بیماریوں کے اسباب میں سے ایک سبب روح کا مضمحل ہونا بھی ہوتا ہے پھر جب یہ فساد روح‘ اعضاء اور اس کے ذریعے افعال میں بگاڑ پیدا کرتا ہے تو مختلف ظاہری و باطنی علامات مرض نمودار ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ روزہ بیماریوں کے اسباب کو جسم پر اثر انداز ہونے سے کم کردیتا ہے۔
روزہ ڈھال ہے:رمضان کا بابرکت مہینہ ہم پر سایہ فگن ہونے کوہے۔ روحانی اور جسمانی اعمال و افعال کی اصلاح اور تزکیہ نفس‘ مواسات و غم خواری جیسی صفات کا حامل یہ ماہ مبارک نبی کریم ﷺ کا نوع انسان کیلئے ایک غیرمعمولی تحفہ ہے جس میں ایک فرد انفرادی اور اجتماعی اعتبار سے روحانی اور جسمانی بیماریوں سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ غالباً اسی لیے ’’الصوم جنۃ‘‘ ’’روزہ ڈھال ہے‘‘ کہا گیا ہے۔ یہ انسان کو ذہنی‘ جسمانی اور روحانی پسماندگی سے بچاتا ہے۔ برائیوں سے روکتا اور پریشانیوں سے نجات دلاتا ہے۔ نفس کی بے راہ روی کو لگام دیتا ہے اور بہیمیت کو قابو میں لاتا ہے۔ انسانی فکر کو نیکی اور پاکیزگی کی طرف راغب کرنے کے ساتھ ساتھ عمل صالح پر بھی اکساتا ہے۔ اسی لیے یہ فرمان نبوی ﷺ ہے ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ جس طرح زرو مال کی زکوٰۃ کی ادائیگی سے مال پاکیزہ ہوجاتا ہے اسی طرح روزے سے بھی انسانی جسم مطہرہ ہوجاتا ہے۔ اس کے خیالات‘ افکار‘ اعمال اور جذبات تک درستگی و راستگی کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔
روزہ اور بیماریوں کے اسباب:یہ بات تو حتمی ہے کہ بیماریوں کے اسباب میں سے ایک سبب روح کا مضمحل ہونا بھی ہوتا ہے پھر جب یہ فساد روح‘ اعضاء اور اس کے ذریعے افعال میں بگاڑ پیدا کرتا ہے تو مختلف ظاہری و باطنی علامات مرض نمودار ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ روزہ بیماریوں کے اسباب کو جسم پر اثر انداز ہونے سے کم کردیتا ہے۔
اسی طرح روزہ افکار و خیالات کو لاحق ہونے والے سوء مزاج کو بھی ختم کرتا ہے پھر خیالات میں پاکیزگی کا یہ عنصر برائیوں کے خاتمے کا باعث بنتا ہے۔ انسان میں خود اعتمادی کی نئی لہریں جنم لیتی ہیں چنانچہ اعتماد کی قوت سے مالامال فرد اپنی تندرستی کے لمحات کو طویل تر بناسکتا ہے اور اگربیمار پڑجائے تو بیماری کا مقابلہ نہایت ہی اچھے طریقے سے کرسکتا ہے اور درد و الم کے اوقات کو نہایت کم کرسکتا ہے۔ خوداعتمادی اس فرد کے معاملات زندگی میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی صلاحیت کو بھی اجاگر کردیتی ہے اور وہ کبھی بھی گومگو کی کیفیت کا شکار نہیں ہوتا۔ بھوک‘ پیاس کی شدت‘اشیاء خوردو نوش کی موجودگی کے باوجود ایک وقفے اور عرصے تک کھانے‘ پینے سے اجتناب‘ خیالات و کردار کی راستگی اور برائیوں سے گریز‘ اس کے اندر برداشت و حوصلہ کی ایک ایسی تحریک برپا کردیتا ہے جو اسے دوسروں کی ہمدردی اور غم خواری کا سبق دیتی ہے۔
قوت ارادی کا جسم پر اثر: نیکی کے کاموں میں آنے والی رکاوٹوں اور مشکلات کو صبرو تحمل سے برداشت کرنے کا حوصلہ بخشتی ہے اور ہر مشکل مرحلے پر نیکی و بدی کی تمیز سکھاتی ہے اور صحیح راہ کے تعین میں مدد دیتی ہے۔ یہی حوصلہ بیماریوں سے نجات‘ ان پر قابو پانے اور تیزی سے صحت کی طرف گامزن ہونے میں مدد دیتا ہے۔ یہ بات عام مشاہدے میں ہے کہ اکثر خطرناک امراض میں مبتلا افراد اور حادثات میں بری طرح زخمی ہوجانے والے لوگ صرف اپنی قوت ارادی اور برداشت کے بل بوتے پر ہنستے مسکراتے ہوئے صحت یاب ہوجاتے ہیں اور دوبارہ کاروبار حیات میں روزہ کی حالت میں غذاکی کمی کا ایک اور فائدہ بھی ہوا کرتا ہے اور وہ یہ کہ پورے بدن کی قوت جاذبہ‘ ماسکہ‘ ہاضمہ اور وافعہ کو سکون مل جاتا ہے جس سے ان کی قوت کار باقی گیارہ ماہ کیلئے زیادہ ہوجاتی ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ہی کی ایک شان ہے کہ وہ انسان کے لیے زیادہ قوت فراہم کرنے کے لیے ایسا سامان آرام و سکون فراہم کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حکمتیں تو ایسی ہیں کہ ان کا احاطہ کسی ایک پہلو سے بھی مکمل نہیں ہوسکتا۔ یہاں تو بات ایمان بالغیب کی ہے اور اس بات کا کچھ اور ہی مزہ ہے کہ آپ نے حکم دیا اور ہم نے لیا باقی اس کی حکمتیں کیا کیا ہیں ان پر تو ہر دور اور ہر زمانے کے تجربات و مشاہدات گواہی دیتے رہیں گے۔
غذا کیسی ہونی چاہیے:انسانی جسم میں ہر وقت خلیات کی شکست و ریخت کا ایک لامتناہی سلسلہ قائم ہے۔ بدن کے خلیات ہروقت ٹوٹتے پھوٹتے اور بدن کو توانائی مہیا کرتے رہتے ہیں۔ یہی توانائی زندگی کو قائم و دوائم رکھنے کی غرض سے ہوتی رہتی ہے۔ اگر خلیات کی ٹوٹ پھوٹ کا یہ سلسلہ یکطرفہ طور پر قائم رہتا تو بدن انسان بہت ہی جلد اپنی بالیدگی کی انتہا کو پہنچے بغیر فنا ہوجاتا اور سلسلہ حیات بہت جلد ختم ہوجاتا ہے۔چنانچہ ضرورت اس امر کی تھی کہ خلیات کی اس شکست و ریخت کے نقصان کو پورا کرنے اور ان کی تعمیرومرمت کے علاوہ نئے خلیات پیدا کرنے کیلئے کوئی ایسی چیز جو متبادل کے طور پر ان تباہ شدہ خلیات کی جگہ نئے خلیے بنانے میں مدد دے اور فناشدہ ساختوں کی تعمیرومرمت کرے تاکہ توانائی کی پیدائش کا سلسلہ قائم و دائم رہے ار انسانی نشوونما اور بالیدگی نمایاں طور سے ہوسکے۔ مثلاً ہمارے اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے‘ چلتے پھرتے‘ کھیلتے کودتے اور سوچ و بچار کرتے غرضیکہ ہماری خفیف سے خفیف حرکت سے بھی توانائی خرچ ہوتی ہے اور اس توانائی کو پیدا کرنے کے لیے ہمارے جسم کے لاکھوں خلیے فنا ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اس مقصد کی تکمیل کی غرض سے خالق کائنات نے نبات الارض اور مختلف حیوانات کے لحمیات کو دہن انسانی کیلئے مرغوب کررکھا ہے تاکہ انسانی بدنی حرارت کو قائم رکھتے ہوئے توانائی کی پیدائش کے سلسلہ کو جاری و ساری رکھ سکے اور بدن کی بڑھوتری اور نشوونما کے لیے مطلوبہ ایندھن مہیا کرسکے۔غذا انسانی زندگی کا ایک اہم موضوع ہے‘ افعال کو صحیح و سالم رکھنے کے لیے اور اپنے فرائض کو پوری تندہی سے سرانجام دینے کے لیے اچھی صحت اور تندرست ذہن انتہائی ضروری ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب اچھی اور متوازن خوراک استعمال کی جائے چنانچہ اچھی اور متوازن خوراک وہی ہوسکتی ہے جس میں بدن کی ضروریات کے مطابق اجزاء پائے جائیں۔ ایسے اجزاء جو بدن کی نشوونما اور پرورش صحیح اور مکمل طور سے کرسکیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں