جب والدین اپنے چار سے دس برس کے بچوں کے منہ سے گالیاں‘ قسمیں اور معیوب زبان سنتے ہیں تو انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی بے خیالی یا نظراندازی نے پانی سر سے اونچا کردیا ہے۔ ’’پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘
فاروق انصاری
بچہ والدین کی پرچھائیں ہوتا ہے‘ وہ زندگی کا ہر بنیادی طرز عمل گھر سے سیکھتا ہے۔ ہمارے مذہب میں بچے کے پیدا ہونے پر اس کے کان میں اذان یعنی اللہ کا نام پکارا جاتا ہے تاکہ بچہ زندگی کا پہلا لفظ سنے تو اپنے تخلیق کرنے والے کو پہچانے‘ اس کے کان میں والدین کے جملے‘ باتیں اور گالم گلوچ بھی پڑتی ہیں۔ یہ سب ان پٹ اور آؤٹ پٹ کا معاملہ ہے‘ جو کچھ بچے کے کان میں ان پٹ ہوگا اس کے ہونٹوں سے آؤٹ پٹ کی صورت سے باہر نکل آئے گا۔ بچہ جو کچھ اپنے بڑوں سےسنتا ہے اس کے ذہن پر نقش ہوجاتا ہے اور پھر موقع محل ہو یا نہ ہو وہ انہی الفاظ کو دہرا دیتا ہے۔ خوف انسان کی جبلت میں شامل ہے‘ بچے کو بُری باتوں اور بُرے کاموں سے روکنے کیلئے اور اوائل عمر سے اسے ڈرایا جاتا ہے ’’یہ نہ کرو ورنہ بابا مارے گا۔۔۔ یا اگر تم یہ کروگے تو اللہ تعالیٰ سزا دیں گے‘‘ اسی طرح بچے سے کوئی سچ اگلوانا ہو تو اسے اللہ کی قسم دلوانا بھی بڑے یا والدین سکھاتے ہیں؟
بچہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے وہ اللہ اور بابا کے خوف کو بھولتا جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس کی‘ کی گئی غلطیوں پر کبھی اللہ یا بابا نہیں آئے لیکن وہ اللہ کی قسم کو اپنی حفاظت یا بچت کیلئے استعمال کرتا ہے‘ چھوٹی عمر میں بچے کو جھوٹ کے نقصان سمجھانا ایسا ہی ہے جیسا ہمالیہ کی چوٹی سر کرنا۔۔۔ لہٰذا کوئی بھی شرارت بچہ کرتا ہے اور قسم کھا کر اس سے انکار کرتا اور جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔
گھر میں اگر زائد بچے ہوں اور ان کے درمیان عمر کا فرق کم ہو تو ان کی آپس کی لڑائی اور گالم گلوچ کا طرز عمل ان کے والدین کے برعکس بن کر سامنے آتا ہے اور جب والدین اپنے چار سے دس برس کے بچوں کے منہ سے گالیاں‘ قسمیں اور معیوب زبان سنتے ہیں تو انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی بے خیالی یا نظراندازی نے پانی سر سے اونچا کردیا ہے۔ ’’پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘ کی مصداق اپنے بچوں کو بدگوئی سے بچانا عقدہ لایخل ہوتا ہے اور پھر یہ سوچ کر اس کی تربیت پر گامزن ہوجاتے ہیں جس میں دیر تو ہوگئی ہے لیکن بہت زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ کیا آپ والدین نے اس رخ پرکبھی سوچا ہے یا نہیں! تو آج ہی سے اپنے بچوں پر نظر رکھیے اور مشاہدہ کیجئے کہ آپ سے کوتاہی کہاں ہوئی؟ کیا آپ کے بچے نے یہ بدگوئی آپ سے سیکھی ہے یا۔۔۔
بچوں کی گفتگو جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ان کے ماحول اور اردگرد موجود لوگوں‘ والدین یا بڑوں کی گفتگو کے برعکس ہوتی ہے بچے اس تناظر میں توجہ حاصل کرنے کیلئے بھی ان جملوں کا استعمال کرتے ہیں جو بڑے اکثر بولتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ والدین انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں جو اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں بہت فکرمند اور ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان والدین کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی ماہر نفسیات سے پیشہ ورانہ مدد لے سکیں۔ والدین کے آپس میں نوک جھونک‘ طعنہ زنی‘ گالم گلوچ یا غصے کی حالت میں برا بھلا کہنا‘ بچوں کو نہ صرف سراسمیہ کرتا ہے بلکہ وہ دماغی تناؤ کی صورت میں لاشعوری طور پر ان الفاظ کو دہراتے ہیں اور جب وہ کسی بات پر غصہ کرتے ہیں تو ان الفاظ کو دہرا دیتے ہیں اس قسم کے روئیے کو ماہر نفسیات Conduct Disorder کہتے ہیں۔ خراب روئیے اور خراب زبان کا استعمال بچے‘ والدین یا اساتذہ کے بھرپور کنٹرول کے باوجود بھی کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں اس قسم کے کیس میں بچہ گالم گلوچ کے علاوہ دوسری خراب عادتیں بھی سیکھتا ہے۔
ریسرچ بتاتی ہے کہ اس قسم کے بچوں میں نیوکیمیکل کی سطح کم ہوتی ہے جو ان مسائل کو پیدا کرتی ہے۔ ذہنی دباؤ‘ اداسی اور عدم تحفظ بچوں کو تنگ مزاج بنادیتا ہے۔
بچے میں منفی علامتوں کا سدباب والدین کے بس کی بات نہیں ہے۔ انہیں لازمی امر کے طور پر بچے کو ماہر نفسیات یا مشورہ ساز کو دکھانا ہوگا۔ وہ والدین جن میں ماہر نفسیات یا مشورہ سازوں کو بھاری بھرکم معاوضے دینے کی سکت نہیں ہوتی ان کیلئے کچھ ہدایات ہیں لیکن پہلے بچوں میں بُری عادات پر نظر دوڑائیے۔ آپ کو میڈیا کے بُرے اثرات کا بچے کے ذہن پر پڑنے کا بخوبی ادارک ہونا چاہیے۔ بچوں میں بڑوں کا یا اپنے پسندیدہ ہیروز کی نقل کرنے کا رجحان ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے پسندیدہ کارٹون کرداروں کی نقل کرنا بھی پسند کرتے ہیں۔
بچے گفتگو کا بہت سا حصہ اپنی آیاؤں‘ سکول بس ڈرائیور‘ گھر میں کام کاج کرنے والی نوکرانیوں یا ماسیوں سے سیکھتے ہیں اور اس طرح اپنے پڑوس یا پڑوسیوں سے بھی خراب الفاظ سیکھتے ہیں۔بہت سے تہذیب یافتہ والدین بھی منہ پھٹ ہوتے ہیں۔ وہ نوکروں یا ڈرائیوروں کو گالم گلوچ سے نوازتے ہیں جس سے بچے بھی ان الفاظ کا استعمال سیکھتے ہیں۔اس کے سدباب کیلئے سب سے پہلے والدین کو خود ٹھیک ہونا پڑے گا۔ کبھی بھی بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑا نہ کریں‘ نہ ہی بچے کے سامنے کبھی کسی کو گالی دیں‘ اگر آپ کے گھر میں ٹی وی ہے تو بچوں کو ساتھ بٹھا کر کبھی نہ دیکھیں۔
ان بچوں کی اچھی طرح جانچ پڑتال کریں جن کے ساتھ آپ کے بچے محلے میں کھیلتے ہیں اگر وہ گالی نکالتےہیں یا بدتمیز ہیں تو اپنے بچوں کو ان کے ساتھ کبھی بھی کھیلنے نہ جانے دیں بلکہ تھوڑا سا وقت نکال کر خود ان کے ساتھ باہر جاکر کھیل لیں یا گھر میں کوئی ایسا انتظام کرلیں کہ بچے آپ کے ساتھ گھر میں ہی کھیل کود کر وقت گزار لیں۔ بچے کے سکول میں ہر ہفتے بعد جائیں اور اس کی ٹیچر یا سکول کی پرنسپل سے بچے کے بارے میں مکمل رپورٹ لیں اور بچے کا رویہ پوچھیں؟
بچوں کو ہر روز کم از کم آدھا گھنٹہ دیں اور اس آدھے گھنٹے میں بچوں کو اصلاحی کہانیاں سنائیں اور حضور نبی اکرم ﷺ اور صحابہ اکرام اور اولیاء اکرام کے اخلاق کے حوالے سے اچھے اچھے واقعات سنائیں۔انشاء اللہ ان درج بالا چند باتوں پر عمل کرنے سے آپ کا بچہ گالم گلوچ اور بدزبانی سے بہت جلد نجات پاجائے گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں