت اور ثروت کا نتیجہ تھا کہ ایک زمانہ میں مستحقین زکوٰۃ تلاش کے باوجود نہیں ملتے تھے۔ (بشکریہ: فیض الالسلام راولپنڈی)۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں