شیخ الوظائف حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی
فرزانہ، دیوانہ اور مستانہ: میرے محترم دوستو!مستانہ کہتے ہیں ایسے مرید کو جو فنافی الشیخ میں مکمل ڈوب جائے‘ اسے اپنے مرشد کے سوا کچھ نظر ہی نہ آئےاوردیوانے کی صفت یہ ہوتی ہے کہ اس میں ماننے کا مزاج ہوتاہے جو دیوانہ ہوتاہے وہ مان کر چلتاہے اورجو فرزانہ ہوتاہے وہ اپنے مزاج سے چلتاہے۔فرزانہ اپنی طبیعت سے چلتاہے،وہ اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق چلتاہے اور وہ بس ایسے ہی چلتا رہتاہے۔ اس کی روحانی ترقی نہیں ہوتی ۔صبح سے گیا ہوا دیوانہ شام کو آگیا ۔ شیخ نے پوچھا :’’کیا ملا؟‘‘ دیوانے نے کہا ’’رب مل گیا‘‘ شیخ کے چہرے پر بڑا اطمینان تھا اوراس دیوانے کے چہرے پر بھی اطمینان تھا۔اس مجذوب نے یوں ہی مصنوعی بات نہیں کہی تھی، حقیقی بات کہی اوربا لکل اعتماد سے کہا کہ ’’مجھے رب مل گیا‘‘تو مرشدنے فرمایا: ’’تمہیںرب کیسے ملا ؟‘‘عرض کی’’ تین چیزوں سے رب ملا‘‘۔
لوگ غافل تھے ،میں واصل ہوگیا: وہ تین چیزیں آپ کیلئے پیش خدمت ہیں ۔ جب بھی بازار جائیں یا بازار سے گزریں،اس بازاری ماحول میں ان تین چیزوں میں آپ کورب مل جائے گا۔ اس دیوانے مجذوب نے فرمایا:میں نے دیکھا کہ لوگ بازار میں غافل ہیں ، میں واصل ہوگیا۔ ’’میں نے رب کو پا لیا‘‘ ان الفاظ پر غور کیجئے گا کہ ’’ میں نے دیکھا لوگ غافل ہیں میں واصل ہوگیا ‘‘ وصال کے معنی ملاقات کے ہیں‘ میں نے اللہ جل شانہٗ کے تعلق کو قائم رکھا ،لوگ لین دین میںمصروف ہیںاور بازار دنیا میں غافل ہیں ۔
میں اپنا سودا بیچ آیا:پھر اس دیوانے کہا’’ لوگ بازار میں اپنا سودا بیچ رہے تھے میں اپنا سودا بیچ کر آیا اور اس سودے میں مجھے نفع ملا اور نفع میں مجھے رب مل گیا ۔‘‘ مرشد نے فرمایا’’ وہ کیسے ؟‘‘مجذوب نے عرض کی’’ جب سے آپ کی نگاہِ بصیرت مجھ پر پڑی تھی تو اس کے سبب مجھے اس بازار میں کچھ انسان ایسے نظر آئے جو دراصل خنزیر اور کتے تھے۔ لیکن میںنے ہر انسان کو اپنے سے برتر سمجھا اور اپنے آپ کو سب سے کمتر سمجھااور پھر میں نے وہاں اللہ سے ہر کسی کے حق میں دعا کی کہ الہٰی یہ تیری یاد میں مشغو ل ہوجائیں ،یا اللہ کچھ اپنی تجارت کا بھی ان کو ذائقہ اور انہیں اس تجارت کاموقع عطافرما ،کہ:’’ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِنْ عَذَابٍ اَلِیمٍ‘‘(الصف)قرآن کہتا ہے کہ’’ آؤ میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں عذاب علیم سے بچا ئے۔‘‘ ہمارا پروردگارکہتاہے کہ مجھ سے دوستی بھی ایک تجارت ہے۔تو میں نے ان سب کے حق میں دعا کی ،ان کی دنیاو آخرت کیلئے فکر مند ہوا، ان کو اچھی نظر سے دیکھا ،بری نظر سے نہیں دیکھا، اور ان کیلئے خیر خواہی کاجذبہ لے کرسارادن بازار کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چلتارہا اورجب شام کو واپس لوٹا تومیں نے بیٹھ کر صبح اور شام کے اپنے ایمان کو تولا،اپنے ایمان کا موازنہ کیاتو الحمدللہ میں نے اپنے ایمان کو بڑھاہوا پایا۔
طلب سچی مقصود حاصل:اللہ والو! ایمان اس وقت بڑھتاہے جب رب دل میں آتاہے۔ جب رب دل میں آتاہے تو نفع ہوتاہے۔ آج کی تجارت میرے لیے بہت نفع مند رہی۔ میں نے رب کو پالیا۔ آج کے دن میں نے رب کو بازار میں پالیا۔ شیخ پیرومرشد چاہے بازار میں بھیج دے رب کو پانے کیلئے یا پھرمسجد میں بھیج دے اگرمرید کا جذبہ سچاہے اوراس کی طلب سچی ہے،تو اس کو بازار میں بھی رب مل جائے گا اوراگراس کا جذبہ سچا نہیں تواس کو کعبے میں بھی رب نہیں ملے گا ۔
سعادت اور شقاوت:بعثت سے پہلے ایساہوتاتھاکہ بعض اوقات کوئی حاملہ عورت حرم کے اندر ہوتی تو وہیں پر بچے کی ولادت بھی ہوجاتی۔ایسے بچے کو مولود کعبہ کہتے تھے۔ چنانچہ بعض لوگ کعبہ میں پیدا ہوئے لیکن محض مولودِکعبہ ہونا کمال نہیں، کعبہ والے کی ما ننا اور اس کی معرفت ملنا کمال ہےاور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی ولادت بھی کعبہ میںہوئی ہے ۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کعبہ والے کو مانا،کعبہ والے کی ہر بات کو مانا،اس کے حبیب ﷺ کو مانااور وہ اللہ کے ولی اور ولیوں کے ولی بن گئے۔ اولیاء کے باکمال سردار بن گئے ۔آقاﷺ کے داماد بن گئے اور اللہ کے حبیب ﷺ کے چوتھے خلیفہ بن گئےاور ایک بات بڑی عجیب فرمائی کہ جس نے اتباع او ر ماننا سیکھ لیا وہ کامیاب ہوگیا اور ہمار ے شیخ مرشدی ہجویر ی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جس کو ماننا آگیا اس کو اللہ سے منوانا آگیا ۔
ایمان کا پیالہ: تیسری بات جو فرمائی وہ یہ فرمائی کہ میں نے بازار میں جا کر اپنی حالت ایسے بنالی کہ جیسے مجھے بازار میں بادشاہ نے بھیجاہو ا ورمیرے ہاتھ میں دودھ کا پیالہ ہو اوروہ دودھ سے لبالب بھرا ہو ا ہواور اس میں ایک پھول رکھا ہوا ہو اور بادشاہ کے غلام کوڑا لیے میرے پیچھے پیچھے چل رہے ہوں اور حکم یہ ہوکہ بازار کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانا ہے لیکن ایک قطرہ دودھ کا نیچے نہ گرے اور پھول بھی درمیان میں رہے اور کہیںدائیں بائیںنہ ہوجائے۔ پھول اگردرمیان میں رکھا ہے تو جب پیالہ ہلے گا تو دائیں بائیں حرکت تو کرے گاناں۔۔۔!!!اور اگر پیالہ میں حرکت ہی نہیں ہوگی تو پھول تو وہیں جما رہے گا۔ بس میں نے اپنے دل کو پیالہ بنالیا اور اپنے ایمان کو پھو ل بنالیا اور بادشاہ کے کوڑے کو عذاب الٰہی بنالیا اور بادشاہ کے غلام کراماًکاتبین کو بنا لیے اور میں بازار کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گیا ۔میں نے اپنی آنکھوں کو، اپنے کانوںکو، اپنے جسم کو ،اپنے جذبہ کو، اپنے دل کو، اپنے دماغ کو ،اپنی خواہشات کو ،اپنی تمناؤں کو بالائے طاق رکھا۔آخری کونے تک جب میں چلاگیا تومیں نے دیکھا کہ میرا پھول اپنی جگہ پر تھا اور دودھ سے لبالب پیالہ بھی اپنی جگہ پر تھا ،جب آخری کونے میں آیا تو ایک قطرہ بھی نہیں گراتھا ۔اس لیے میںجب آپ کے پاس آیا تومیں نے کہا کہ مجھے رب مل گیا ۔(جاری ہے)۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں