پھر وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا۔ کچھ عرصہ بعد میری اس سے ملاقات ہوئی تو وہ کچھ نروس سی دکھائی دی میں نے براہ راست سوال کیا تو وہ سہم سی گئی‘ آبدیدہ ہوگئی اور ہونٹ کپکپا کر رہ گئے‘ میرے ذہن کے پردے میں ایک فلم متحرک تھی
چوہدری صاحب کا گھرانہ نیک سیرت‘ صوم و صلوٰۃ کا پابند اور خوشحال تھا‘ بچے زیور تعلیم سے آراستہ تھے‘ شہر میں ان کا ایک نام تھا۔ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ محلے بھرمیں ان کا میل جول تھا۔ ہمارے گھر سے ان کے مراسم زیادہ تھے۔ ان کی نظروں میں ہمارے لیے الگ عزت و احترام تھا جب بھی ان کے گھر جانا ہوتا مجھے میکے کا احساس ہوتا۔ گھنٹے لمحوں میں بیت جاتے‘ بہت سی باتیں اگلی ملاقات پر کرنے کا عہد کیا جاتا تب جاکر واپسی کی اجازت ہوتی…چوہدری صاحب کی مسز گنٹھیا کی مریضہ تھیں‘ پھر بھی ان کا آنا جانا کم نہیں ہوتا‘ میرے میاں بھی شوگر کے بیشمار مسائل میں الجھے تھے انہیں چھوڑ کر جانا میرے لیے روز روز ممکن نہ تھا۔ اکثر و بیشتر فون پر دل ہلکا کرلیتے‘ ان کے لہجے کی چاشنی اور محبت کی گہرائی میں پہروں گزرنے کا احساس نہ ہوتا‘ گھر بھر کی باتیں اور خوش گپیاں تفکرات دنیا سے بہت دور لے جاتیں۔ میں انہیں خالہ جی کہہ کر بلاتی تھی وہ اکثر کہتیں کہ جب تم آتی ہو گھر میں پھلجھڑیاں سی بکھر جاتی ہیں‘ ہنستی مسکراتی آتی ہو‘ کوئی ملال‘ کوئی پریشانی یا تفکر تمہارے چہرے پر عیاں نہیں ہوتا۔ وقت کا دھارا یونہی ہنستے مسکراتے گزر رہا تھا۔ ایک بیٹے کی شادی انہوں نے پہلے کردی تھی‘ ایک بیٹی کم سن تھی اور ایک عالمہ کا کورس کررہی تھی باقی بیٹے بھی اچھی تعلیم حاصل کررہے تھے۔ بڑی بیٹی چہکتی‘ مہکتی اور گلاب کی طرح کھلی کھلی گھر بھر کی زینت تھی۔ گھر کا ماحول سنجیدہ سنجیدہ تھا بس یہی مہ جبیں ہی منفرد تھی۔
ایک دن خبر ملی کہ جلد ہی مہ جبیں کی شادی ہے‘ بہت شریف گھرانہ ہے‘ لڑکا سرکاری ملازم ہے‘ لڑکی بھی بہت خوبصورت تھی‘ اس کے خدوخال دلکش تھے‘ سونے پر سہاگہ اس کی مترنم آواز تھی‘ بولتی تو یوں محسوس ہوتا کہ جیسے کوئی بہت ہی سریلی آواز کانوںمیں رس گھول رہی ہو‘ گھر میں خوشحالی تھی‘ بڑی دھوم دھام سے رخصت ہورہی تھی‘ جٹ فیملی تھی ان میں بیٹی کے ساتھ گائے یا بھینس بھی رخصت کی جاتی ہے‘ رخصتی کا منظر کسی شاہی عروسہ کا دکھائی دیتا تھا۔
پھر وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا۔ کچھ عرصہ بعد میری اس سے ملاقات ہوئی تو وہ کچھ نروس سی دکھائی دی میں نے براہ راست سوال کیا تو وہ سہم سی گئی‘ آبدیدہ ہوگئی اور ہونٹ کپکپا کر رہ گئے‘ میرے ذہن کے پردے میں ایک فلم متحرک تھی‘ ایک طلاق یافتہ نند نے زندگی میں زہربھردیا تھا اور خاوند کی ناعاقبت اندیشی سے معاملہ اور بھی بگڑتا گیا۔ الہڑ سی مٹیار کو اس جنگلی ماحول نے نیم پاگل کردیا تھا۔ وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگی بُری طرح احساس کمتری کا شکار ہوچکی تھی‘ تین چار سال میں وہ پرانی تپ دق کی مریض دکھائی پڑتی تھی۔
امید کی کرنیں زندگی کو حرارت بخشتی ہیں‘ والدین نے چھوٹے بیٹے کی شادی کا ارادہ کیا گھر میں کچھ مایوسی کی فضا قائم ہوئی‘ شب و روز تیاری میں وقت گزرنے لگا اور وقت کی ہر ادا نرالی ہے یہ کبھی رلاتا ہے اور کبھی روتے ہوؤں کوہنساتا ہے لیکن زندگی تسلسل کا نام ہے۔ خوشی خوشی بیٹا اپنی پھوپھو زاد کو بیاہ کر لایا‘ گھر میں بہار سی آگئی‘ گویا رونقیں لوٹ آئی ہوں‘ کوئی نہیں جانتا کہ خوشیاں اور شادمانیاں چند دن کو آئی ہیں۔ تحریر لوح تقدیر پر کنداں ہوگئی وہ تو اٹل ہوجاتی ہے۔اللہ نے جلد ہی اولاد کی خوشخبری دے دی‘ ابھی ارمانوں کی دنیا بسی تھی کہ دولہا میاں جگر کے کینسر کا شکار ہوگئے کہتے ہیں غربت سب سے بڑھ کر ذلت ہے لیکن بیماری سے بڑھ کر کوئی کرب و عذاب نہیں۔ قدم قدم پر اندیشے منہ کھولے کھڑے تھے۔ باپ اپنی پریشانی کو چھپائے بیٹے کے علاج میں مصروف اور بیٹا اپنی مرض سے باخبر امید و یاس کی ٹمٹماتی کرنیں دیکھ رہا تھا۔ ہر اپنا غیردست دعا ہوا لیکن ہونی کو ہونا ہی تھا۔ ماں بیٹے کی تڑپ نہ سہہ سکی اور اچانک پلک جھپکتے سب سے جدا ہوگئی۔ اس ناگہانی موت سے سنبھل نہ پائے تھے کہ بیٹا جس کے سہرے کے پھول ابھی تازہ تھے جس کی بیوی ننھی کونپل کی آبیاری میں مگن تھی وہ سب سے بے خبر گہری نیند سوچکا تھا۔ ماں‘ بیٹے کی وفات میں 19دن کا وقفہ تھا۔ ایک کہرام برپا تھا۔ جس گھر میں کبھی خوشیاں اور مسکراہٹیں تھیں اب خاموشی کا راج تھا۔ چوہدری صاحب غمگسار بیوی اور نوجوان بیٹے کے غم میں نڈھال صرف آٹھ ماہ کا قلیل عرصہ گزار پائے اور تمام دکھوں سے سے آزاد ہوگئے اور جس بیٹی کی شادی کا ذکر پہلے کیا تھا وہ محرومیوں اور صدموں سے سوکھ کر کانٹا بن چکی تھی۔ ٹی بی اور نفسیاتی امراض نے دیمک کی طرح اس کے سڈول جسم کو چاٹ لیا تھا اور پھر وہی 19دن باپ کے بعد بیٹی بھی جہاں فانی سے کوچ کرگئی۔ بعض اتفاقات ایسے ہوتے ہیں جیسے انہیں ترتیب دیا گیا ہو۔ شہر بھر سوگوار تھا‘ ہر آنکھ اشکبار تھی‘ سوال اٹھ رہا تھا یہ جادو ہے‘ سحر ہے‘ یا نظربد کا اثر ہے۔ یااللہ کے نیک بندوں کی آزمائش ؟ اس واقعہ کو چھ برس بیت چکے ہیں لیکن ایسے لمحوں اور حادثوں کو صدیوں نہیں بھلایا جاسکتا۔ نوجوان بیٹے کی نشانی ماں کی شفقت میں پروان چڑھ رہی ہے جس نے اپنی زندگی کے سارے سپنے سارے ارمان بیٹے کے نام کردئیے ہیں اور مہ جبیں کے بچے باپ کے آنگن میں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کو ہیں سانسوں کی آمدورفت جب تک جاری رہے گی انسان زندہ رہے گا۔ مشیت ایزدی کے آگے ہر نفس عاجز و بے بس ہے۔ کیونکہ قدرت کے فیصلے اٹل ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ یقیناً ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں