کبھی گلی سڑی لاشیں دکھتا اور کبھی میں کسی کو قتل کرتا دکھائی دیتا‘ کبھی کوئی مجھے قتل کرتا اور عجیب بات یہ تھی کہ جب بھی ایسے خوابوں سے ڈر کر میری آنکھ کھلتی تو صبح کے تین بج رہے ہوتے اور جب میں جاگ رہا ہوتا تو ایسا محسوس ہوتا جیسے میری چارپائی سے باقاعدہ کوئی ٹکریںمار رہا ہو۔
وہ ایک سرد دن تھا‘ غالباً جنوری فروری کا مہینہ تھا‘ موسم ابرآلود ہورہا تھا۔ کبھی ہلکی اور کبھی تیز بارش شروع ہوجاتی تھی اور سردی کی شدت میںمزید اضافہ ہوجاتا تھا۔ کچے راستوں میں بارش کی وجہ سے جابجا پانی کھڑا تھا اور کیچڑ کی وجہ سے پھسلن بھی زیادہ تھی۔ لوگ دکانوں میں آگ جلائے سردی سے بچنے کی کوشش کررہے تھے اور میں اس وقت اپنے ایک دوست کے گھرجارہا تھا اس کے گھر کے راستے میں ایک قبرستان پڑتا تھا میں اس قبرستان سے ہوکر اس کے گھر جایا کرتا تھا۔
اسوقت د وپہر کے غالباً تین یا چار بج رہے تھے دوست کے گھر پہنچا تو وہ گھر ہی میں مل گیا۔ جب میں دوست کے گھر سے واپسی کیلئے نکلا تو شام کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ میں قبرستان کے گیٹ پر پہنچنے والا تھا بیس قدم فاصلہ باقی تھا کہ اچانک کسی نے مجھے پکارا۔ اس وقت قبرستان میں بہت کم لوگ تھے جو گھر جارہے تھے ان میں دو بوڑھے آدمی بھی تھے جو مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر تھے میں نے ان کی طرف دیکھا شاید وہ کچھ پوچھ رہے ہوں؟ وہ میری طرف متوجہ نہ تھے۔ میں پھر چلنے لگا تو دوبارہ مجھے کسی نے پکارا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ان بوڑھے افراد میں سے ایک نے مجھے قبرستان کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہاں سے ایک آدمی آپ کو بلا رہا ہے۔ میں سوچنے لگا نجانے کون ہے مجھے کیوں بلارہا ہے؟ شاید کوئی پتہ وغیرہ یا کوئی بات پوچھ رہا ہو۔ میں اس آدمی کے پاس پہنچ گیا، عمر اندازاً چالیس پچاس سال کے درمیان تھی اور وہ قبرستان کے ایک ویران سے گوشے میں دو انتہائی بوسیدہ اور پرانی قبروں کے پاس بیٹھا تھا۔ انہی قبروں کے اردگرد بڑے اور پرانے درخت بھی تھے‘ کچھ درخت سوکھے ہوئے بھی تھے‘ اس جگہ کا عجیب سا ماحول تھا۔
عجیب سی ویرانی اور وحشت سی محسوس ہورہی تھی اس جگہ پر وہ آدمی جس کی عجیب سی شکل وصورت تھی لمبا سا قد تھا۔ اس وقت وہ شاید کچھ پڑھ کر فارغ ہوا تھا اور ایک سوکھے درخت کے ساتھ کچھ باندھ رہا تھا۔ پھر وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا میں نے ہی بلایا ہے اور ایک شاپر کھولا جس میں گرما گرم کباب تھے۔ ایک کباب اس آدمی نے مجھے دیا اور کہنے لگا ہم نے شرط جیتی ہے۔ یہ اس کےہیں نجانے کیوں وہ شخص مجھے جھوٹا لگا۔ اس کی باتوں کا مجھے یقین نہ آیا۔ ایک کباب اس آدمی نے مجھے دیااور باقی کا کہا کہ یہ کباب ان بزرگوں کو دینا۔ باقی کباب میں نے ان بزرگوں کو دے دیئے جو جانے ہی والے تھے اور جب میں قبرستان سے باہر نکلا تو اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ اس کباب کو کھانے کو میرا دل بالکل نہیں چاہ رہا تھا۔ نجانے کیسے میں نے وہ کباب کھالیا۔ جو مرچوں سے بھرا ہوا تھا اور انتہائی بدذائقہ تھا ایسا بدذائقہ کباب میں نے کبھی نہ کھایا تھا۔ وہاں سے میں گھر لوٹ گیا۔ اس دن میری عجیب سی حالت تھی پیاس بھی اچانک زیادہ لگنے لگی‘ زیادہ پانی پینے کی وجہ سے پیشاب بھی زیادہ آنے لگا اس لیے بار بار لیٹرین جانا پڑتا۔ اس واقعے سے پہلے کبھی مجھے خوفناک‘ ڈراؤنے خواب نہیں آئے تھے۔ آتے تو صرف اچھے خواب آتے‘ مردے اور قبرستان تو کبھی خواب میں مجھے دکھائی ہی نہیں دیئے۔ مگر اس رات جب میں سویا تو مجھے خواب میں مرے لوگ دکھائی دیئے اور گھڑی پر وقت دیکھا تو صبح کے تین بج رہے تھے اور پھر نیند تو جیسے کافور ہوگئی تھی اس طرح مجھے اپنے محلے کے مردہ لوگ دکھائی دینے لگے جن سے میری کوئی جان پہچان نہیں وہ میرے پیچھے دوڑتے کبھی خواب میں لاوارث لاشیں اور قتل کیے ہوئے لوگ دیکھتا جن کی لاش کے اردگرد پولیس فوج کھڑے تفتیش کررہے ہوتے اور لاش سے بدبو کے بھبھکے اٹھتے کبھی گلی سڑی لاشیں دیکھتا اور کبھی میں کسی کو قتل کرتا دکھائی دیتا‘ کبھی کوئی مجھے قتل کرتااور جب میں جاگتا تو ایسا محسوس ہوتا جیسے میری چارپائی سے باقاعدہ کوئی ٹکریںمار رہا ہو۔
اس کے بعد کئی ماہ تک مجھے ایسے خواب آتے رہے اس قسم کے واقعات پیش آتے رہے۔ اس کے بعد میری یہ حالت ہوگئی کہ میرا پورا بدن ٹوٹتا رہتا ہروقت جسم کھچا تنا شدید ہوتا تھا کہ مجھے ہوش ہی نہ رہتی‘ نیند‘ بھوک سب اڑ گیا تھا۔ نہ صحیح سے نیند کرپاتا نہ کھاسکتا۔ پہلے پیاس شدید لگتی تھی اس کے بعد پیاس بالکل ہی نا لگتی۔ ان سب بیماریوں نے مجھے بہت کمزور کردیا تھا‘ میں ہڈیوں کا پنجر بن گیا تھا‘ ڈاکٹروں‘ حکیموںکے چکر لگا لگا کر تھک چکا تھا‘ بہت علاج کروایا مگر نتیجہ صفر رہا۔ میں زندگی سے بالکل مایوس ہوچکا تھا‘ گھر میں سب پریشان تھے اس سے پہلے میں اتنا بیمار کبھی نہیں ہوا تھا۔ یہ کیسی بیماری تھی جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
ہروقت بے ہوشی سی طاری رہتی تھی کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ میری صحت اس قدر گرچکی تھی کہ کوئی اپنامجھے پہچان نہیں سکتا تھا۔ میرے دادا عملیات میں بھی تھوڑی بہت مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا بیمار ہونے سے پہلے تم کسی سے ملے ہو کسی سے کچھ لیکر کھایا تھا… اس وقت مجھے وہ قبرستان والا واقعہ یاد آگیا۔ جو میں نے سارا دادا جان کو سنادیا۔ انہوںنے مجھے کہا یہ سب اس کی نحوست اور گندے اثرات ہیں۔ پھر انہوں نےمجھے ایک پاؤ کلونجی پر کچھ دم کرکے اسے ایک طریقے سے استعمال کرنے کو کہا اور وہ کلونجی میں نے استعمال کرنا شروع کردی۔ یقین جانیے! وہ کلونجی جونہی استعمال کرنا شروع کی میری حالت سنبھلنا شروع ہوگئی ایک ماہ میں ہی اللہ کے حکم سے میں بالکل ٹھیک ہوگیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں