سوجان سے اس پروردگار کے قربان جاؤں جس نے 10 فروری 2012ء کو دوبارہ ارض مقدس پر بلالیا۔ اب تو ہر ماہ آپﷺ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہونے لگا۔ اس طرح کبھی پاکستان اور کبھی سعودی عرب کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ لیکن تسبیح کا ساتھ نہیں چھوٹنے دیتی
نسرین غیاث‘ بہاولنگر
مدینہ منورہ کی گلیاں ہوں‘ مکہ مکرمہ کی فضائیں ہوں اور لبیک کی صدائیں ہوں‘ ہرمسلمان اس خواہش میں دست بادعا رہتا ہے۔ میں گنہگار بھی اس ارمان کو دل میں لیے بے چین رہتی‘ نہ مال و زر کی فراوانی تھی‘ نہ کوئی حسن عمل تھا نہ امید نہ تدبیر۔ بس شوق جنون ہی مقبولیت کا ذریعہ بنا۔ 20 اپریل 2008ء کا سورج خوشی اور مسرت کا پیامبر تھا۔ اس دن عمرے کی سعادت کو گھر سے روانہ ہوئے۔ 21 اپریل کو حرم پاک کی مقدس زمین پر قدم رکھے۔ ڈگمگاتے پاؤں‘ منتشر خیالات‘ مجرمانہ حرکات اور عالم بے یقین‘ جلال و جمال میں مدہوش طواف اور عمرے کرتے پلک جھپکتے ہی 28 دن گزر گئے۔ بارہا غور کیا یہ سب کیسے ممکن ہوا۔۔۔؟؟؟ ہم کیسے یہاں پہنچے۔۔۔؟؟؟ دل نے ایک ہی گواہی دی کہ لبیک اللھم لبیک کی تسبیح یہاں تک کھینچ لائی۔ تقریباً 8 یا 10 سال قبل کسی سے سنا تھا کہ جو کوئی 100 بار لبیک اللھم لبیک مکمل تسبیح پڑھے گا اس کی حاضری پکی ہے۔ یہ بات میرے دل و دماغ پر چھاگئی‘ یقین کامل ہوگیا‘ وقت کا دھارا نشیب و فراز سے گزرتا گیا‘ کئی ماہ و سال بیت گئے۔ نماز فجر یا تہجد کے بعد میرا معمول بن گیا‘ کچھ لمحے‘ کچھ دیر میں خیالوں میں حرم پاک چلی جاتی‘ اس دوران خواب میں گنبد خضریٰ ﷺ بھی دیکھا۔ خانہ کعبہ کے برآمدے میں نماز پڑھتے بھی دیکھا۔ الحمدللہ! دل نے کہا تمہاری رسائی یہاں تک یعنی خوابوں تک ہی ہے لیکن اس شان کریمی پر قربان۔۔۔ جس نے حقیقتاً اپنی نگری میں بلالیا۔ میرا پختہ یقین ہے کہ نہ دولت سے نہ کوشش سے بس اس کی رضا اور اس بابرکت تسبیح کی بدولت حاضری یقینی ہے۔ واپس آکر بھی میں نے تسبیح کا ورد جاری رکھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتی ہوں کہ اس ذات مطلق نے اپنی بے پایاں رحمتوں کا سہارا دے کر اس ناچیز کو عمرہ اورمقامات مقدسہ کی زیارتوں سے نوازا لیکن حرمین شریفین کے بابرکت سفر کی تمنائیں اور تڑپ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اس لیے تسبیح کو جاری رکھا کہ شاید یہ حسرت پھر رنگ لائیں اور قسمت کو ان فلک بوس رفعتوں کا سفر نصیب ہوجائے۔ سال گزرتے گئے آرزو گدگدی لیتی رہی‘ جب ’’بڑی امید ہے سرکارﷺ قدموں میں بلائیں گے‘‘ نعت سنتی اندر ایک روحانی اور ایمانی لہر دوڑ جاتی‘ دل و دماغ سے دنیاوی خیالات کافور ہوجاتے اور خود کو روضہ رسول ﷺ اورگنبد خضریٰ ﷺ چھاؤں میں پائی اور شوق زیارت اور بھی تیزی سے چٹکلیاں لینے لگتا۔ یونہی چار سال کا طویل عرصہ بیت گیا پھر معجزانہ طور پر میرے بیٹے کو دبئی سے سعودی عرب ریاض میں جاب مل گئی وہ 16 جولائی 2011ء کو سعودیہ کی سرزمین پر تھا‘ یوں امید کی کرنیں روشن رہنے لگیں۔ اسے فیملی ویزہ بھی مل گیا۔ سوجان سے اس پروردگار کے قربان جاؤں جس نے 10 فروری 2012ء کو دوبارہ ارض مقدس پر بلالیا۔ اب تو ہر ماہ آپﷺ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہونے لگا۔ اس طرح کبھی پاکستان اور کبھی سعودی عرب کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ لیکن تسبیح کا ساتھ نہیں چھوٹنے دیتی تاکہ ایمان افروز ساعتوں سے زندگی معمور رہے۔ آمین۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں