حضرت مولانا دامت برکاتہم العالیہ عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ان کی نامور شہرہ آفاق کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
انہیں چندہ سے بالکل مناسبت نہیں تھی مگر پھلت کی تاریخی جامع مسجد کی دیواروں کو دیکھ کر‘ جاننے والوں کا اصرار تھا کہ دیواریں جو ریہہ لگ گئی ہیں جلد ان کی مرمت ہونی چاہیے۔ ورنہ مسجد کے گرجانے کا خطرہ ہے۔ سفر حج کے دوران بیسیوں سال قبل اُنہوں نے ایک مسجد کی دیوار پر ماربل دانہ (موزیک) لگا دیکھ کر بڑی دعائیں کی تھیں‘ یااللہ! ہماری مسجد میں بھی ایسا ہی دانہ لگوادیجئے۔ یہ کس قدر خوش نما معلوم ہوتی ہے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ دیواروں پر مرمت کے بعد ماربل دانہ لگوایا جائے۔
اللہ کے بھروسے پر اُنہوں نے مزدور لگوادئیے اور دیواروں سے ریہہ لگا مصالحہ اتروانا شروع کیا۔ مارچ کا مہینہ تھا۔ کل فصل کا ایک تہائی گنا کھیتوں میں کھڑا تھا۔ شوگر مل میں دس روپے کوئنٹل کا سرکاری بھاؤ چل رہا تھا۔ کریشروں میں دام بڑھنے کی وجہ سے مل نے ایک روپیہ کوئنٹل اضافہ کا اعلان کیا۔ والد صاحب محترم نے ایک روز تہجد میں دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھ کر دعا کی: الٰہی! آپ کا گھر ہے‘ آپ کا کام ہے‘ کیوں مجھ سے در در بھیک منگواتے ہیں‘ میں نیت کرتا ہوں کہ دس روپے کوئنٹل سے جو زیادہ بھاؤ ہوگا وہ آپ کے گھر کا‘ بس ہماری مسجد میں دانہ لگوادیجئے۔ ان کا نیت کرنا تھا کہ گنےکا بھاؤ بڑھنا شروع ہوگیا۔ کولہو اور کریشروں میں دام بڑھنے کی وجہ سے شوگر مل بند کرنا پڑی۔ راقم سطور کے گھر کے باہر ایک سلفر کریشر والے نے کانٹا لگوایا تھا۔ 35 روپے کوئنٹل‘ گنے کے اگولوں اور پتیوں سمیت گنا خریدا جارہا تھا۔ جو گنا 35 کوئنٹل فی بیگہ سے زیادہ نہیں نکلتا تھا 50 کوئنٹل فی بیگہ تک نکلا۔
دیکھتے دیکھتے اب سے تقریبا 35 سال قبل تیس ہزار سے زائد کے خرچ کا اکثر حصہ اس 10روپے اور 30کوئنٹل سے زائد کی رقم سے پورا ہوگیا۔ کچھ لوگوں نے ازخود بھی چندہ دیا۔
دوسرا سال آیا تو پھر گنا سستا ہوگیا اور پانچ روپے کوئنٹل تک دام مشکل سے مل رہے تھے۔ والد محترم بڑے اعتماد کے ساتھ یہ بات فرمایا کرتے تھے کہ میں نے نیت کی تھی۔ اپنی طرف سے کچھ نہیں دینا پڑا اور مسجد کاکام ہوگیا اور میری حسرت پوری ہوگئی اور میری اچھی نیت کے صدقہ میں پورے علاقے کے کسان مالدار ہوگئے اور کسانوں کے پاس پیسہ ہونے کی وجہ سے سارے تاجروں کاکاروبار چلا۔ یہ صرف میری نیت کا صدقہ تھا۔
یہ بات بالکل حقیقت تھی۔ سخاوت ایسی مبارک شے ہے کہ اس کی نیت کرنے والوں کے صدقہ میں رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے مگر اس کی لذت اور مزہ خوش نصیبوں کو عطا ہوتا ہے۔ راقم سطور کے جاننے والے ایک سخی دوست نے بڑے پتے کی بات کہی۔ مزے لیکر وہ فرمانے لگے کہ راہ خدا میں خرچ کرنے میں اگر اخروی اجر نہ بھی ہوتا تو خرچ کرنے کی لذت اور مزہ خود بڑا اجر ہے۔ کاش اس لذت کا کچھ حصہ ہمیں بھی نصیب ہوجائے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں